ملالہ سے بات گفتگو میں بہت مزہ آیا، خواہش تھی کہ ملاقات کا دورانیہ زیادہ ہوتا، بل گیٹس

12036911_10153151312081961_4624270752935305221_n

بل گیٹس (Bill Gates) مائیکروسافٹ کمپنی کا چیئر مین اور دنیا کا امیر ترین شخص ہے, گذشتہ دنوں بل گیٹس کی ملاقات ملالہ سے ہوئی، اس کی تفصیل اس نے اپنے بلاگ میں لکھی جس کا ترجمہ پیش خدمت ہے:

دوہفتے قبل مجھے نیو یارک میں ملالہ یوسفزئی سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ میں نے اسے دنیا کی جرات مند ترین لوگوں میں سے پایا۔

جیسا کہ آپ کو علم ہے ملالہ پاکستان کی نوجوان لڑکی ہے جسے طالبان نے صرف اس لیے مارنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے علاقے کی لڑکیوں کو سکول بھیجنے کی وکالت کرتی تھی۔ اس سے ملاقات کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ملالہ کو گولیاں لگنا اور پھر معجزانہ طور پر بچ جانا کے علاوہ بھی اس کی شخصیت میں بہت کچھ ہے۔

اس کی شخصیت انتہائی متاثر کن ہے ۔ وہ اپنا نقطہ نظر مدلل انداز سے بیان کرتی ہے ۔ مجھے اس سے گفتگو میں بہت مزہ آیا ۔ یہ ملاقات مختصر تھی مگر میری خواہش تھی کہ ملاقات کا دورانیہ کچھ زیادہ ہوتا۔

گو کہ وہ حملے کے بعد شدید زخمی اور مرنے کے قریب تھی ، صحت یاب ہونے کے بعد بھی اسے پوری زندگی کچھ جسمانی چیلنجز کا مقابلہ کرنا پڑے گااور وہ انگلینڈ میں جلاوطنی کی زندگی بھی گذار رہی ہے لیکن اس کے ذہن میں اپنے مخالفین کے لیے ذرہ برابر کوئی انتقامی جذبات یا غصہ نہیں ہے۔

بجائے اس کے کہ وہ ان پر لعن طعن یا غصے کا اظہار کرتی وہ انتہائی میٹھے لہجے میں باتیں اور ہلکا پھلکا مذاق کرنے والی لڑکی ہے۔اس سے زیادہ یہ کہ دنیا کا اعلیٰ ترین انعام (نوبل پرائز) حاصل کرنے کے باوجود اس کی گفتگو عاجزانہ اور متاثر کن ہے۔ جیسا کہ نیو یارک ٹائمز کے کالم نگار نے لکھا ’’ شاید یہ دنیا کی سب سے زیادہ متاثر کن لڑکی ہے‘‘۔

عاجزی بہت اچھی چیز ہے اور یہ اچھی شخصیت کی پہچان بنتی ہے۔ اکیڈمی ایوارڈ جیتنے والے فلمساز ڈیوس گوگنہیم نے، جس نے تقریباً ایک سال تک ملالہ اور اس کی فیملی کے ساتھ سفر کیا اوروقت گذارا ، ملالہ پر ایک دستاویزی فلم”ہی نیمڈ می ملالہٗ” بنائی ہے جو حال ہی میں ریلیز ہوئی ہے ۔

میں یہ بتادوں کہ ڈیوس گوگنہیم میرا ذاتی دوست ہے۔

چند دن پہلے مجھے اپنی تیرہ سالہ بیٹی ’’فوبی‘‘ اور اس کی سہیلیوں کے ساتھ یہ فلم دیکھنے کا موقع ملا۔ میرے خیال میں یہ ایک شاندار فلم ہے اورفوبی کا بھی یہی کہنا تھا۔ فوبی ، ملالہ اور اس کے مشن ، کہ تمام لڑکیوں کو اچھی تعلیم ملے، سے بہت زیادہ متاثر ہے۔

یہ ذہن میں رکھیں کہ فوبی بھی لڑکیوں کی تعلیم کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ وہ موسم گرما میں دس روز کے لیے روانڈا کے ایک پرائمری سکول میں اسسٹنٹ ٹیچر کے طور پر پڑھانے گئی تھی۔ لیکن میر ا یقین ہے کہ زیادہ تر افراد جو ملالہ کی عمر یا اس سے زیادہ کے ہیں جنہوں نے بھی یہ فلم دیکھی ہے وہ اس کی کہانی سے لازمی طور پر متاثر ہوئے ہوں گے۔اور ڈیوس نے تو اس کو بہت اعلیٰ طریقے سے بیان کیا ہے۔

مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کیسے ایک دن ملالہ سفر کرتی ہے اور اپنی زندگی اور آزادی کا دفاع اور لڑکیوں کو تعلیم کے لیے قائل کر رہی ہے اور اگلے دن وہ ایک نارمل طالب علم کی طرح اپنے بھائیوں کے ساتھ سکول کا ہوم ورک کرتی نظر آتی ہے ۔مجھے فلم میں اس کی زندگی کے پچھلے واقعات دیکھ کر بھی خوشی ہوئی۔

مجھے سب سے زیادہ جس چیز نے متاثر کیا وہ ملالہ کے والد ضیاء الدین کا کردار ہے جنہوں نے اپنی بیٹی کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی اور اسے اپنی بات کہنے کے مواقع دیے ۔ ان کی خواہش تھی کہ کاش میں بھی اپنی سکول کی عمر میں یہ کچھ کر سکتا۔

ملالہ نے اپنی فلم میں واضح طور کہا ہے اور میری اس سے بات بھی ہوئی کہ وہ اس بات پر یقین نہیں کرتی کہ میرے والد نے مجھے اس رستے پر ڈالا ہے یا اس راستے پر ڈال کر بہت بڑا رسک لیا۔ لیکن مجھے خدشہ ہے کہ یہ فلم والدین کے درمیان ایک اشتعال انگیز بحث کو جنم دے سکتی ہے کہ بچوں کو اس قسم کے رسک پر آمادہ کرنا یا اخلاقی حمایت دینا اور کیسے ہم اپنے بچوں کی رہنمائی کریں کہ وہ کسی کے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔

مجھے یہ یقین ہے کہ زیادہ تر فلم بین تھیٹر سے جب نکلیں گے تو ہ افسردہ ہونے کی بجائے ملالہ کی طرح ایک امید لے کر نکلیں گے ۔ اور وہ یہ سوال بھی پوچھیں گے جیسا کہ میری بیٹی نے پوچھا کہ ’’میں اس کی مدد کیسے کر سکتی ہوں‘‘ ۔ اس سوال کا جواب یہی ہے کہ ملالہ کے تعلیمی فنڈز میں حصہ ڈالیں

Now is your time to stand # with Malala

کچھ ناقدین نے اسے اوسط درجے کی فلم قرارد یا ہے۔ مجھے شک ہے کہ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ڈیوس اپنے مضمون کے بہت زیادہ قریب ہے ۔ ایک سخت صحافی کی طرح سوالات پوچھنے کی بجائے انتہائی نرم دلی سے ملالہ کی وکالت کرتا ہے۔

میں ان تبصروں کا احترام کرتا ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ ڈیوس نے وہی کچھ کیا ہے جو اسے کرنا چاہیے ۔ عام طور پر فلم بناتے ہوئے اصل واقعات کے ساتھ ساتھ کچھ فکشن بھی شامل کر دیا جاتا ہے لیکن ڈیوس نے بڑی مہارت سے اس کی اصل کہانی بیان کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ کہانی ناظرین کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اور اس کی مدد کرنے کو تحریک دیتی ہے۔

میں ذاتی طور پر سوچ رہا ہوں کہ میری فاؤنڈیشن ملالہ کے مشن کی کیسے مدد کر سکتی ہے تاکہ اس کی بااثر آواز کو بہتر سے بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکے۔

I recently got to talk to Malala Yousafzai about her life, and the new movie about her.Here’s a short video of our chat: http://b-gat.es/1LoyKj5

Posted by Bill Gates on Thursday, October 8, 2015

(اصل تحریر کا لنک: http://www.gatesnotes.com/About-Bill-Gates/He-Named-Me-Malala)
(ترجمہ بشکریہ نیا زمانہ)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے