شیخ رشید کے لیے ہدیۂ تبریک

rasheed

میدان ِسیاست میں، اُن کی شاندار فتوحات پر، میں فرزندِ راولپنڈی جناب شیخ رشید احمد کی خدمت میں ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے جو اسلوب ِسیاست ایجاد کیاتھا، وہ آج کا سب سے مقبول سیاسی چلن ہے۔ جس طرزِ بیان میں، وہ بلا شرکتِ غیرے امام اور مکتب کا درجہkhoursheed nadeem رکھتے ہیں، اس مکتب کے نئے تلامذہ میں عمران خان جیسے اکابر اور عابد شیر علی جیسے اساغر شامل ہیں۔ ایک ‘امام ‘کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کی خبر کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے مقلد، سیاسی تقسیم سے ماورا، ہر جماعت میں پائے جاتے ہوں۔
تاہم یہ امرِ واقعہ ہے کہ اس فن کو جو درجہ عمران خان نے دیا ہے، شیخ رشید اپنی مساعی جلیلہ کے باوجود اسے اس بلندی تک نہیں پہنچا سکے۔ آج اگریہ ایک مقبول سیاسی کلچر ہے تو اس کا سہرا خان صاحب کے سر ہے۔ ان سے یہ اعزاز کوئی نہیں چھین سکتا۔ سچ ہے کہ کبھی شاگرد بھی استاد سے آگے نکل جاتا ہے۔ عمران خان، ہم سب جانتے ہیں کہ شرمیلے مزاج کے تھے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ ان کا یہ شرمیلا پن صرف گفتار تک تھا، دیگر امور میں ان کے شب و روز دوسری کہانی سناتے تھے، جیسے کرکٹ۔ کھیل کے میدان میں وہ جنگجو تھے اور کہیں شرمیلے پن کا مطاہرہ نہیں کرتے تھے، علیٰ ھذالقیاس۔ جب وہ سیاست میں آئے تو ان کی گفتگو میں یہ شرمیلا پن موجود تھا،کم گفتار اور سادہ؛ تاہم جیسے انہوں نے کرکٹ میںاپنی کمزوریوں پر، محنت ِشاقہ سے قابو پایا، اسی طرح سیاست میں بھی وہ دھیرے دھیرے کُھلتے چلے گئے۔
آج یہ بات، آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ اس باب میں ان کے آئیڈیل شیخ رشید تھے۔ وہ انہی کی طرح بننا چاہتے تھے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس طرح وہ تنہا بالنگ کی مشق کر تے تھے، جسے انہوں نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے اور پھر مسلسل محنت سے انہوں نے اپنی خامیوں کو دور کیا، اسی طرح وہ تنہائی میں شیخ رشید کی طرح تقریر کر نے کی بھی مشق کرتے رہے ہوںگے۔ شیخ رشید کی طرف ان کا میلان اس سے واضح ہے کہ انہیں جیسے ہی موقع ملا انہوں نے اپنے استاد کو اپنا ہم سفر بنا لیا۔ ساری تحریکِ انصاف سراپا احتجاج تھی لیکن انہوں نے شیخ رشید کو جدا کر نے سے انکار کر دیا اور انہیں اسمبلی پہنچا کر دم لیا۔ آج خان صاحب کے اسلوب ِسیاست اور تکلم پر شیخ صاحب کے اثرات ظاہر و باہر ہیں۔ کیا شیخ صاحب اس پر مبارک باد کے مستحق نہیں کہ انہوں نے اتنے بڑے لیڈر کو اپنی سیاست کے رنگ میں رنگ دیا؟
مجھے معلوم ہے کہ عمران خان کے بعض متاثرین اس سے اتفاق نہیں کریںگے۔ ان کے ای میلز، جو اس کالم کی رد میں آئیں گے، خود گواہ ہوں گے کہ کیسے شیخ رشید کے اثرات بالواسطہ،ا ن تک پہنچ چکے ہیں۔ وہ اگر بھیجنے سے پہلے ایک بار ان کو پڑھ لیں یا گھر میں کسی بڑے کو پڑھا لیں تو انہیں اندازہ ہو جائے گا۔ لیکن اس آزمائش میں ڈالے بغیر، ان ناقدین سے میری درخواست ہوگی کہ وہ ایک سوال پر غور کریں: دونوں کی باہمی رفاقت سے، شیخ صاحب نے عمران خان صاحب سے اثر قبول کیا ہے یا عمران نے شیخ صاحب سے؟ شیخ صاحب کے اثرات کا میں ذکر کر چکا۔ اگر کوئی ایک ایسا اثر وہ بیان کرسکیں جو بطور ثبوت پیش کیا جا سکے کہ عمران نے شیخ صاحب کو فلاں معاملے میں متاثر کیا تو میں اپنا یہ مقدمہ واپس لے لوںگا۔
میرا خیال ہے کہ شیخ رشید مدت سے کسی شاگردِ رشید کی تلاش میں تھے جو عوامی پذیرائی رکھتا ہو اور اُن کے اسلوب ِسیاست کو اپنا لے۔ انہوں نے پہلے نوازشریف صاحب کو ہدف بنایا۔ میاں صاحب نے شیخ صاحب کے اس فن سے خوف فائدہ اٹھایا لیکن بڑی مہارت کے ساتھ خود کو اس کے اثر سے دور رکھا۔ اُس عہد کی بعض تقریروں سے، جب پیپلزپارٹی کے ذکر سے ا ن کا خون کھول اٹھتا تھا، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان پر بھی ایک حد تک شیخ صاحب کا رنگ چڑھ گیا تھا لیکن بہت جلد انہوں نے خود کو اس سے آزاد کر لیا۔ چھوٹے میاں صاحب نے البتہ اس فن میں، 2013ء تک مشق جاری رکھی۔ لیکن شاید انہیںاس کا اندازہ ہوگیا کہ مولوی مدن جیسی بات پیدا نہیںکی جا سکتی۔ زرداری صاحب سے معذرت کرتے ہوئے، بظاہرانہوں نے اس اندازِ سیاست سے رجوع کر لیا ہے، تاہم اس کا حقیقی امتحان آئندہ کے انتخابی معرکے میں ہوگا۔
نوازشریف صاحب کے بعد شیخ صاحب کا یہ فن پرویز مشرف صاحب کے بھی کام آیا۔ ان کی پالیسی مگر اس معاملے میں نوازشریف صاحب ہی کی طرح رہی، انہوں نے شیخ صاحب سے کام لیا مگر اپنی ذات کو ان کے اثرات سے محفوظ رکھا۔ وہ رخصت ہوئے تو عمران خان نے شیخ صاحب کی خدمات سے اِس طرح فائدہ اٹھایا کہ رانجھا رانجھا کرتے خود رانجھا ہوگئے۔ انہوں نے نہ صرف خود اس اسلوب کو اپنایا بلکہ اسے سیاسی کلچر بنا دیا۔ اب اس کے اثرات پورے ملک کی سیاست پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ میں پرویز رشید صاحب کو جب اسی لہجے میں گفتگو کرتے سنتا ہوں تو شیخ صاحب کے اثرات کا قائل ہو جاتاہوں جو عمران خان کے وسیلے سے آج سیاست میں سرایت کرچکے۔ سچ یہ ہے کہ جادو وہی ہوتا ہے جو سر چڑھ کر بولے۔
بر صغیر کی سیاست میں، اسلوب کے حوالے سے، تین شخصیات رجحان ساز قرار دی جا سکتی ہیں۔۔۔۔ مو لانا ابولکلام آزاد، قائد اعظم محمد علی جناح اور ذوالفقار علی بھٹو۔ مولانا آزاد کی روایت کو مو لانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور نواب زادہ نصراللہ خان جیسی شخصیات نے آگے بڑھایا۔ شائستگی،استدلال اورمتانت۔ قائد اعظم کو کوئی جانشین نہ مل سکا۔ ان کی طرح کا دو ٹوک، صاف ستھرا اور غیر جذ باتی لہجہ پھر سیاست میں کسی کو نصیب نہ ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا اسلوب مقبول بہت ہوا لیکن انہیں بھی کوئی جانشین نہ مل سکا۔ بہت سوں نے اُن کے ظاہر کی نقالی کی۔ پس منظر میں مگر اُن جیسی ذہانت اور ان کی طرح کا مطالعہ نہیں تھا، اس لیے صرف نقال قرار پائے۔ شیخ رشید صاحب ایک طرح سے اسی اسلوبِ سیاست کی توسیع ہیں۔ انہوں نے البتہ اس میں ایک عامیانہ پن داخل کر کے،اسے ایک نیا انداز دے دیا۔ اس حوالے سے وہ بھی، ایک درجے میں رجحان ساز شخصیات کی فہرست میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ اگر سیاست کے ایک طالب علم سے سوال کیا جائے کہ آج سیاست میں کس کا اسلوب سب سے مقبول ہے تو میرا خیال ہے کہ اس کا صرف ایک جواب ہوگا: شیخ رشید۔ کیا وہ اس پر مبارک باد کے مستحق نہیں؟
سیاست میں کامیابی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ آپ اقتدار تک پہنچ جائیں۔ دوسرا یہ کہ آپ سیاست کا اسلوب بدل ڈالیں۔ دوسرے مفہوم میں شیخ رشید آج کے کامیاب ترین سیاست دان ہیں۔ کسی کو شک ہو تو عمران خان اور عابد شیر علی کی تقریریں پڑھ لے۔ یہ اسلوب اب متعدی مرض کی طرح پھیل رہا ہے۔ پرویز رشید اورسعد رفیق کو متنبہ ہوناچا ہیے کہ اس کے جراثیم ان میں بھی سرایت کرتے جا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، اس سماج کے ساتھ جو ہونا ہے، وہ ہو رہا ہے اور مزید ہوگا مگر اس سے شیخ رشید کی فتوحات سے انکار نہیں ہو سکتا۔ جناب شیخ صاحب! اس کامیابی پرمیری طرف سے ہدیۂ تبریک قبول کیجیے! 

بشکریہ:روزنامہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے