میں مدینے میں ہوں!

وسائل اور ذرائع اپنی جگہ لیکن یہ طے ہے۔ مدینہ کے مسافروں کے لیے۔

آتے ہیں وہی جن کو سرکارﷺ بُلاتے ہیں۔

ویزہ اور ٹکٹ لے لیے۔ حاضری کے لیے روانگی کی تاریخ بھی طے تھی۔ لیکن رحمۃ للعالمینؐ کانفرنس کے لیے رُک جانے کا کہا گیا۔ سوچا یہ ڈیوٹی کر کے ہی جائوں اور سعادت سمیٹ کر۔ اگلی فلائیٹ بدھ کے روز کی ملی۔ عبداللہ اور میں نئے اسلام آباد ائیرپورٹ پہنچے۔ سول ایوی ایشن اور پی آئی اے کے دوست ملے۔ میں نے ان سے کہا: یہ ہوائی اڈہ ہمارے دارالخلافہ کے شایانِ شان ہے۔ کہنے لگے: صرف بلڈنگ اور تعمیرات کی حد تک۔ میں نے بات آگے نہ بڑھائی۔

سلیقے سے بنائے گئے سمارٹ ویٹنگ روم کا ٹھیکہ ایک پنج ستارہ ہوٹل کے ذمے ہے‘ جہاں عرب سواریاں بیٹھی ملیں۔ عادل خلیل مدنی اپنی والدہ کے ساتھ 3 دن کے قیام کے بعد مدینے واپس جا رہے تھے۔ ان کا بھائی حرم مدنی کا امام ہے‘ جبکہ مرحوم والد استادالآئمہ کہلاتے تھے۔ تعارف کے بعد تقریباً ایک گھنٹہ گپ شپ میں گزرا۔ اس دوران ہوائی اڈے پر نہ کسی جہاز نے لینڈ کیا‘ نہ ہی اڑان بھری۔ میں اس سوچ میں گم تھا کہ ایک آواز نے اُکتا دینے والی خاموشی توڑنے کا فیصلہ کیا۔

پی آئی اے سے سفر کرنے والے مسافروں سے معذرت ہے کہ ان کی فلائیٹ جہاز کی عدم دستیابی کی وجہ سے کینسل کر دی گئی ہے۔ کسی لوکل فلائیٹ کے بارے میں اس اعلان کے چند منٹ بعد ہماری فلائیٹ کا ٹیک آف آ گیا۔ سعودی ائیر کے جہاز نے ریاض کے لیے لمبا روٹ لیا۔ ائیر پورٹ سے ژوب، کوہِ سُلیمان، مچھ سے ہوتے ہوئے بحر ہند۔ پھر گالف آف عمان، راس الخیمہ، قطر، رُبع الخالی سے نجدکے ذریعے ریاض ائیرپورٹ۔ اس لمبے روٹ کی وجہ حالیہ یمن جنگ ہے۔

65 منٹ کے وقفے کے بعد ایک گھنٹہ 4 منٹ کی مُسافت پر مدینۃ المنورہ کی نورانی روشنیاں نظر آئیں۔ درمیان میں وادی الرمائ، وادی الجرار، یثرب اور حجاز سمیت بہت سی وادیاں آئیں۔ عشاء کے تھوڑی بعد ہم عالمین کی سجدہ گاہِ نیاز میں عالمین کی سب سے بڑی رحمت کی پناہ میں جا پہنچے۔

پوٹھوہاری اور ہندکو سی حرفی کے لہجے میں حرفِ نیاز یوں مرتب ہوتے گئے:
تَج کے دُنیا کے سب پیچ و خَم
اب قرینے میں ہوں…
سال کے سب سے ارفع مہینے میں ہوں
میں مدینے میں ہوں…

شہر رسولؐ میں نے پہلی بار سال 1979ء میں حاضری دی۔ تب میںکنگ سعود یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ پُرانے مدینے کی مٹی اور گارے والی گلیاں اور دیواریں سلامت تھیں۔ وہ کنگ خالد اور شاہ فہد کے دور میں حرمِ نبوی شریف کی مسجد کی توسیع کے منصوبے کے ابتدائی دن تھے۔ عشروں کی ریاضت کے بعد یہ منصوبہ اب مکمل ہو چکا ہے۔ اب وادیٔ یثرب کی رونقیں نئے روپ سے مسافروں کوگلے لگاتی ہیں۔ جدید ترین عمارت ، مدینے کی وسیع گلیاں۔ لاکھوں نمازیوں کے لیے آبِ زم زم۔ قالین، مصحف شریف، سرد ،گرم موسم کے مطابق مناسب ٹمپریچر، حفاظت، خلوص، گرم جوشی، لہجے میں ملائمت اور شیرینی۔ یوں لگتا ہے یہاں کے حجر و شجر اور جن و انس سب یکساں جانتے ہیں یہ کون سی نگری ہے اور اس کے آداب کیا ہیں۔

عبداللہ کی ایک عادت ہمارے پاکستانی مزاج کو بور کر دینے کی آخری حد کو چھو جاتی ہے۔ اور وہ یہ کہ چاہے کچھ ہو جائے وہ شکایت نہیں کر ے گا۔ اگر کوئی تنقید یا طنز کے تحت کسی کا ذکر کر دے تو وہ فوراً اچھی سی دفاعی دلیل نکال لے گا۔ یہاں کسی کو تنقید کرنے یا نقص نکالنے کی عادت ہی نہیں۔ ہر آدمی الفتوں کا ٹوکرا سر پہ اُٹھائے اپنا حصہ بانٹتا ملے گا۔ یاد رکھیے میں فرشتوں کا نہیں انسانوں کا ذکر کر رہا ہوں۔ یہ جملہ مجھے اس لیے لکھنا پڑا کہ ہم بحیثیت اجتماعی ناراض سماج بن گئے ہیں۔ ہر کسی کو بے پناہ غصہ آتا ہے۔ ناراضگی اور غصہ دو ایسے قومی کھیل بن چُکے ہیں جن کی کوئی وجہ موجود ہونا ضروری نہیں ہے۔ گاہک دکاندار پر ناراض ہوتا ہے وہ مفت مال کیوں نہیں دے رہا۔

شاپ کیپر کسٹمر سے رنجیدہ ہے کہ وہ سارا بینک بیلنس آج ہی کیوں نہیں لُٹا رہا۔ آئیے دُعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں ناراضگی ظاہر کرنے اور اسے برداشت کرنے‘ دونوں صورتوں میں صبر ایوبی سے نواز دے۔ ویسے فرینک ہو کر بات کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ میں اس ذاتی دعا کو اجتماعی بنا گیا ہوں۔

مدینے کی ایک گلی میں مجھے ہوٹل کی کھڑکی سے کپڑوں کی ایک دکان نظر آئی۔ ہم دونوں اس پہ جا کھڑے ہوئے۔ یہ خالص بدو کا ”محل‘‘ تھا۔ محل عربی زبان میں دکان سمیت سینٹر کو کہہ لیں۔ اس نے املاً کہہ کر کہا ”محلک‘‘ یہ بقالہ آپ کا اپنا ہے۔ دربارِ رسول ؐ میں اولین حاضری ہوٹل پہنچ کر سامان رکھتے ہی دی۔ ترسے ہوئے دل کو قرار آ گیا۔

ایسا قرار جیسے سالوں سے بارشوں کے لیے ترسی ہوئی کوئی زمین خشک سالی سے نکل کر ابرِ رحمت میں جَل تَھل ہو جائے۔ حرم شریف میں غالباً تیونس کے سربراہ حاضری کے لیے آ رہے تھے۔ یہ اندازہ مجھے اڑھائی فٹ اونچی اس میک شفٹ پلاسٹک کی قنات سے ہوا‘ جو دربارِ رسالتؐ میں حاضری دینے والے دنیا بھر کے بادشاہوں کے لیے کھڑی کی جاتی ہے۔ حاضری دے کر میں اور عبداللہ مسجدِ نبویؐ میں بیٹھ گئے۔ عبادت اور نوافل ادا کیے۔ درود و سلام آپؐ کی خدمت میں پیش کیا۔ اس دوران میرے ذہن میں ان احباب کے نام آنے لگے جنہوں نے مدینے میں دُعا کرنے اور ان کا سلام دربار رسالتؐ میں پیش کرنے کو کہا تھا۔ آپ مدینہ شریف کے جس حصے میں جائیں، جدھر نگاہ دوڑائیں ایک احساس جسم اور روح پر طاری رہتا ہے۔ یہی کہ آج سے ایک ہزار چار سو چالیس سال پہلے انسان کس قدر مظلوم تھا۔ عزت ، آبرو، جان کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہ تھی۔ پھر یثرب کی وادی میں ایسا چاند اُترا جس کی روشنی عالمین کے لیے تسکین کا سامان کر گئی۔

رات دیر سے حرم شریف سے واپسی ہوئی۔ سفر میں پڑے آدھے دن سے زیادہ کا وقت گزارنے کے بعد بھی دور، دور تک نیند اور تھکاوٹ دونوں موجود نہ تھے۔ پھر یثرب کی ہوائوں میں سانس لینے کا اعزاز روز روز کہاں ملتا ہے۔ مدینے کی نیم شب خنک بادِ بہاری مجھے کئی صدیاں پیچھے لے گئی۔ جب محسنِ انسانیت حضرت محمدﷺ انصار اور مہاجروں کی چھوٹی سی جماعت کے ہمراہ تاریخِ انسان (Course of Human History) بدل دینے والے انقلاب کی ابتدا کر رہے تھے۔ حج ہو، عمرہ یا زیارت‘ انڈونیشیا کے مسلمان دور سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کا قافلہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ ہر قافلے کا اپنا عَلم اور امیرِ قافلہ ساتھ ہوتا ہے۔ مدینے میں یہی منظم قافلے ہر طرف آئے ہوئے ہیں۔ ایک سے زیادہ مرتبہ جن سے علیک سلیک ہوئی۔ انڈونیشیا کے مسلمانوں کا نظم و ضبط دیکھنے کے قابل ہے۔ لائن میں چلتے ہیں متانت کے ساتھ۔ میں نے کسی کو بھاگ کر پہنچتے دیکھا نہ ہی ان کا اپنا ڈسپلن توڑتے ۔ 5:25 بجے صبح حرم نبوی میں فجر کی نماز کا وقت ہے‘ جہاں عشاق کے قافلے رات بھر موجود رہتے ہیں۔ حرم شریف کے قاری حضرات کی تلاوت شیریں سُخن کی معراج کہہ لیں۔

میری دلی دعا ہے اور دربارِ رسالتﷺ میں عرض داشت بھی کہ جس جس کی نظر ان لفظوں پر پڑے سرکارؐ اسے مدینے کے دربار طلب میں طلب فرما لیں… (جاری)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے