کیا جناب مسیح علیہ السلام کا تاریخ میں ذکر نہیں ہے؟

اگر تو بات محترم عمران خان صاحب تک ہوتی تو میں اس لغو سوال کا کبھی جواب نہ دیتا بلکہ ان کی طرف سے چھوڑی جانے والی شُرلیوں کے لمبے سلسلے میں اس کو محض ایک اور اضافہ سمجھتا۔ لیکن کچھ فاضل دوستوں نے جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے، اس سوال پر (حسب معمول) سنجیدہ دلائل دینے شروع کر دیئے ہیں۔ اس سے پہلے وہ یو ٹرن کے شرعی اور تاریخی فضائل پر مجلس سجاۓ بیٹھے تھے۔

تاریخ کا نالائق اور سپلی یافتہ طالب علم بھی جانتا ہے کہ جناب مسیح کا ذکر تاریخ کے ابواب میں ان گنت حوالوں سے موجود ہے۔ ادب، فلسفے، مذہب تاریخ کی بحثوں میں ان گنت حوالے جناب مسیح یا ان کی تعلیمات پر استوار نظریات سے کسی نہ کسی صورت میں متعلق ہو جاتے ہیں۔ یورپی ادب و تاریخ پر جس قدر گہری چھاپ جناب مسیح کی ہے، کسی دوسری شخصیت کی نہیں ہے۔

ایک نوخیز نبی جس کا زمین پر عرصہ حیات نہایت مختصر رہا، جس نے ایک دن بھی نہ حکومت کی نہ کسی عہدے پر رہا لیکن اس کے باوجود وہ کروڑ ہا لوگوں کے دل کی دھڑکن رہا ہے۔ اس کی تعلیمات پر ان گنت فلسفے اور الہیاتی نظام وضع کئے گئے۔ اس کی تعلیمات نے بعد میں آنے والے مذاہب پر بھی گہرے اثرات مرتب کئے، آج بھی ان کی شخصیت اور ان کی تعلیمات زیر بحث ہیں۔ آئیے انتہائی اختصار کے ساتھ چند معتبر ترین مورخین کی آرا پیش کرتے ہیں:

1۔ "میں مسیح کا ذکر تاریخ جدید کے ہر صفحے پر پاتا ہوں” (جارج بین کرافٹ)
George Bancroft

2۔ "میں ایک مورخ ہوں، نہ کہ کوئی عقیدہ پرست، لیکن ایک مورخ کے طور پر مجھ پر یہ اعتراف لازم ہے کہ ناصریہ کا یہ فقیر صفت مبلغ تاریخ کا مرکزِ ثقل ہے (ایچ جی ویلز)
H. G. Wells

3۔ "یہ اُس کی اہمیت کی دلیل ہے اور اس اثر کی جو اس نے تاریخ پر مرتب کیا اور اس کی پراسرار شخصیت کی کہ کوئی بھی دوسری زندگی جس کا ظہور اس کرہ ارض پر ہوا اس قدر ادب کا موضوع، اتنے زیادہ مصنفین کے قلم سے، اتنی زیادہ زبانوں میں نہ بن سکی اور یہ سیلاب ٹھہراؤ کی بجاۓ مزید اضافے کی طرف گامزن ہے”۔ (کینتھ سکاٹ لیٹورٹ)
Kenneth Scott Latourette

4۔ تاریخ حضرتِ مسیح کے ذکر کے بغیر ناقابل فہم ہے (ارنسٹ ریناں)۔
Ernest Renan

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے