ٹامک ٹوئیاں

بس وہی ایک کتاب ہے اور بس وہی ایک رہنما ، قرآنِ مجسم ﷺ۔ جو اس کتاب میں لکھا ہے ، اسے دہراتے رہنا چاہئے ” و امرھم شوریٰ بینھم‘‘ مشاورت سے فیصلے۔ کس سے مشورہ؟ ظاہر ہے کہ مخلص اور لائق سے۔ وہ مخلص اور لائق لوگ کہا ں ہیں ؟
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے

جس روز فردوس عاشق اعوان شامل ہوئیں، وہ تحریکِ انصاف کا نیا جنم تھا۔ پرانی پارٹی مر گئی ، ایک اور جی اٹھی۔ اتفاق سے خان کو میں نے فون کیا۔ ایک شرمندہ سی ہنسی وہ ہنسا اور اس نے کہا ” اب تو ہم الیکشن جیت ہی جائیں گے ‘‘۔

یہ آئیڈیل ازم کی موت کا دن تھا۔

دیانت و امانت کا جو پرچم عمران خان اٹھا کر نکلے تھے، اس روز دفن کر دیا گیا۔ یہ اپنی شکست کا اعلان تھا۔ اپنی قوم پہ اظہارِ عدم اعتماد۔اپنے مالک و پروردگار کے کرم سے اظہارِ مایوسی، جس کی صفتِ رحم اس کی صفتِ عدل پہ غالب ہے ۔ جس کی کتاب میں لکھا ہے : تمہی غالب رہو گے ، اگر تم ایمان رکھتے ہو ۔ اس سے پہلے ایک اور عمران خان تھا، اس کے بعدیہ دوسرا، بالکل ہی اور!

2002ء کے الیکشن سے پہلے بھی اس نے اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کا ارادہ کیا تھا ۔ جب جنرل پرویز مشرف نے اس سے وزیرِ اعظم بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ آخری وقت پہ لیکن وہ سنبھل گیا۔ گجرات کے چوہدریوں کو پنجاب سونپنے کو کہا تو اس نے ا نکار کر دیا۔ پھر آئی ایس آئی تحریکِ انصاف کے تمام قابلِ ذکر امیدوار ہانک کر لے گئی ۔ باقی تاریخ ہے ۔

عارف کے ہاں میں اسے لے گیا۔ انہوں نے کہا: اپنی ایک سیٹ بچا لو، امکانات بچ رہیں گے ۔ اپنی سیٹ بچا لی اور اعتماد سے سرشار رہا ۔ ”جو ہوا میانوالی میں چلی ہے ، ایک دن پورے ملک میں چلے گی ‘‘چار ماہ بعد اسلام آباد واپسی پر اس نے کہا ۔

رفتہ رفتہ بتدریج اسٹیبلشمنٹ کی طرف وہ جھکتا گیا۔ 2011ء میں یہ آبپارہ والے تھے، جنہوں نے اکتوبر میں شہباز شریف اور کراچی میں ایم کیو ایم سے کہا تھا کہ اس کے جلسوں میںرکاوٹیں نہ ڈالی جائیں ۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح اور ذوالفقار علی بھٹو ایسے جلسوں کے باوجود ، اپنے اوپر پہلے سا اعتماد اب اس میں باقی نہ رہا تھا ۔
کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو

اس ذہنی سمجھوتے کے بعد ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو اس نے قبول کرنا شروع کیا۔ اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل میں افطار کی تقریب۔ گھبرائے ہوئے شیخ رشید میری طرف لپکے اور کہا: کالم لکھنے کی کیا ضرورت تھی ،عمران خان کو آپ کا ایک فون ہی کافی ہوتا۔ اس کالم پہ خان کا تبصرہ یہ تھا ‘ ‘ تو تم نے اسے اڑا دیا؟ ‘‘۔
پہلی سی امید اب باقی نہ رہی تھی مگراس کے باوجود کبھی کبھار میں اس کی طرف چلا جاتا۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری سے تو وہ بہتر تھا ۔ وزرائِ اعلیٰ ، وزرائِ کرام اور افسروں کی ایک نہایت بری ٹیم منتخب کرنے کے باوجود، میرا خیال اب بھی یہی ہے ۔ اس لیے کہ نقب زن تو وہ بہرحال نہیں ۔

یکسوئی نہیں ہے، ادراک نہیں ہے ۔ ایسے میں ٹامک ٹوئیاں ہی مقدّر ہوتی ہیں ۔

اس کے باوجود، وسطی پنجاب کے سوا آج بھی خلقِ خدا کی اکثریت اسے ترجیح دیتی ہے ۔ کراچی کا انقلابِ عظیم اور پختون خوا میں تقریبا دو گنا سیٹوں کا حصول اس کا مظہر ہے۔ مولوی فضل الرحمٰن پہ کون بھروسہ کرے؟
مہاتیر محمد بھی اب وہ نہیں بن سکتا۔ ایسا ہی ہوتاہے ۔ ایک مدبّر معاشرے کو اپنے رنگ میں رنگتا ہے ۔ ایک لیڈر معاشرے کے رنگ میں رنگا جاتاہے ۔ غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، کون جانے ، کب کسی قوم پہ رحمت کا سایہ وہ دراز کر دے ۔ مائوزے تنگ کے چین پر ، جب وہ بھوکا تھا۔ ترکوں پہ، جب عثمان ایسا غیرت مند سردار انہیں بخشا گیا۔

تاریخ مگریہ کہتی ہے نجات انہی معاشروں کو عطا ہوتی ہے ، قوانینِ قدرت جو ملحوظ رکھیں ۔انہیں اللہ یکسوئی عطا کرتا ہے ۔ پاکستانی قوم اور اس کا لیڈر ژولیدہ فکری کا شکار ہیں ۔ اپنی خوبیوں پر نہیں ، عمران خان دوسروں کی خامیوں پہ سرفراز ہے ۔ اس کے باوجود اس کا عرصۂ اقتدار دس برس کو محیط ہو سکتاہے ، الّا یہ کہ خوئے انتقام غالب آجائے یا اسٹیبلشمنٹ سے الجھ پڑے۔ عسکری قیادت، عدلیہ ، نیب اور حکومت میں فی الحال کوئی خلیج نہیں۔ ادارے تو کیا فعال طبقات اور رائے عامہ کی اکثریت بھی نواز شریف اور آصف زرداری سے ہرگز کوئی امید نہیں رکھتی ۔

اپنے عظیم الشان کارناموں کے بوجھ تلے وہ سسک رہے ہیں۔

حبیب اکرم کسی شمار قطار میں نہ تھے۔ 2018ء میں انتخابی سروے کے ہنگام وہ ایک غیر جانبدار اور قابلِ اعتماد اخبار نویس بن کے ابھرے۔ ان کے تخمینے تمام اداروں سے بہتر ثابت ہوئے۔ خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے۔ ان کے مطابق 100روزہ کارکردگی پہ ایک سو ممتاز ماہرین کی اکثریت کے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ معیشت کی تعمیر ہے۔ صرف 14فیصد نے احتساب کو اوّلین ترجیح کہا ۔ بچّہ بچّہ یہ بات جانتا ہے ، بس کپتان ہی نہیں جانتا۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے۔

یہ تو آشکار تھا کہ مہنگائی کا طوفان آئے گا‘ مگر عمران خان نہیں ، شریف خاندان اور آصف علی زرداری اس کے ذمہ دار ہیں ۔

قرضوں کا اتنا بڑا بوجھ انہوں نے لاد دیا ۔ سول ادارے تباہ کر دیے۔ 200ارب روپے کی بجلی چوری کر لی جاتی ہے اور پولیس ان چوروں کو نمٹا نہیں سکتی۔ پانچ چھ سو ارب روپے ہر سال سرکاری کارپوریشنوں پہ لٹا دیے جاتے ہیں ۔

پی ٹی آئی کا قصور یہ ہے کہ اقتدار کی بو سونگھ کر بھی تیاری نہ کی۔ اسد عمر کو معلوم تھا کہ خزانے کی وزارت انہیں ملے گی مگر وہ سہولت پسند ثابت ہوئے۔ پی ٹی آئی قائدِ اعظم کا گیت ضرور گاتی رہی، سبق ان سے کوئی نہ سیکھا ۔ 1947ء سے پہلے ہی اخبار انہوں نے نکالا، فضائی اور انشورنس کمپنی بنا ڈالی تھی۔ سٹیٹ بینک کا نقشہ مرتب کر لیا تھا۔ سینکڑوں صنعت کاروں اور تاجروں کو کراچی منتقل ہونے پہ آمادہ کر لیا تھا ۔
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو

ہماری تاریخ کے عظیم ترین مصوروں میں سے ایک صادقین کو دیکھا تھا۔ اوسط درجے کی ذہانت مگر ریاضت؟ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے۔ کامیاب لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے لیڈراور طرح کے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا تھا: سمندر پار پاکستانی 200ارب ڈالر لے کر پاکستان کی طرف بھاگ اٹھیں گے ۔

کبھی وہ خوش قسمت تھا۔ اب نہیں لگتا۔اب ایسے ہی لوگ اس کے رفیق ہیں۔ پاکستان کا وزیرِ اعظم ایک ایسا شخص ہے ، جو ڈاکو اور ولی اللہ میں تمیز نہیں کر سکتا۔ سیاہ اور سفید میں تمیز نہیں کر سکتا ۔ قومی تعمیر سے زیادہ اسے مخالفین کو دفن کرنے کی فکر لاحق ہے ؛حالانکہ اپنے لیے پہلے ہی وہ گڑھے کھود چکے ۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب ہے : خود غرضی بصیرت کو کھا جاتی ہے ۔

سلیقہ ہی نہیں، سلیقہ ہی نہیں۔ سب کچھ وہی ہوتاہے۔ نمک، مرچ، ہلدی، وہی دال، سبزی یا گوشت۔ ایک باورچی ”گتاوہ ‘‘ بناتا ہے ۔ دوسرا خوشبو سے مہکتا دسترخوان!

بس وہی ایک کتاب ہے اور بس وہی ایک رہنما ،قرآنِ مجسم ﷺ۔ جو اس کتاب میں لکھا ہے ، اسے دہراتے رہنا چاہئے ” و امرھم شوریٰ بینھم‘‘ مشاورت سے فیصلے ۔ کس سے مشورہ ؟ ظاہر ہے کہ مخلص اور لائق سے ۔ وہ مخلص اور لائق لوگ کہا ں ہیں ؟
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے