جعلی خبروں کا مقابلہ کیسے کیا جائے

فیک نیوز یا جعلی خبر سے مراد مذاقاً بنائی گئی خبروں اور ویڈیوز سے لیکر پراپیگنڈا تک ہر وہ چیز ہو سکتی ہے جس کا مقصد انٹرنیٹ پر جھوٹی یا گمراہ کن معلومات پھیلنا ہوتا ہے۔ ایسا عموماً سیاسی یا مالی مفاد کے لیے کیا جاتا ہے۔

اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے حکومتوں کا پراپیگنڈا کوئی نئی چیز نہیں۔ بی بی سی کا مانیٹرنگ کا شعبہ دنیا بھر میں ذرائع ابلاغ میں حقائق کو توڑ موڑ کے پیش کرنے کا جائزہ سنہ 1930 کے عشرے سے لے رہا ہے۔ ان تمام برسوں میں جو چیز تبدیل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اب پہلے کے مقابلے میں جھوٹی خبریں سوشل میڈیا کے ذریعے پل بھر میں بین الاقوامی سرحدیں عبور کر کے دور دور تک پھیل جاتی ہیں۔

فیک نیوز کیا ہے، یہ ایک متنازعہ معاملہ ہے کیونکہ کچھ سیاستدان معتبر ذرائع ابلاغ اور میڈیا پر تنقید کرنے کے لیے ایسی خبروں کو جعلی قرار دیتے ہیں جن سے وہ اتفاق نہیں کرتے۔اسی لیے ایسے ماہرین جو فیک نیوز پر تحقیق کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ڈجیٹل میڈیا کے اس دور میں غلط معلومات پھیلانے کےعمل کے لیے جعلی خبروں کی جگہ کوئی دوسری اصطلاح استعمال کرنی چاہیے، مثلاً ’معلومات کو درہم برہم کرنا یا بے ضابطہ معلومات۔‘ یہ اصطلاح بہت ساری چیزوں کا احاطہ کرتی ہے اور اس میں نہ صرف سیاسی مقاصد کے لیے خبروں کو توڑ موڑ کر پیش کرنا شامل ہے، بلکہ صحت کے متعلق غلط معلومات، مشہور لوگوں اور فنکاروں کے متعلق افواہیں اور مجرمانہ حرکات کے ایسے غلط الزامات بھی شامل ہیں جو فرقہ وارانہ کشیدگی سے لیکر تشدد کا موجب بھی بن سکتے ہیں۔

[pullquote](2016 کے امریکی انتخابات سے پہلے سوشل میڈیا پر یہ غلط خبر پھیلائی گئی کہ پوپ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کر دی ہے۔)[/pullquote]

ہم اسے کوئی بھی نام دے لیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ غلط معلومات آج کا ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہیں۔چونکہ غلط معلومات حقیقت کی سرحدوں کی قید سے آزاد ہوتی ہیں، اس لیے ایسی کہانیاں ہمارے جذبات سے کھیلتی ہیں اور حقیقی خبروں کی بنست زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں۔امریکہ کی ایم آئی ٹی یونیورسٹی سے منسلک محققین کے مطابق سچ اور درست معلومات کے مقابلے میں ٹوئٹر پر جعلی خبریں کہیں زیادہ تیزی سی پھیلتی ہیں۔

اِن ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ اکثر اس قسم کی خبروں کو دوبارہ یا ری ٹویٹ کرنے والے انسان نہیں ہوتے بلکہ اس کام کے لیے کمپیوٹر استعمال کیے جاتے ہیں جو خود بخود یہ کام کرتے رہتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت یا آرٹیفشل انٹیلیجنس کے استعمال اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دوسری نت نئی تبدیلیوں کے بعد اب مشہور شخصیات کی جعلی آڈیوز اور ویڈیوز بنانا بھی ممکن ہو گیا ہے۔ اس قسم کی ویڈیوز کو نہایت جعلی ویڈیوز یا ’ڈیپ فیکس‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ آج کل جعلی معلومات پھیلانے میں جدید ٹیکنالوجی کے کردار سے انکار ممکن نہیں۔ اس قسم کی ٹیکنالوجی نہ صرف جعلی خبریں پیدا کرنے کا ہتھیار بن چکی ہے بلکہ درست خبروں پر لوگوں کے اعتماد کو بھی کم کر رہی ہے۔ ایسے میں بی بی سی کے لیے خبروں کی تصدیق کرنا مزید اہم ہو جائے گا اور لوگوں کے اعتماد کو محفوظ رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

[pullquote]سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحافی اس صورت حال کا مقابلہ کیسے کریں؟[/pullquote]

ہمارے خیال میں اس کے لیے چار چیزیں کی جا سکتی ہیں، اور وہ یہ ہیں:

خبروں کی تصدیق
جعلی خبروں کو بے نقاب کرنا
شفافیت اور ناظرین کو میڈیا کے درست استعمال کی تربیت دینا۔

[pullquote]1:خبروں کی تصدیق[/pullquote]

اچھے ذرائع ابلاغ پر لوگوں کا اعتماد قائم رکھنے کے لیے صحافیوں کو ایسے اقدامات کرنا ضروری ہیں جن کے ذریعے وہ فیک نیوز سے بچ سکیں۔ صحافیوں کے لیے ضروری ہے کہ جو بھی خبر انٹرنیٹ پر آئے، اس کی تصدیق ضرور کر لیں۔

ہمارا یو جی سی ہب کا شعبہ اس مقصد کے لیے کئی طریقے استعمال کرتا ہے جن سے تصویروں کی تصدیق وغیرہ کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں خبر، تصویر یا ویڈیو کے اصل ماخذ کا پتہ لگانا اور اس سے بات کرنا ایک بہت اچھا قدم ہو سکتا ہے۔ خبر کے ماخذ کا پتہ لگانے کے علاوہ بھی ایسے کئی طریقے اور ٹُولز دستیاب ہیں جن سے ہم کسی مواد کی تصدیق کر سکتے ہیں، مثلاً ویڈیو کا میٹا ڈیٹا، یہ ویڈیو کہاں اور کب بنائی گئی، سورج کے زاویے یا مقامی موسم کے ذریعے تصویر کی تصدیق کرنا، وغیرہ۔

کچھ آن لائن تنظیموں کے ذریعے بھی مواد کی تصدیق کی جاتی ہے، جن میں بیلنگ کیٹ اور ڈجیٹل شرلوکس نمایاں ہیں۔ غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہمارے لیے شاید دیگر صحافیوں اور رضاکار افراد یا تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنا بھی ضروری ہوچکا ہے۔

[pullquote]2 : جعلی خبروں کا توڑ[/pullquote]

جعلی خبروں کو بے نقاب کرتے وقت ایک بات جس کا صحافیوں کو خیال رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ کہیں ان کے بے نقاب کرنے سے خبر مزید پھیل تو نہیں رہی۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر خبر جعلی ہے تو بی بی سی کو اسے چھیڑنا نہیں چاہیے، لیکن اگر وہ غلط خبر تیزی سے لوگوں میں پھیل رہی ہے اور اس سے اصل موضوعات دب کر رہ گئے ہیں، تو کئی لوگوں کے خیال میں عوام کی خدمت تو یہی ہو گی کہ ہم اس خبر کو بے نقاب کریں۔ اس حوالے سے ہمیں چاہیے کہ ادارتی سطح پر بات کریں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ آیا ایسی خبر کو بے نقاب کرنا ضروری ہے اور کیا ہمارے پاس اسے رد کرنے کے لیےضروری مواد موجود ہے یا نہیں۔

بی بی سی ریئلٹی چیک کا شعبہ ایسی خبروں کی تحقیق کرتا ہے اور سامعین کے سوالوں کے جواب بھی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ بی بی سی کی عالمی سروس اور ریڈیو فور نے بھی غلط اعداد وشمار کو پرکھنے کے لیے چند ہدایات دی ہیں، جن میں چیدہ چیدہ یہ ہیں:

٭ آپ خود خبر کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔

٭ دوسری آن لائن جعلی خبروں کی طرح اعداد وشمار کے ماخذ کی تفتیش بھی ضروری ہے۔

٭ اس کے علاوہ خبروں کے درست ہونے کی تصدیق کے لیے بھی ذرائع موجود ہیں، مثلاً ’فُل فیکٹ‘ افریقہ چیک‘ وغیرہ۔

[pullquote]3 : شفافیت[/pullquote]

آج کے میڈیا کے شور اور جانبداری سے بھرپور اس مارکیٹ میں جہاں کئی ادارے بی بی سی کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ سامعین میں ہمارا اعتماد قائم رہے۔

ہم سب سے غلطی ہو سکتی ہے اور ہم بھی تیزی میں کوئی غلط نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں اور تصدیق کیے بغیر اعداد و شمار شائع کر سکتے ہیں۔ اس لیے ہمارے لیے شفافیت ضروری ہے۔ اگر کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو فوراً اپنے ایڈیٹر کو بتائیے اور اگر نئی معلومات کی روشنی میں آپ خبر میں کوئی تبدیلی کرتے ہیں تو تب بھی اس کا برملا اظہار کریں کہ آپ نے تبدیلی کی ہے۔اپنی غلطی کو درست کرنے اور غلطی پر معذرت کرنے سے سامعین میں ہمارا اعتماد قائم رہتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم اپنی خبروں اور ذرائع کے بارے میں کھل کر بات کریں تو اس سے بھی سامعین کو بھی یہ سمجھنے میں آسانی ہو گی کہ اچھی صحافت کیا ہوتی ہے۔

[pullquote]میڈیا کی تعلیم[/pullquote]

غلط معلومات کو پھیلنے سے روکنے کا ایک بہت اچھا طریقہ یہ ہے کہ ہم سامعین کو تعلیم دیں تا کہ وہ ان خبروں کو تنقیدی نظر سے دیکھ سکیں جو سوشل میڈیا پر نظر آتی ہیں۔جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے تو یہاں بی بی سی نوجوانوں کے ساتھ مل کر ’بی بی سی سکول رپورٹ‘ نامی ایک سیریز کے ذریعے بچوں کو ایسی تربیت فراہم کرتا ہے جس سے وہ صحافت کو بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں بی بی سی کی ٹیمیں سکولوں میں جاتی ہیں جہاں وہ ’آئی رپورٹر‘ جیسے ٹُولز سے بچوں کو آگاہ کرتی ہیں۔ اب ہم بی بی سی سکول رپورٹ کو عالمی سطح پر لانچ کر رہے ہیں جس کا آغاز ہم کینیا اور انڈیا سے کر رہے ہیں۔

[pullquote]بشکریہ بی بی سی اُردو[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے