تقدّس، تحفظِ قرآن

مسلمانوں کیلئے تو کلام مجید پہلے ہی دن سے فرمانِ اِلٰہی تھا مگر وقت کیساتھ ساتھ غیرمسلم بھی قائل ہوگئے کہ اس میں جو راز اَفشا کئے گئے ہیں وہ کسی انسان کا کام نہیں صرف خالق مطلق ہی ان رازوں سے واقف ہے۔ آہستہ آہستہ سائنسدانوں نے ان رازوں کی صداقت کا ثبوت دیا جو کلام مجید میں 14سو سال سے زیادہ پہلے اللہ رب العزت نے کلام مجید میں اَفشا کئے تھے۔ آج سب یہ مانتے ہیں کہ یہ راز صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم تھے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ رب العزّت نے یہ کلام حضرت جبرائیل ؑ کے ذریعے ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ تک پہنچایا تھا۔

کلام مجید میں یوں اس کا ذکر ہے۔ ’’اگر تم سمجھو تو یہ بڑی قسم ہے (تاروں کی منزلوں کی قسم) کہ یہ بڑے رُتبے کا قرآن ہے جو ’کتاب محفوظ‘ میں لکھا ہوا ہے۔ اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں۔ یہ پروردگار عالم کی جانب سے اُتارا گیا ہے‘‘ (سورۃ واقعہ، آیات 75-80 )۔ سورۃ ق آیت 50 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، ’’یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں ہمیں خوب معلوم ہے اور تم ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہو۔ پس جو ہمارے عذاب کی آمد سے ڈرے اس کو قرآن سے نصیحت کرتے رہو‘‘۔ہمارے اپنے شاعر مشرق، مفکّر پاکستان علّامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے کلام مجید کا تعارف فارسی میں یوں کیا ہے:

آں کتاب زندہ قرآن کریم

حِکمتِ او لایزال اَست و قدیم

صد جہانِ تازہ در آیاتِ اُوست

چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود

جاں چو دیگر شد جہاں دیگر شود

ترجمہ: قرآن کریم وہ زندہ و جاوید کتاب ہے جس کی حکمت و دانش قدیم بھی ہے اور دائمی و لازوال بھی۔ اس کی آیات کریمہ میں سینکڑوں نئی دنیائوں کے بے انتہا امکانات پوشیدہ ہیں اور اس کی آیات میں ان گنت صدیاں اور لاتعداد زمانے بند ہیں جب یہ قلب و جان میں اترتا ہے تو انہیں زیر و زبر کرکے رکھ دیتا ہے اور جب یہ انقلاب آتا ہے تو آدمی کی دنیا ہی بدل جاتی ہے‘‘۔

(بشکریہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری)

کلام مجید کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے اور جب اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت میں ہو تو کیا کوئی انسان اس میں ردّو بدل کرسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں پوری دنیا کو کھلا چیلنج دیا ہے، ’’اگر تم کو اس کلام میں جو ہم نے اپنے بندے (محمد ﷺ) پر نازل کیا ہے کچھ شک ہے تو اس جیسی ایک سورۃ بنا لائو اور اس کام کے لئے اللہ کے سوا، اپنے حمایتوں اور مددگاروں کو بھی بلا لو، اگر تم سچے ہو تو!‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت 23) ان تمام رازوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کلام مجید کے بارے میں فرماتا ہے، ’’اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے، تو کیا کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟‘‘ (سورۃ القمر آیت 40 )۔

اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے سورہ الحجر، آیت 9 میں فرمایا ہے۔ ’’بیشک ہم نے ہی اِسے (کلام مجید کو) نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرینگے‘‘۔ ذرا سوچئے، دنیا میں بھلا کوئی ایسی طاقت موجود ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں موجود چیز کو تبدیل کرسکے یا اس میں ردّ و بدل کرسکے؟ ان آیات کے علاوہ کلام مجید میں لاتعداد جگہ اللہ تعالیٰ نے کلام مجید کی بلاغت و فراست کی جانب اشارہ کیاہے۔ چند دن پیشتر ایک محترم دوست نے بذریعہ واٹس ایپ یہ قرآن مجید کے بارے میں معلوماتی مراسلہ بھیجا تھا وہ آپ کی خدمت میں جوں کا توں پیش کررہا ہوں۔

’’قرآن حکیم کا دعویٰ ہے کہ اس میں کوئی باطل بات داخل نہیں ہوسکتی۔ اس لئے کہ قرآن حکیم کا ایک ایک حرف اتنی زبردست کیلکولیشن اور اتنے حساب و کتاب کے ساتھ اپنی جگہ پر فٹ ہے کہ اسے تھوڑا سا اِدھر اُدھر کرنے سے وہ ساری کیلکولیشن درہم برہم ہوجاتی ہے جس کے ساتھ قرآن پاک کی اعجازی شان نمایاں ہے۔ اتنی بڑی کتاب میں اتنی باریک کیلکولیشن کا کوئی رائٹر تصور بھی نہیں کرسکتا۔ بریکٹس میں دیئے گئے یہ الفاظ بطور نمونہ ہیں ورنہ قرآن کا ہر لفظ جتنی مرتبہ استعمال ہوا ہے وہ تعداد اور اس کا پورا بیک گرائونڈ اپنی جگہ خود علم و عرفان کا ایک وسیع جہاںہے۔ دنیا کا لفظ اگر 115 مرتبہ استعمال ہوا ہے تو اس کے مقابل آخرت کا لفظ بھی 115 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ وعلیٰ ھذالقیاس۔ (دنیا و آخرت115) (شیاطین وملائکہ 88) (موت و حیات145) (نفع و فساد50 ) (اجر فصل108) (کفر و ایمان25 ) (شھر12 ) کیونکہ شھر کا مطلب مہینہ اور سال میں 12 مہینے ہی ہوتے ہیں۔ اور یوم کا لفظ 360 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔

اتنی بڑی کتاب میں اس عددی مناسبت کا خیال رکھنا کسی بھی انسانی مصنف کے بس کی بات نہیں۔ مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ جدید ترین ریسرچ کے مطابق قرآن حکیم کے حفاظتی نظام میں 19 کے عدد کا بڑا عمل دخل ہے، اس حیران کن دریافت کا سہرا ایک مصری ڈاکٹر راشد خلیفہ کے سر ہے جو امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر تھے۔ 1968 میں انہوں نے مکمل قرآن پاک کمپیوٹر پرڈالنے کے بعد قرآن پاک کی آیات ان کے الفاظ و حروف میں کوئی تعلق تلاش کرنا شروع کردیا رفتہ رفتہ اور لوگ بھی اس ریسرچ میں شامل ہوتے گئے حتیٰ کہ 1972 میں یہ ایک باقاعدہ ا سکول بن گیا۔ ریسرچ کا کام جونہی آگے بڑھا ان لوگوں پر قدم قدم پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، قرآن حکیم کے الفاظ و حروف میں انہیں ایک ایسی حسابی ترتیب نظر آئی جس کے مکمل ادراک کے لئے اس وقت تک کے بنے ہوئے کمپیوٹر ناکافی تھے۔

کلام اللہ میں 19 کا ہندسہ صرف سورہ مدثر میں آیا ہے جہاں اللہ نے فرمایا:دوزخ پر ہم نے انیس محافظ فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے اس میں کیا حکمت ہے یہ تو رب ہی جانے لیکن اتنا اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ 19 کے عدد کا تعلق اللہ کے کسی حفاظتی انتظام سے ہے پھر ہر سورۃ کے آغاز میں قرآن مجید کی پہلی آیت بسم اللہ کو رکھا گیا ہے گویا کہ اس کاتعلق بھی قرآن کی حفاظت سے ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں بسم اللہ کے کل حروف بھی 19 ہی ہیں پھر یہ دیکھ کر مزید حیرت میں اضافہ ہوتا ہے کہ بسم اللہ میں ترتیب کے ساتھ چار الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ان کے بارے میں ریسرچ کی تو ثابت ہو کہ اسم پورے قرآن میں 19 مرتبہ استعمال ہوا ہے لفظ الرحمٰن 57 مرتبہ استعمال ہوا ہے جو 19×3 کا حاصل ہے اور لفظ الرحیم 114 مرتبہ استعمال ہوا ہے جو 19×6 کا حاصل ہے اور لفظ اللہ پورے قرآن میں 2699 مرتبہ استعمال ہوا ہے 19×142 کا حاصل ہے لیکن یہاں بقیہ ایک رہتا ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ اللہ کی ذات پاک کسی حساب کے تابع نہیں ہے وہ یکتا ہے۔

قرآن مجید کی سورتوں کی تعداد بھی 114 ہے جو 19×6 کا حاصل ہے سورہ توبہ کے آغاز میں بسم اللہ نازل نہیں ہوئی لیکن سورہ نمل آیت نمبر 30 میں مکمل بسم اللہ نازل کرکے 19 کے فارمولا کی تصدیق کردی اگر ایسا نہ ہوتا تو حسابی قاعدہ فیل ہوجاتا۔

اب آئیے حضور ﷺ پر اترنے والی پہلی وحی کی طرف: یہ سور ہ علق کی پہلی 5 آیات ہیں اور یہیں سے 19 کے اس حسابی فارمولے کا آغاز ہوتا ہے! ان 5 آیات کے کل الفاظ 19 ہیں اور ان 19 الفاظ کے کل حروف 76 ہیں جو ٹھیک 19×4 کا حاصل ہیں لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی جب سورۃ علق کے کل حروف کی گنتی کی گئی تو عقل تو ورطہ حیرت میں ڈوب گئی کہ اسکے کل حروف 304 ہیں جو 19x4x4 کا حاصل ہیں۔ اور سامعین کرام! عقل یہ دیکھ کر حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں مزید ڈوب جاتی ہے کہ قرآن پاک کی موجودہ ترتیب کے مطابق سورہ علق قرآن پاک کی 96 نمبر سورۃ ہے۔

اب اگر قرآن کی آخری سورۃ الناس کی طرف سے گنتی کریں تو اخیر کی طرف سے سورہ علق کا نمبر 19 بنتا ہے اور اگر قرآن کی ابتدا سے دیکھیں تو اس 96 نمبر سورۃ سے پہلے 95 سورتیں ہیں جو ٹھیک 19×5 کا حاصل ضرب ہیں جس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ سورتوں کے آگے پیچھے کی ترتیب بھی انسانی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حسابی نظام کا ہی ایک حصہ ہے۔ قرآن پاک کی سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت سورہ نصر ہے یہ سن کر آپ پر پھر ایک مرتبہ خوشگوار حیرت طاری ہوگی کہ اللہ پاک نے یہاں بھی 19 کا نظام برقرار رکھا ہے پہلی وحی کی طرح آخری وحی سورہ نصر ٹھیک 19 الفاظ پر مشتمل ہے یوں کلام اللہ کی پہلی اور آخری سورت ایک ہی حسابی قاعدے سے نازل ہوئیں۔ (جاری ہے)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے