آزادکشمیر میں سیاحت کو لاحق خطرات

آزادکشمیر میں حالیہ برسوں میں سیاحوں کی آمد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ سیاحوں کی پاکستان کی معروف سیرگاہوں سے اکتاہٹ اور کچھ نیا دیکھنے کی خواہش بھی ہے۔ سیاحوں کی بڑی تعداد میں آمد نے آزادکشمیر کی سیاحتی انڈسٹری کے لیے روشن اور امید افزاء امکانات کا در کھولا ہے ۔ بے شمار معاشی طور پر کمزور افراد کو گھر بیٹھے روزگار کمانے کے مواقع میسر آئے ہیں اور نجی سیاحتی گروپس بھی کاروبار میں ترقی کر رہے ہیں ۔ ریاست بھر میں قائم سرکاری گیسٹ ہاؤسز میں سے کچھ گیسٹ ہاوسز کو لیز پر نجی سرمایہ کاروں کو دینے کے بعداب ان گیسٹ ہاوسز میں بیوروکریٹس اور دیگر افسران کے خاندانوں اور دوستوں کے علاوہ بھی مہمان آنے لگے ہیں۔ سیاحوں کی آمد میں اضافے کی وجہ سے ریونیو کی صورت حال بہتری کی جانب گامزن ہے۔شاید اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت آزادکشمیر نے آمدہ سال 2019 کو سیاحت کے سال کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے اور کہا یہ گیا کہ سیاحوں کو ریاست میں خوش آمد کہا جائے اور ان کو تمام سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔

حکومت کے اعلانات اور زمین پر موجود حقیقتوں میں البتہ ابھی تک مکمل ہم آہنگی نہیں۔ ابھی چند دن قبل نومبر کے آخری ہفتے میں آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں کراچی سے آئے ہوئے سیاحوں سے پولیس نے جو سلوک کیا ، اسے دیکھ کر کئی طرح کے خدشات جنم لیتے ہیں۔ کراچی سے آئے ہوئے سیاح فرحان احمد اور اس کے ساتھیوں کو مظفرآباد کے صدر تھانہ کے پولیس اہلکاروں نے بغیر کسی وجہ کے ناصرف یہ کہ حبس بے جا میں رکھا بلکہ ان کے ساتھ انتہائی نازیبا سلوک بھی کیا ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ سیاحوں سے ڈیڑھ لاکھ رشوت بھی طلب کی گئی ، بھاؤ تاؤ ہوا تو بات 40 ہزار روپے پر ختم ہوئی ۔ مزید یہ کہ رشوت کی رقم وصول کرنے کے لیے پولیس اہلکار بینک کی اے ٹی ایم تک ساتھ گئے ۔ پیسے وصول کیے اور سیاحوں کو وہیں سے ڈرا دھمکاکر ’’ریاست بدر‘‘ کر دیا۔پولیس کا ریکارڈ اس واقعے کے بارے میں بالکل خاموش ہے۔

اس کے بعد کہانی نے اس وقت کروٹ لی جب متاثرہ سیاحوں کا رابطہ آزاد کشمیر کی سیاحت پر نظر رکھنے والے صحافی جلال الدین مغل سے ہوا اور یہ خبر ان تک پہنچی ۔ سوشل میڈیا پر آوازاٹھائی گئی ۔ پھر بات کسی طرح وزیراعظم فاروق حیدر تک پہنچی تو انہوں نے واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ۔ ڈپٹی کمشنر مسعود الرحمٰن نے تسلی دلائی کہ انصاف ہوگا۔وزیر سیاحت مشتاق منہاس نے بھی ملوث اہلکاروں کے خلاف سخت ایکشن لینے کی بات کی۔ انکوائری شروع ہوئی ، سیاح فرحان احمد کو مظفرآباد بلایا گیا ۔ ایس ایس پی آفس میں اس کا بیان ریکارڈ ہوا۔ پولیس افسران نے انصاف کرنے کا وعدہ کر کے اسے رخصت کر دیا۔ بتایاجاتا ہے کہ تحقیقات ابھی جاری ہیں۔مظفرآباد کے تھانہ صدر کے ایک پولیس اہلکار مزمل میر(جو اس واقعے کا مرکزی کردار ہے) کو بچانے کے لیے کئی لابیز حرکت میں آ چکی ہیں۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ سیاح کو کسی طرح بیان تبدیل کرنے پر راضی کیا جائے ۔ ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔ جب کبھی راشی اور کرپٹ پولیس اہلکار کے خلاف انکوائری ہوتی تو وہ اور اس کے ساتھی مختلف ہتھکنڈوں سے سائل کو بیان بدلنے پر مجبور کر دیتے اور کہانی وہیں دفن ہو جایا کرتی۔ مذکور پولیس اہلکار کے معاملے میں ماضی میں ایسا ہو چکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اب کی بار بھی ایسا ہی ہوگا یا پھر وزیراعظم اور ضلع کے ڈپٹی کمشنر قضیے کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائیں گے؟ یہ اہم سوال ہے۔

یہ تو خیر ایک کہانی ہے جو کسی نہ کسی طرح رپورٹ ہوگئی۔ ریاستی صحافت کا بڑا حصہ البتہ اس خبر سے لاتعلق ہی رہا ۔ روزنامہ خبرنامہ کے ایڈیٹر اور حساس دل رکھنے والے انسان دوست صحافی واجد خان نے مگریہ خبر 27 نومبر 2018 کو مکمل تفصیل کے ساتھ شائع کی اور اس مسئلے پر 28 نومبر کواداریہ بھی لکھا۔ دانش ور صحافی ملک عبدالحکیم کشمیری نے بھی 28 نومبر کو روزنامہ صبح نو میں کالم لکھ کر مسئلے کی حساسیت سے حکومت کو آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ ایک گھمبیر خاموشی چھائی رہی کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ میرے خیال میں آزادکشمیر کی صحافت کو سیاحت سے جڑے امور کے بارے میں حساسیت کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اس خطے کے معاشی امکانات کو وقتِ موجود میں صرف سیاحت ہی بڑھا سکتی ہے۔اگر اس قسم کی ’’مورل پولیسنگ‘‘ کے خلاف آواز بلند نہ کی گئی تو سیاح بددل ہوکر یہاں کا رخ کرنا چھوڑ دیں گے ۔

آزادکشمیر حکومت ، اخلاقیات کی لٹھ بردار پولیس اور محکمہ سیاحت کو گزشتہ سال سیاحوں کی جانب سے چلائی گئی ’’بائیکاٹ مری‘‘ مہم سے سبق سیکھنا چاہیے ۔ اس مہم نے چند دنوں میں مری کی معاشی سرگرمیوں کو معطل کر کے رکھ دیا تھا ۔ پھر بات معافیوں تلافیوں اور خوشامد تک جا پہنچی تھی۔اگر آزاد کشمیر پولیس نے اپنا رویہ نہ بدلا اور محکمہ سیاحت نے سیاحوں کے مسائل حل کرنے کی جانب توجہ نہ دی تو یہ انڈسٹری اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے سے قبل ہی بیٹھ جائے گی اور اس صورت حال میں خطے پر پڑنے والے معاشی اثرات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔نئی سیاحتی پالیسی(سنا کہیں بن رہی ہے تو اس) میں اس پہلو پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے.

سیاحوں کے ساتھ پولیس کی بدتمیزی اور ان سے بھاری رشوت لینے کے تازہ واقعہ میں محکمہ سیاحت کی جانب سے مجرمانہ خاموشی کئی طرح کے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ اس محکمے نے اگر سیاحوں کے مسائل کے حل میں مدد نہیں کرنی تو پھر اس کے قیام کا مقصد کیا ہے؟محض تنخواہیں اور فنڈز۔۔؟حالت یہ ہے کہ اس محکمے کی ویب سائٹ پر کوئی بھی چیز اپ ڈیٹڈ نہیں۔ چند تصویریں ٹانگ رکھی ہیں ، سیاحوں کے فائدے کی کوئی آپشن نہیں ہے۔ڈسکرپشن انتہائی ناقص اور ناکافی ہے۔ ایمرجنسی کال سروس کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ پولیس اگر ریاست کے انٹری پوائنٹس (کوہالہ ، برارکوٹ وغیرہ )میں قائم چوکیوں پرسیاحوں کو تنگ کرے تومتعلقہ محکمے کی طرف سے فوری شنوائی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ایسے میں سیاحت کیسے چل سکتی ہے؟ وزیرسیاحت مشتاق منہاس کو چاہیے کہ وہ اپنے ماتحت محکمے کی کارکردگی اور حالت زار کی جانب ذرا التفات کریں کہ کچھ تو بدلے۔

رہا ”مورل پولیسنگ” کا معاملہ تو فیس بک پر کئی پولیس اہلکار یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ ’’سیاحت کا مطلب فحاشی نہیں‘‘ ۔ ٹھیک ہے، لیکن کیاآپ کی بیان کردہ ’’فحاشی‘‘ 40 ہزار روپے رشوت لینے کے بعد ”دائرۂ شرعی” میں آ جاتی ہے؟ حیرت اس وقت ہوئی کہ سوشل میڈیا پر بعض ایسے پولیس اہلکاروں کو بھی اخلاقی و مذہبی بھاشن دیتے دیکھا جن کے نام منشیات کے دھندے اور دیگر نامناسب سرگرمیوں میں لیے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سیاحوں کے پاس شناختی کارڈ اور گاڑی کے کاغذات موجود ہوتے ہوئے بھی انہیں بلیک میل کیوں کیا جاتا ہے؟ اگر کوئی خاتون سیاح گروپ میں شامل ہو تو بلیک کرنا اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔ اگر یہی کرنا ہے تو حکومت آزادکشمیر حکم جاری کرے کہ’’ آزادکشمیر میں سیاحت کے لیے لازم شرط ہے کہ سیاح اپنی گاڑیوں کے بونٹ پراپنے نکاح ناموں کی جہازی سائز کی فلیکس لگوا کر آئیں ورنہ ہماری پولیس کا اخلاقی ڈنڈا حرکت میں آ جائے گا‘‘۔ مجھے البتہ یہ بات سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی تائی ، چچی ، دادی، ممانی ، پھوپھویا خالہ کے ساتھ ریاست میں داخل ہو تو وہ محض شناختی کارڈ سے پولیس والوں کو کیسے رشتے کی نوعیت باور کرا سکے گا؟دلچسپ بات یہ ہے ایسے بھی کچھ واقعات پیش آ چکے ہیں۔

بات طویل ہورہی ہے۔ گزارش یہی ہے کہ سیاحوں سے پولیس کی بد سلوکی کے حالیہ واقعے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے تاکہ ایک مثال قائم ہو۔ جو لوگ رشوت کے چند ٹکوں کی خاطرصرف کمزور لوگوں پر مذہبی لَٹھ کا استعمال کرتے ہیں ، وہ آزادکشمیر میں سیاحت کے دشمن ہیں ۔ ایسے دشمنوں کو بے نقاب کیا جانا چاہیے۔ وزیراعظم کی سیاحوں کو انٹری پوائنٹس پر ذلیل نہ کرنے کی ہدایت کو پاؤں کی ٹھوکر سے اڑانے والوں کی تادیب اہم ہے۔ وزارت سیاحت اور محکمہ سیاحت کو اپنی کارکردگی سے ثابت کرنا چاہیے کہ وہ اپنے قیام کا مقصد پورا کر رہا ہے۔ وگرنہ سال میں ایک بار پیرا گلائیڈنگ کروانے، کچھ کیلنڈر چھاپ دینے اور سرکاری زمین کی لیز میں کچھ ذاتی دوستوں کو معاونت فراہم کر دینے سے سیاحت کے فروغ میں کوئی خاص پیش رفت ہونے کا امکان نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے