ہم پولیس کے مجرم تو نہیں؟

چین کے قونصل خانے پر حملہ تو جوانوں نے جان پر کھیل کر ناکام کر دیا لیکن کیا کہانی یہیں ختم ہو گئی ؟ چلیں تالپور خاندان کی پولیس افسر کے بارے میں سندھ حکومت کے بیانیے پر کوئی سوال نہیں اٹھاتے اور اسے من و عن تسلیم کر لیتے ہیں ، مان لیتے ہیں کہ انہوں نے اس ایک معمولی پستول کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی قیادت کی ہو گی ، یہ بھی مان لیتے ہیں کہ جب وہ پولیس اہلکاروں کے ساتھ آپریشن کے لیے بڑھ رہی تھیں اور اہلکار چوکنے انداز میں اسلحہ سیدھا کیے ان کے پیچھے چل رہے تھے تو یہ محض فوٹو شوٹ نہ تھا بلکہ ایک کیمرہ مین نے جان کو خطرے میں ڈال کر سامنے سے فوٹو بنا لیا تھا ، چلیے اس سوال کا بھی گلا گھونٹ دیجیے کہ کیا دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی فارمیشن یہی ہوتی ہے کہ اس طرح اکٹھے ہو کر چلا جائے کہ کسی جدید اسلحے کا برسٹ تو ایک طرف ، بارہ بور کا ایک کارتوس بھی آدھوں کو گھائل کر دے ۔ لیکن کچھ اور سوالات بھی ہیں ان کا کیا کیا جائے ؟

پہلا سوال یہ ہے کہ جن جوانوں نے جان قربان کی ان کے لواحقین کے لیے ریاست کے پاس کوئی ٹھوس پروگرام ہے ؟ پولیس کے جوان جب شہید ہو جاتے ہیں تو ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت اور لواحقین کی کفالت کے لیے کیا آج تک کسی حکومت نے ڈھنگ کا کوئی منصوبہ پیش کیا ؟ تھانوں کی گرانٹ بھی اعلی افسران کھا جاتے ہیں اور اچھی گاڑیاں بھی افسران اور ان کی اولاد اور بیگمات کے استعمال میں رہتی ہیں ۔ لیکن جب یہ شہید ہو جائیں کم از کم اس کے بعد تو ان کا کچھ احساس کیا جانا چاہیے ۔ کیا کسی بھی سطح پر یہ احساس موجود ہے؟ بے حسی کی انتہاء یہ ہے کہ پولیس اہلکار شہید ہو جائیں تو بسوں اور ویگنوں کی چھتوں پر رکھ کر ان کے جسد خاکی ان کے گھروں کو روانہ کیے جاتے ہیں۔

جن جوانوں نے جان قربان کر کے چینی قونصلیٹ کی حفاظت کی ان کی قربانی کا چین تک میں اعتراف کیا جا رہا ہے ۔ چینی سماج کی حساسیت کا یہ عالم ہے کہ لوگوں نے ان شہداء کے لیے فنڈز اکٹھے کرنا شروع کر دیے ہیں تا کہ ان محسنوں کے خاندانوں تک پہنچائے جا سکیں ۔ ایسی ہی حساسیت پاکستان کے سماج میں کیوں نہیں سامنے آ سکی؟ یہ آ ج کا دوسرا سوال ہے۔

ہم ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہیں ۔ فوج نے اپنی ذمہ داریاں بلا شبہ قربانی دے کر ادا کیں ۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ جب فوج علاقے کو دہشت گردوں سے خالی کروا لیتی ہے تو اس کے بعد امن عامہ کو برقرار رکھنے کا کام سول انتظامیہ کا ہوتا ہے اور سول ڈھانچے ہی نے اسے ادا کرنا ادا کرنا ہوتا ۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ اس کام کے لیے سول ڈھانچے کی تیاری کا عالم کیا ہے ؟ پولیس کی ذمہ داریاں اب بڑھ گئی ہیں ۔ اب وہ حالت امن میں روایتی انداز سے کام کرنے والا ادارہ نہیں رہا اب وہ دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن پر کھڑا ہے ۔ کسی چوراہے میں ، بازار میں ، تقریب میں ، جلسے میں کہیں بھی کسی بھی وقت پولیس کو دہشت گردی کا سامنے ہو سکتا ہے اور سب سے پہلے پولیس ہی نے اس سے نبٹنا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کام کے لیے پولیس کو کتنا تیار کیا گیا ہے ؟ کیا اس کی تربیت کی گئی؟ کیا اسے جدید اسلحہ اور آلات فراہم کیے گئے؟

چوتھے سوال کا تعلق اس بات سے ہے کہ ہم آخر پولیس سے چاہتے کیا ہیں ؟ کیا کبھی اس پر غور کیا گیا کہ اس سے ہم نے کون کون سے کام لینے ہیں؟ ایک پولیس اہلکار انسان ہے ، وہ نہ سپر مین ہے نہ ٹارزن ، سوال یہ ہے کہ ریاست اسے کب انسان سمجھنا شروع کرے گی؟ اسی اہلکار نے مقدمے کی تفتیش کرنی ہے ، اسی نے مجرم پکڑنے ہیں ، اسی نے رات کو ناکوں پر ڈیوٹی دینی ہے ، اسی نے وی آئی پی حضرات کے لیے لگائے گئے روٹ پر بھوکا پیاسا کھڑا ہونا ہے، اسی نے قیدیوں کو عدالتوں میں پیش کرنا ہے ، اسی نے دہشت گردوں سے لڑنا ہے ۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا یہ ممکن ہے؟ پولیس کے اندر مختلف ذمہ داریوں کی تقسیم آج تک کیوں نہیں ہو سکی کہ پتا چل جائے اس ونگ کا کام صرف تفتیش کرنا ہے اور وہ اسی میں مہارت حاصل کرے ، دوسرے ونگ کا کا م دہشت گردی سے نبٹنا ہو اور وہ اسی کام میں مہارت حاصل کرے ۔ اسی طرح ذمہ داریوں کی تخصیص ہوتی رہے۔ کسی کے پاس کوئی جواب ہے کہ یہ کام آج تک کیوں نہیں ہو سکا۔

پانچواں سوال پولیس کی پیشہ ورانہ تربیت سے متعلق ہے۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف قربانیان دینے والے اس ادارے کے جوانوں کی تربیت کا معیار کیا ہے؟ ایک ماہ میں وہ کتنی دفعہ جدید اسلحہ کی تربیت حاصل کرتے ہیں ؟ ایک اہلکار ایک ماہ میں کتنی گولیاں فائر کرتا ہے؟ ہر روز کتنی دیر ان کی جسمانی مشقیں ہوتی ہیں ؟ ان کے پاس کون کون سا جدید اسلحہ موجود ہے ؟ وہ کس کس اسلحے کے استعمال پر مہارت رکھتے ہیں ؟ ان کی نفسیاتی تربیت کا کوئی انتظام ہے یا نہیں ؟ جس ادارے کے جوان چوراہوں پر جان ہتھیلی پر رکھے ہماری حفاظت کو موجود ہیں کیا ہمارا فرض نہیں ہم حکومتوں سے ہوچھیں ان جوانوں کی تربیت کا معیار کیا ہے ؟ وہ بھی آخر کسی کے بیٹے ہیں اور ان کے بھی کچھ معصوم بچے جھولوں میں پڑے ان کی گھر واپسی کے منتظر ہوتے ہیں ۔ کیا ان کے ساتھ یہ رویہ ظلم اور مجرمانہ غفلت کے زمرے میں نہیں آتا؟

باقی شہروں کو تو چھوڑیے اسلام آباد کا عالم یہ ہے کہ ہر شام ریڈ زون کی دہلیز پر تھکے ہارے پولیس اہلکار ڈیوٹی سے واپسی پر جانے کے لیے لفٹ مانگ رہے ہیں ۔ اراکین پارلیمنٹ بھی روز یہ مناظر دیکھتے ہیں لیکن کبھی کسی کو توفیق نہیں ہوئی اسمبلی میں جا کر ان کے لیے آواز اٹھا دے ۔ دو تین سو گاڑیوں کو ہاتھ دینے کے بعد کہیں ایک گاڑی ان کے لیے رکتی ہے۔ کیا کسی کو احساس ہے یہ لوگ اس وقت کس نفسیاتی کیفیت سے گزرتے ہوں گے ؟ کیا ان کا اتنا بھی حق نہیں کہ ڈیوٹی پر لے جانے اور واپسی کے لیے ریاست ان کا بندوبست کرے ؟ اس بندوبست کے لیے حکومت کے پاس پیسے نہیں یا یہ رقم موجود ہے لیکن سپاہی تک پہنچنے کی بجائے کہیں اور خرچ ہو جاتی ہے۔

آئیے ہم گریبانوں میں جھانکیں ہم سب پولیس کے مجرم تو نہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے