مطالعے کی موت، کتابوں کا قبرستان

کراچی میں ٹریفک جام ہونا معمول کی بات ہے۔ ایک دن میں ایم اے جناح روڈ سے ٹاور کی جانب سفر کررہا تھا۔ ٹریفک شدید جام تھا اور شہر قائد اسموگ کی لپیٹ میں تھا۔ میں نے ٹریفک سے کنارہ کشی اختیار کرنے کےلیے اپنی بائیک سول اسپتال والی سڑک پر موڑ دی جہاں ایمرجنسی گیٹ ہے اور چلتا بنا۔ اس گلی میں خاصے میڈیکل اسٹورز بھی ہیں۔ اسپتال کے گیٹ سے گزرتے ہوئے اچانک میری نظر ایک غیر معمولی منظر پر پڑی؛ میں نے وزیراعظم عمران خان کی طرح عظیم لیڈر بننے کے چکر میں ’’یوٹرن‘‘ لے لیا اور دوبارہ اسپتال کے گیٹ کی جانب آپہنچا۔

شام کے لگ بھگ پانچ بج رہے تھے۔ جس غیر معمولی منظر پر میری نگاہ پڑی، وہ ایک ٹھیلہ تھا جس پر موجود خزانے کی چمک سے میری آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ اس ٹھیلے پر مختلف کتابیں موجود تھیں، انگریزی اور اردو دنوں۔ میں نے چاچا سے ایک کتاب کی قیمت جانی تو انہوں نے 200 روپے بتائی۔ ویسے تو میں سعادت حسین منٹو کے درجنوں افسانے پڑھ چکا ہوں جن میں سے میرے پسندیدہ افسانے ’’چوہے دان‘‘ اور ’’گورمکھ کی وصیت‘‘ ہیں۔ یہ دونوں افسانے بہت ہی عمدہ لکھے گئے ہیں۔ خیر، میں نے چاچا سے ’’منٹو کے بہترین افسانے‘‘ کے عنوان والی کتاب خرید لی اور اپنی لائبریری میں ایک پھر منٹو کو جگہ دے دی۔

کتاب کا انتخاب کرتے وقت میں چاچا سے گفتگو بھی کر رہا تھا۔ میں نے ان سے اپنا تعارف کرایا اور ایک کتاب ہاتھ میں لیے ان سے گفتگو شروع کردی۔
میں نے چاچا سے ان کا نام جاننا چاہا جس پر انہوں نے کتابوں پر نظریں جمائے ہوئے بتایا، ’’میرا نام محمد حنیف ہے۔‘‘

میں نے مفکرانہ انداز میں ان سے عمر پوچھی تو انہوں نے 55 سال بتائی۔

کتاب کے صفحات پلٹتے ہوئے میں نے حنیف چاچا سے سوال کیا: ’’آپ صبح کتنے بجے ٹھیلا لگاتے ہیں اورکتنی کتابیں فروخت ہوجاتی ہیں؟‘‘

انہوں نے آستین کا بٹن لگتے ہوئے جواب دیا: ’’میں 11 بجے ٹھیلا لگاتا ہوں۔ دن میں 4 چار سے زیادہ کتابیں فروخت نہیں کر پاتا اور کبھی کبھی تو ایک کتاب کا بھی سودا نہیں ہوپاتا جس کی وجہ سے شام کو خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑتا ہے۔‘‘

’’کس کس طرح کے لوگ آتے ہیں ٹھیلے پر؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

’’ٹھیلے پر کتاب خریدنے والے کم اور یہاں کھڑے ہوکر پڑھنے والے لوگ زیادہ آتے ہیں،‘‘ انہوں نے موازنہ کرتے ہوئے بتایا، ’’لڑکے زیادہ اور لڑکیاں کم آتی ہیں لیکن کتابیں زیادہ تر لڑکیاں ہی خریدتی ہیں۔‘‘

میں نے عمیرہ احمد کی ’’دربارِ دل‘‘ ہاتھ میں لیے حنیف چاچا سے ٹھیلے سے حاصل ہونے والی آمدنی سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا: ’’میں پچھلے 7 سال سے کتابیں فروخت کر رہا ہوں۔ پہلے دن میں کم از کم 10 اور زیادہ سے زیادہ 18 کتابیں فروخت ہوجاتی تھیں۔ لیکن اب لوگوں میں کتابیں پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے جس سے میری آمدنی متاثرہوگئی ہے۔‘‘

میں حنیف چاچا کی اس بات سے کسی حد تک متفق ہوں کہ لوگوں میں کتابیں پڑھنے کا رجحان پہلے کے نسبت کم ہوا ہے۔ اساتذہ بتاتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں لائبریریاں ہوا کرتی تھیں لیکن اب سرے سے ان کا وجود ہی نہیں۔ ظاہر سی بات ہے جب لائبریریاں ہی موجود نہیں ہوں گی تو لوگ کیسے کتابوں کی طرف متوجہ ہوں گے؟ ہم تو اس عادت میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ گھر بیٹھے بیٹھے انٹرنیٹ سے نئی اور پرانی کتابیں حاصل کرلیتے ہیں جس سے ہمارے پیسے اور وقت، دنوں بچ جاتے ہیں۔

خیر، کچھ ہی فاصلے پر ایک اور ٹھیلے پر میری نظر پڑی جہاں ایک پٹھان بھائی پرانے جوتے فروخت کررہے تھے۔ وہاں بہت بھیڑ تھی اور حنیف چاچا کے پاس میں اکیلا ہی کھڑا تھا۔ میں مشورہ دینے والے انداز میں اُس ٹھیلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حنیف چاچا سے مخاطب ہوا: ’’وہاں بہت رش ہے۔ لوگ جوتے خرید رہے ہیں۔ آپ کتابیں چھوڑ کر جوتوں کا کاروبار کیوں نہیں کرلیتے؟‘‘

میرے اس مشورے پر حنیف چاچا پوری گفتگو کے دوران پہلی بار مسکرائے اور کہا: ’’مجھے کتابیں فروخت کرنا اچھا لگتا ہے۔ جب کوئی مجھ سے کتاب خریدتا ہے تو یہ ضروری نہیں کہ وہ پوری کتاب پڑھتا ہوگا لیکن اگر تھوڑی سی بھی پڑھ لیتا ہوگا تو اس سے مجھے خوشی ہوتی ہے… اُن جوتوں سے زیادہ لوگوں کو اِن کتابوں کی ضرورت ہے۔‘‘

حنیف چاچا کی یہ بات بھی سو فیصد درست ہے کہ لوگوں کو کتابوں کی ضرورت ہے۔ اگر قوت ِخرید کی بات کی جائے تو کتاب ایک سستا سودا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لوگ جسم ڈھانپنے کےلیے مہنگے سے مہنگے کپڑے خریدتے ہیں لیکن اصلاحِ ذات کےلیے کتاب مہنگی لگتی ہے۔

بہرحال، حنیف چاچا نے گفتگو کے دوران چائے کا آرڈر دیا تھا جو اب تک آ پہنچی تھی۔ موسم اسموگ کی وجہ سے خاصا آلودہ تھا۔ اس کے باوجود مجھے چائے کے ساتھ پکوڑوں کی طلب محسوس ہوئی لیکن آس پاس تو کیا دُور دُور تک کوئی پکوڑے والا نہیں تھا۔

چائے میں چینی، آٹے میں نمک سے بھی کم تھی لیکن ذائقہ اس قدر اچھا تھا کہ مجھے ایک شعر بے اختیار یاد آگیا:

چائے ہی چائے بدن میں ہے لہو کے بدلے
دوڑتا اب ہے رگوں میں یہی تتا پانی

حنیف چاچا نے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے مایوسی والے انداز میں کہا: ’’شہر میں ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ ٹھیلوں، پتھاروں اور فٹ پاتھ پر قائم ناجائز کیبنیں، سب ہٹائی جارہی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں بھی متاثر ہونے والا ہوں۔‘‘

جس انداز میں حنیف چاچا نے اپنی بے بسی بیان کی، وہ نہایت دردناک تھا۔ میرے پاس انہیں حوصلہ دینے کے سوا کچھ نہیں تھا، سو میں نے انہیں دلاسہ دیتے ہوئے کہا: ’’یہ آپریشن کچھ دنوں میں معاملات طے ہونے کے بعد رک جائے گا، جیسا کہ ہر بار ہوتا ہے۔‘‘ میری اس بات سے وہ کچھ مطمئن نظر آئے۔

سورج غروب ہورہا تھا۔ میں نے منٹو کی کتاب اپنے بستے میں ڈالی اور حنیف چاچا سے سودے بازی سے اجتناب کرتے ہوئے 200 روپے ان کے ہاتھ میں تھمادیئے۔ میں الوداعی کلمات ادا کر ہی رہا تھا کہ اتنے میں دو لڑکیاں ٹھیلے پر آ پہنچیں۔ میں ٹھہر گیا کیونکہ لڑکیوں کا کتاب خریدنے اور مول تول کا انداز دیکھنا مقصود تھا۔ دونوں لڑکیاں طالب علم معلوم ہورہی تھیں۔ آپس میں باتیں کرتے ہوئے ایک لڑکی نے کتاب ہاتھ میں اٹھائی جس کا عنوان تھا ’’محبت کی کتاب‘‘ جو ایوب خاور نامی مصنف نے لکھی تھی۔ میرا اس کتاب کو پڑھنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔

لڑکیوں نے کتاب کا انتخاب کرلیا تھا اور حنیف چاچا سے سودے کی بات چل رہی تھی۔ حنیف چاچا نے کہا: ’’آپ کوئی بھی کتاب خرید لیجیے، 200 روپے سے کم میں نہیں دوں گا۔‘‘ لیکن لڑکیاں 150 روپے پر اڑی ہوئی تھیں۔ کچھ دیر بھاؤ تاؤ کے بعد معاملہ 180روپے میں طے پاگیا اور یوں حنیف چاچا کے ٹھیلے پر ایک اور کتاب کا بوجھ کم ہوگیا۔ میں نے حنیف چاچا سے اجازت چاہی اور آئندہ دوسری کتابیں خریدنے کا وعدہ بھی کیا۔

ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ کتاب انسان کی سب سے بے مثال دوست ہے۔ انسان کتاب کے ساتھ کبھی تنہا نہیں رہ سکتا۔ دنیا میں کتابوں سے دلچسپی رکھنے والوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا میں مطالعے کے بہت سے طریقے ہیں مگر کتاب کی دائمی اہمیت اپنی جگہ قائم و موجود ہے۔

انگریزی کا ایک مشہور مقولہ ہے ’’When you open a book, you open a new world‘‘ جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب آپ کتاب پڑھتے ہیں تو ایک نئی دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں۔ کتاب کے مطالعے سے انسان نیا علم سیکھتا ہے، نئے راستے تلاش کرتا ہے، تاریخ کا علم حاصل کرکے موجودہ دور کا مشاہدہ کرتا ہے، اپنی پریشانیوں کا حل نکالتا ہے اور انہی کتابوں سے وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک کتاب ہی انسان کے ذہن کو کشادہ کرتی ہے اور انسان کو ذہنی غلامی کا شکار ہونے سے بچاتی ہے۔ ہمارے معاشرے پر نظر ڈالی جائے تو مایوسی کے ساتھ یہ معلوم ہوگا کہ بہت محدود تعداد میں لوگ کتابوں میں پوشیدہ اصولوں کو اپناتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ایک محدود نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں چاہیے کہ ہم غیر نصابی مطالعہ کریں کیونکہ یہی انسانی شعور میں گہرائی کا سبب بنتا ہے اور انسان کی سوچ کو محدود رکھنے کے بجائے وسیع کرتا ہے۔

ایک شعر پر تحریر کا اختتام چاہوں گا:

جب کتابوں سے میری بات نہیں ہوتی ہے
تب میری رات، میری رات نہیں ہوتی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے