پنجاب حکومت کا کمائو بیٹا

پنجاب حکومت کے ایک بیٹے نے پچھلے دو سال میں ایک کھرب روپیہ کمایا ہے۔ جی ہاں! دو سال میں ایک سو ارب روپیہ کوئی معمولی رقم نہیں۔ اگلی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی کمائی کا چیک پنجاب کا کمائو بیٹا اپنے باپ کی خدمت میں پیش کرے گا۔ اس منظر کودیکھنے کے لئے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ مجھے بھی اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ پنجاب حکومت کی وزارت خزانہ کو باپ کہہ لیں اور ”پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ‘‘ کو بیٹا کہہ لیں۔

ٹیکنالوجی بورڈ نے کمائی کی ہے‘ اس کے موجودہ چیئرمین محترم حبیب الرحمن گیلانی ہیں۔ پنجاب کے وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے؛ چنانچہ گیلانی صاحب نے پنجاب حکومت کے کمائو بیٹے کا چیک وزیر خزانہ کی خدمت میں پیش کیا اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ممتاز لوگوں نے آئی ٹی بورڈ کو خوب خراج تحسین پیش کیا۔ مخدوم ہاشم کا کہنا تھا؛ دنیا میں زراعت ہی دولت تھی‘ صنعت اور انڈسٹری آگے آئی تو دولت کی ریل پیل کے حساب سے زراعت بہت پیچھے رہ گئی اور انڈسٹری دولت کا آسمان بن کر مال کی بارش برسانے لگ گئی۔

اب انڈسٹری پیچھے رہ گئی ہے‘ جبکہ ڈیجیٹل دنیا دولت کا آسمان بنتا جا رہا ہے۔ ہمارے سفر کا آغاز ہو چکا ہے‘ ہمیں اپنی معیشت کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اساس پر آگے بڑھانا ہے۔ آئی ٹی بورڈ کے چیئرمین جناب حبیب الرحمن گیلانی نے واضح کیا کہ ہمارے پڑوسی (چین اور بھارت) اس ٹیکنالوجی سے اربوں روپے کما رہے ہیں‘ میرے ساتھ بلوچستان کی حکومت اور گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری نے بھی رابطہ کیا ہے کہ ہم آپ کی مہارت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ہم نے کہا ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے تمام شعبوں کو آئی ٹی کی بنیاد پر استوار کرنے کے لئے ہم ہمہ وقت حاضر ہیں۔ بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل ساجد لطیف نے انکشاف کرتے ہوئے ہمیں آگاہ کیا کہ سو ارب روپے کے علاوہ آئی ٹی بورڈ نے موجودہ ایک ہفتے میں ایک ارب‘ یعنی سو کروڑ روپے کما لیا ہے۔ یاد رہے! یہ صرف سٹامپ پیپرز کی کمائی ہے۔

سٹامپ پیپرز کے الیکٹرونک نظام کی وجہ سے 20ارب روپے کی جعل سازی اور کرپشن کا اختتام ہوا ہے‘ یعنی جائیدادوں کی خرید و فروخت کرنے والے بھی جعل سازی سے محفوظ ہو گئے اور حکومت کی کمائی میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ وقت یوں بچا کہ ماضی میں اسٹامپ پیپر کے عمل میں تین دن لگتے تھے۔ اب یہ کام اپنے کمپیوٹر پر بیٹھ کر صرف پندرہ منٹ میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی حکمرانی کو آئی ٹی کی اساس پر منظم کرتی ہے تو معاشی خودکفالت بھی حاصل ہو گی۔ حکمرانی بھی شفاف ہو گی‘ کرپشن ختم ہو گی‘ وقت کی بچت ہو گی اور پاکستان ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کرتا چلا جائے گا اور ایک صوبے کا صرف ایک شعبہ ہی کمائو بیٹا نہیں بنے گا ‘بلکہ تمام صوبوں کا ہر محکمہ کمائو بیٹا بنے گا اور وفاق کا ہر وفاقی محکمہ اسی طرح کمائو بیٹا بنے گا ‘تو ہمارا ملک دیکھتے ہی دیکھتے کہاں سے کہاں جا پہنچے گا۔ (انشاء اللہ)

محترم اسد اللہ غالب صاحب صحافت کی دنیا میں ایک بلند مقام رکھتے ہیں۔ تقریب کے اختتام پر احباب گرامی چائے کی میز پر بیٹھے تو عمار چودھری نے مخدوم ہاشم اور بورڈ کے چیئرمین گیلانی صاحب کے ساتھ غالب صاحب کو بٹھا دیا۔

مجھے بھی قریب کی کرسی پر بیٹھنے کو کہا‘ غالب صاحب نے آئی ٹی پر احباب کو مشوروں سے نوازا۔ غالب صاحب وہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے صحافت کی دنیا میں ایک اخبار کو آئی ٹی پر لا کر کروڑوں میں خرچہ کم کروا دیا اور آمدن میں بے پناہ اضافہ کروا دیا‘ پھر سب اخبارات ان کے چلن پر چل نکلے۔ عمار چودھری صاحب بھی انہی کے ہونہار بیٹے ہیں۔

”آئی ٹی‘‘ کا معنی انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے۔ انفارمیشن کا معنی اطلاع یا کسی شے کی حقیقت کا علم ہے۔ گویا انفارمیشن کا مطلب علم ہے‘ پھر اس علم کو ٹیکنالوجی یعنی مشینی انداز میں ڈھال کر استفادہ کرنے کا نام ”آئی ٹی‘‘ ہے۔ یوں یہ وہ علم ہے کہ جس کی بنیاد پر جدید دنیا میں مال و دولت کے دریا بہائے جا رہے ہیں۔ انسان کے ڈی این اے کا کچھ حصہ معلوم کر لیا گیا ہے تو میڈیکل کی دنیا میں انقلاب آ گیا ہے‘ جنہوں نے مذکورہ آئی ٹی حاصل کی‘ میڈیکل کی دنیا میں دولت بھی وہی کما رہے ہیں۔ زراعت میں جائیں تو بیج میں نشوونما پا کر پودا اور درخت بننے کا جو علم ہے اسے حاصل کر کے ایسے بیج بنا لئے گئے ہیں کہ جنہوں نے زراعت میں آئی ٹی کا علم حاصل کیا وہی اب دولتوں کے انبار جمع کر رہے ہیں۔ یہی حال ہر شعبے کا ہے‘ لہٰذا وزیر خزانہ کا یہ کہنا بجا ہے کہ موجودہ دور ”آئی ٹی‘‘ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔

خبر اور اطلاع کا نام ہی علم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو پیدا کیا تو ان کی فطرت میں اشیاء کی حقیقت کو جاننے کی صلاحیت رکھی۔ فرشتوں میں یہ صلاحیت نہ تھی؛ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام فرشتوں کے مسجود بنا دیئے گئے۔ یہ سجدہ کیا تھا؟ یہ حضرت آدم علیہ السلام کی علمی برتری کو ماننے کا اظہار تھا۔ عربی زبان میں ”نبأَ‘‘ کا معنی خبر ہے۔ ”انبائ‘‘ کا معنی ”خبریں‘‘ ہے۔ نبی کا معنی خبر دینے والا ہے۔ رسول کا معنی ‘اللہ کا پیغام پہنچانے والا ہے۔ یہ پیغام بھی ایک خبر ہے‘ اسی سے نبوت و رسالت ہے‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر اور پیغام ملنے کے نظام کا معنی نبوت و رسالت ہے۔

یہ علم حضرت جبرائیل ؑ کے ذریعے سے نبیوں اور رسولوں کو ملتا تھا۔ انسانیت کی ہدایت کا آخری کامل ترین علم حضرت محمد کریمؐ کو دیا گیا۔ وہ علم قرآن اور حدیث کی صورت میں انسانیت کے پاس محفوظ ترین صورت میں موجود ہے۔ نبیوں کو جس طریقے سے علم دیا گیا اسے وحی کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو جس لطیف ترین انداز سے علم و خبر اور اطلاع دیتے ہیں اس تک ہماری عقل کی رسائی نہیں؛ البتہ جو علم ہمارے سامنے آتا ہے‘ اس کی عظمت کے سامنے نہ ماننے والی انسانی دانشوری بھی سجدہ ریز نظر آتی ہے اور وہ پچھلے چودہ سو سال سے حضورؐ کی وحی کے سامنے لاجواب ہے۔

قرآن‘ جو وحی ہے‘ اس میں اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کا ذکر کر کے اطلاع دی ہے کہ ہم نے مکھی کی طرف وحی کی کہ وہ شہد بنائے‘یعنی مکھی کے جین میں اللہ تعالیٰ نے شہد بنانے کا ایک پورا نظام رکھ دیا۔ اس سسٹم اور نظام کو کتابوں میں بیان کیا جائے‘ تو بیسیوں نہیں سینکڑوں اور ہزاروں کتابیں لکھنی پڑ جائیں‘ لیکن یہ پورا نظام اللہ تعالیٰ نے مکھی کے جین پر لکھ دیا ہے۔ مکھی اسی نظام کے تحت چل رہی ہے۔ جی ہاں! قرآن جو وحی کی اعلیٰ ترین کتاب ہے‘ وہ ہمیں بتلاتی ہے کہ اے مجھے پڑھنے والو! انفارمیشن کو شہد کی مکھی میں حاصل کرو… آہ! ہم نے حاصل نہ کیا‘ آیئے!

اب حاصل کریں‘ اہلِ حق حاصل کریں گے‘ تومنفی پہلوئوں سے انسانیت کو بچائیں گے۔ جی ہاں! وہ منفی پہلو جو انسانیت کی ہلاکت کا باعث ہیں جس پر صدر کلنٹن نے بھی پابندی لگائی تھی۔ الغرض! یہ وہ علم ہے کہ اسے حاصل کر کے قرآن و حدیث کی وحی کے مطابق استعمال کرنا چاہئے۔ یہی انسانیت کے لئے مفید ہے۔ اے مولا کریم! میرے ملک پاکستان کے اہل علم کو اس کی ایسی توفیق عطا فرما کہ انسانیت کی بھلائی میں دنیا کی خیربھی ملے اور آخرت بھی کامران و کامیاب ملے۔ (آمین)

پنجاب حکومت کے ایک بیٹے نے پچھلے دو سال میں ایک کھرب روپیہ کمایا ہے۔ پنجاب حکومت کی وزارت خزانہ کو باپ کہہ لیں اور ”پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ‘‘ کو بیٹا کہہ لیں۔ ٹیکنالوجی بورڈ نے کمائی کی ہے‘ اس کے موجودہ چیئرمین محترم حبیب الرحمن گیلانی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے