پانی کا بحران اور ویژن2025ء

زیر نظر کالم 17سال پہلے کا ہے۔ آج ہم ساری جدوجہد کے بعد نہروں کو بھولتے جا رہے ہیں اور ڈیم بنانے کے لئے ولایت والوں کے گھروں پر چندہ مانگتے پھر رہے ہیں۔ اگر ہمارا زور ولایت پر ہی رہا تو ایک دن ہم امریکہ اورکینیڈا میں پانی ڈھونڈتے پھر رہے ہوں۔ پانی کی تازہ مہم سے لطف اٹھائیے۔
کاغذ کے پھول سر پہ سجا کر چلی حیات
نکلی برون شہر تو بارش نے آ لیا

واپڈا کے چیئرمین‘ جنرل ذوالفقار علی خان کے معاملہ میں بارش کی جگہ” خشکی‘‘نے لے لی۔ انہوں نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے ویژن2025ء کے عنوان سے ایک رپورٹ تیار کی‘ جسے چیف ایگزیکٹو‘ جنر ل پرویز مشرف نے منظور کر کے‘ فوری عمل درآمد کا حکم دیا۔ چند ہفتے پہلے جنرل ذوالفقار نے لاہور میں صحافیوں کو اس منصوبہ کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔

بد قسمتی سے اس بریفنگ میں شرکت کرنے سے رہ گیا؛ چونکہ پانی اور بجلی کا مسئلہ ہمارے لئے زندگی اور موت کا سوال بنتا جا رہا ہے‘ اس لئے میں نے ویژن2025ء کی رپورٹ بطور خاص منگوائی۔ کچھ وقت اس کے مطالعہ میں لگ گیا اور کچھ دن دیگر موضوعات پر لکھنے میں صرف ہو گئے۔اس دوران پانی کی کمی شدت اختیار کرتی گئی اور اب صورت حال یہ ہے کہ کم وبیش ہماری تمام نہریں بند پڑی ہیں۔ آسمان بادلوں سے خالی ہے اور فصلیں نمی کے لئے ترس رہی ہیں۔ اسی حوالے سے میں نے کالم کا آغاز درج بالا شعر سے کیا۔ اس ہولناک خشکی نے ویژن2025ء کے کاغذ کے پھولوں کو مرجھا کے رکھ دیا۔ بے شک اس میں کئی منصوبے ایسے ہیں‘ جو پانچ اور سات سال کے اندر مکمل ہو جائیں گے‘ لیکن خشک سالی نے تو ابھی سے ہمارے کھیتوں کا حسن نوچنا شروع کر دیا ہے۔ دنیا کے موسمی حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں اور بد قسمتی سے یہ تبدیلی حرارت میں اضافے اور بارشوں کی کمی کی صورت میں آرہی ہے۔

خشک سالی کے ان بڑھتے ہوئے اثرات کو دیکھ کر چیئرمین واپڈا‘ جنرل ذوالفقار علی خان کو متوجہ کرنا پڑے گا کہ جن منصوبوں پر کام شروع ہو چکا ہے اور جن پر فی الفور کام شروع کیا جا سکتا ہے‘ انہیں ہنگامی بنیادوں پر آگے بڑھانے کا انتظام کریں۔ خشک سالی کے حالیہ جھٹکے کا احساس‘ اعلی سطح پر بھی کیا جا چکا ہے۔ میری تجویز ہے کہ جنرل ذوالفقار ایسے تمام منصوبوں میں ضروری ردوبدل کریں ‘جو اضافی فنڈز کی فراہمی سے تیز رفتاری کے ساتھ مکمل کئے جا سکتے ہیں اور ان کے لئے چیف ایگزیکٹو سے مطلوبہ فنڈز مہیا کرنے کی درخواست کریں۔یہ وقت خشک سالی سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنے کا ہے۔ دوسری مدوں میں ہونے والی سرمایہ کاری کو عارضی طور پر معطل کر کے بھی ایسا کرنا پڑے تو کوئی ہرج نہیں۔

واپڈا کے پاس اپنے وسائل بہت ہیں‘ وہ انہیں استعمال میں لا سکیں تو حکومت سے فنڈز مانگنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی‘ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ فوجی حکومت آنے کے بعد بھی واپڈا بجلی چوری روکنے میں خاص کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔ اس وقت بھی قریباً54ارب روپے سالانہ کی بجلی چوری کی جا رہی ہے‘ اس چوری کو روکنے کے لئے گھروں پر تو دھاوے بولے جا رہے ہیں‘ لیکن جہاں اصل چوری جہاں ہوتی ہے‘ وہاں توجہ نہیں دی جاتی۔

ابھی تین روز پہلے کا واقعہ ہے اس گلی میں جہاں میں رہتا ہوں‘ واپڈا کی تین ٹیمیں ایک ہی روز کے اندر میٹر چیک کرنے کے لئے آئیں۔ وہ تین بڑی ویگنوں پر سوار تھیں اور عملے کی تعداد12افراد پر مشتمل تھی اور جو میٹر انہیں چیک کرنا تھے‘ وہ 15سے زیادہ نہیں تھے اور یہ سارے گھریلو میٹر تھے۔جس گھر میں سنگل فیز میٹر تھا‘ وہاں سوال کیا گیا کہ ”آپ کے گھر میں کتنے ایئر کنڈیشنز ہیں؟‘‘ اس کے برعکس لوہا ڈھالنے کی وہ فیکٹریاں‘ جن میں بجلی خام مال کے طور پر استعمال ہوتی ہے‘ اسی طرح چل رہی ہیں۔

یاد رہے کہ ڈھلا ہوا جو لوہا‘ اس وقت بھی مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے‘ اس کی قیمت اصل خرچ کے مقابلے میں کم ہے۔ جیسا کہ میں نے لکھا ہے کہ لوہے کی ڈھلائی میں بجلی کی حیثیت خام مال کی ہوتی ہے۔ اگر اس کی پوری قیمت ادا کی جائے‘ تو لوہا اس سے بہت زیادہ مہنگا پڑتا ہے‘ جس پر وہ اس وقت دستیاب ہے۔جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس کی ڈھلائی میں چوری کی بجلی استعمال ہوتی ہے‘ اس طرف واپڈا کی چیکنگ کرنے والی ٹیمیں کیوں نہیں جاتیں؟ یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے‘ اگر بارہ افراد تین گاڑیاں لے کر15گھریلو میٹروں کو چیک کریں گے ‘تو بھی وہ ایک فونڈری میں چوری ہونے والی بجلی کا2فیصد خسارہ پورا نہ کر پائیں گے‘ لیکن سارا زور گھروں پر چکر لگانے پہ صرف ہو رہا ہے اور وہ بھی اس وقت جب عموماً گھر کے مرد اپنے روزگار کی جگہ پر ہوتے ہیں۔

چیئرمین واپڈا بجلی کی اگر صنعتی چوری روکنے پر زور دیں تو واپڈا کی آمدنی میں اتنا اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ہی وسائل سے آبی ذخیروں کی تعمیر کے ان منصوبوں کوو قت سے بہت پہلے مکمل کروا سکتے ہیں‘ جن پر اس وقت کام جاری ہے۔ ویژن2025ء میں آبی ذخیروں کی تعمیر کے علاوہ بجلی کی پیداوار میں اضافے پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ ویسے پانی کے ذخیروں اور بجلی کی پیداوار کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ کاش !کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر کام شروع کیا جا سکتا‘ کیونکہ یہ پانی اور بجلی دونوں کی ضرورتیں پوری کرتا ہے اور ایک اہم بات یہ ہے کہ چھوٹے ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے پر 6 سو سے لے کر9 سو روپے فی ایکٹر فٹ تک خرچ آتا ہے‘ جبکہ بڑے ڈیم میں یہ لاگت صرف بیس سے تیس روپے فی ایکٹر فٹ رہ جاتی ہے۔

بعض لوگوں نے کالا باغ ڈیم کو سیاسی مسئلہ بنا کر الجھا دیا ہے اور اب جذبات میں بہت زیادہ شدت آچکی ہے اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر قومی یکجہتی کو متاثر کر سکتی ہے‘ جس کا ہر قیمت پر تحفظ کرنا ضروری ہے‘ خواہ اس کے لئے بڑے سے بڑے مفاد کی قربانی دینا پڑے۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو موخر کرنے کا فیصلہ بالکل صحیح ہے۔ اسفند یا رولی نے درست کہا ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم کی ضد چھوڑ دی جاتی تو اب تک درجنوں دوسرے ڈیم تعمیر کئے جا سکتے تھے۔ خیر اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ جنرل ذوالفقار علی خان نے بر وقت اس بات کا احساس کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کئی چھوٹے بند تعمیر کئے جا رہے ہیں۔ منگلا ڈیم کی بلندی کا منصوبہ بھی پانی کی کمی دور کرنے میں مددگار ہو گا۔

ویژن2025ء میں آبی ذرائع سے بجلی پیدا کرنے پر بطور خاص زور دیا گیا ہے‘ چونکہ پانی کی قلت سے فوری مسائل پیدا ہوئے‘ اس لئے ویژن2025ء پر بھی زیادہ تبصرے‘ پانی کے حوالے سے کئے گئے؛ حالانکہ اس میں ہائیڈل پاور پر جو خصوصی توجہ دی گئی ہے‘ وہ بھی کم اہمیت کی حامل نہیں۔ پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہے‘ جو بھر پور آبی وسائل رکھنے کے باوجود تھرمل پاور پیدا کرتا ہے؛ حالانکہ ایک غریب ملک اس عیاشی کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا‘ کیونکہ تھرمل پاور کا پیداواری خرچ نا قابل بیان تک زیادہ ہے۔آج بھی منگلا سے پیدا ہونے والی بجلی پر گیارہ پیسے فی یونٹ خرچ آتا ہے اور تربیلا میں18پیسے‘ جبکہ تھرمل پاور کا یونٹ چار سے پانچ روپے کے درمیان ملتا ہے اور ہم تو اسے پانچ اور چھ روپے کے درمیان خرید رہے ہے۔

مجھے آصف زرداری کی حالت دیکھ کر جب بھی دکھ ہوتا ہے‘ اسی وقت بجلی کے ظالمانہ نرخ یاد آجاتے ہیں‘ جو ہم پر رشوت کے لالچ میں مسلط کئے گئے اور پوری کوشش کے باوجود‘ ہم اس لوٹ مار سے نجات حاصل نہیں کر سکتے ‘کیونکہ ہمارا مقروض ملک ان خونخوار کمپنیوں کے عالمی سرپرستوں کے دبائوکا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ بجلی کی پیداوار کے لئے آبی ذرائع مہیا کرنے کے نتیجے میں پانی کی قلت کا مسئلہ بھی ازخود حل ہو جاتا ہے۔

ویژن2025ء میں مجھے سب سے زیادہ اہم یہی چیز نظر آئی کہ اس میں بجلی پیدا کرنے کے جتنے بھی منصوبے پیش کئے گئے ہیں‘ ان میں صرف دو تین ہی تھرمل ہیں‘ باقی تما م ہائیڈل ہوں گے اور تیسرے حصے میں بجلی پیدا کرنے کے سارے بڑے منصوبے ہائیڈل ہیں؛اگر حالات نے ساتھ دیا تو ان منصوبوں کی تکمیل سے ہم نہ صرف پانی کی کمی کے مسئلے پر قابو پا لیں گے بلکہ سستی بجلی پیدا کر کے اس خرچ سے بھی بچ جائیں گے‘ جو ہمیں تیل کی درآمد پہ کرنا پڑتا ہے۔یہاں ایک اور بات بھی واضح کر دوں کہ نئے عالمی معاہدوں کے تحت‘ فضا کو آلودہ کرنے والے پراجیکٹس پر جرمانے شروع ہونے والے ہیں اور ہمارے ہاں تھرمل پاور پیدا کرنے والے سارے یونٹ بے حد آلودگی پھیلاتے ہیں۔ جب یہ جرمانے شروع ہوئے تو یہ نجی پاور کمپنیاں انہیں ادا کرنے سے انکار کر سکتی ہیں‘ جبکہ حکومت پاکستان یہ جرمانے ادا کرنے کی پابند ہو گی‘ خواہ وہ ان کمپنیوں سے وصولی کر سکے یا نہ کر سکے۔(21مارچ2001)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے