تنازع کشمیر،اسٹیٹ سبجیکٹ کی پرچی اور مِلن کی آس

ایک عام تاثر یہ پایا جا تا ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ پاکستان کا صوبہ بننا چاہتے ہیں ، اس کا عام فہم سا مطلب "گلگت بلتستان بنے گا پاکستان” ہی ہے ، جیسا کہ ریاست جموں کشمیر کی پاکستان سائیڈ پر قائم ریاست کی ” متوازی اور باغی ” آزاد حکومت کے زیر انتظام لوکل اتھارٹی کے لوگ "کشمیر بنے گا پاکستان” کا نعرہ لگاتے ہیں۔ سابق ریاست جموں کشمیر کی دونوں منقسم اکائیوں میں اس نعرے کا لگنا قطعا نہ تو معیوب ہے اور نہ ہی اس پر کسی کو مطعون کیا جا سکتا ہے ، یہ ایک جمہوری اورسیاسی حق ہے جو کہ عین جمہوری طرز سیاست کے حق کے طور پر تسلیم کیا جانا ضروری ہے۔

کچھ احباب گلگت بلتستان پر ڈوگرہ راج کے دوران ہونے والے مظالم کا بڑے زور و شور کے ساتھ تذکرہ فرماتے ہوئے اکثر یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ چونکہ ڈوگروں نے اس خطہ پر زبردستی قبضہ کر کے اس پر ظلم کیے تھے اس لئے وہ کشمیر کا حصہ نہ تھے ، انہیں زبردستی کشمیر کے حکمرانوں نے اپنے ساتھ شامل کیا تھا، اس میں بھی کوئی شک نہیں اس خطہ زمین بسنے والوں پر صرف ڈوگرہ راج میں ہی نہیں ، ضیا راج میں تو باقاعدہ "عَلَم جہاد” بلند کر قتل عام کیا گیا تھا۔ اگر ظلم و جبر سابقہ ریاست سے لا تعلقی کی دلیل مان لی جائے تو 80 کی دھائی والے منظر کو کیا نام دیا جائے گا ؟

ظلم و ستم کسی بھی صورت قابل برداشت ہے نہ ہو گا اور نہ اس کی حمایت کی جا سکتی ہے، پہلا ظلم جس بادشاہ جس ڈوگرے نے کیا ، وہ بھی قابل مذمت اوربعد میں بھی جس نے اہل ریاست جموں کشمیر کے سینے میں نیزہ مارا وہ بھی قابل مذمت ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عوام کو ان کی مرضی کے مطابق زندہ رہنے کا حق حاصل ہونا ہی دراصل جمہوریت کی اصل روح ہے۔

جب ہم تقسیم ہند کے”نا مکمل ایجنڈے” یعنی جموں کشمیر ریاست کے سیاسی مستقبل یا حتمی حل کی بابت کوئی رائے دیں تو اس میں ایک اہم نکتہ ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے ، بات 1947 کی ریاست جموں کشمیر کے مستقبل کی ہے ، اس ریاست کی جس میں جموں کشمیر کے بادشاہ نے گلگت بلتستان جیسے ایک سے زائد راجواڑوں کو بزور تلوار شامل کر رکھا تھا۔

آج کی بحث یہ ہے کہ یہ متنازع ریاست کے عوام پاکستانی ہیں یا بھارتی، اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اور جب تک یہ فیصلہ نہیں ہو جاتا تو اس وقت تک ان کی اپنی ہی شناخت ہی دراصل شناخت سمجھی اور تسلیم کی جائے گی ورنہ تنازع کس بات پر ہے؟ یہ تو تنازع ہے کہ ایک ملک کہتا ہے کہ یہ پاکستانی ہیں ، دوسرا کہتا ہے کہ یہ بھارتی ہیں ، جب تک یہ فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک ان کی وہی شناخت جو ان دونوں ممالک کی پیدائش سے پہلے تھی ، ہونی چاہیے نہ کہ صرف تصور کی بنیاد پر بین لاقوامی طور پر تسلیم شدہ اور موعود طریقہ کار کے استعمال ہونے سے قبل ہی کوئی نئی شناخت تسلیم کر لی جائے یا دے دی جائے۔

یہی تو اصل تنازع ہے ، جو نزاع سے بڑھ کر جنگ و جدل کا رخ بھی اختیار کرتا رہا ہے، اس تنازع کے بیچوں بیچ ایک اور مسئلہ بھی ہے ، وہ ہے انسانی مسئلہ یعنی ان ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی زندگی ، موت اور انسانی حقوق کا مسئلہ ، جس کے درد سے شاید وہی آشنا ہو سکتے ہیں جن پر بیت چکی ہو یا بیت رہی ہے ورنہ وہ لوگ جو دنیا بھر میں ” کشمیر توجہ چاہتا ہے ” کی غوغا کرتے پھرتے ہیں ، وہ دنیا کو اگر مناسب طریقہ سے بتا دیتے کہ” کشمیری بھی توجہ” کے طالب ہیں تو تنازع ہوتے ہوئے بھی ہم لوگ جنگ بندی لائن کے آر پار بلا روک ٹوک آجا سکتے تھے جیسے "آپریشن جبرالٹر” سے پہلے تک ہوتا رہا تھا، جس کا اختیار اقوام متحدہ نے ریاستی باشندوں کو دے رکھا ہے اور یقینا اسی اجازتکو بنیاد بنا کر اعتماد سازی کے اٹھائے گئے اقدامات کے تحت 2005 میں صرف سٹیٹ سبجیکٹ کی بنیاد پر جنگ بندی لائن کو عبور کرنے کا عمل شروع ہوا۔

جنگ بندی لائن عبور کرنے کی اجازت کا یہ بین الاقوامی فیصلہ ہمارے لیے اتنا اہم ثابت ہوا کہ بھارت "اٹوٹ انگ” کے موقف کے باوجود بغیر پاسپورٹ سٹیٹ سبجیکٹ کو جنگ بندی لائن یا کنٹرول لائن عبور کرنے پر مجبور ہوا حالانکہ بھارت بہت پہلے یک طرفہ طور پر ریاست کو بھارت کی فیڈریشن کا حصہ بنا چکا ہے بلکہ اس پر ریاستی سیاسی قیادت سے انگوٹھا بھی لگوارکھا ہے ( جس طرح کہ اب پاکستان گلگت بلتستان کے حوالے ایسا ہی ایک فیصلہ کرنے کے لیے پر تول رہا ہے ) لیکن اعتماد سازی کے اقدامات کے تحت جنگ بندی لائن عبور کرنے کے بین الاقوامی رعایت کو یا ریاست کی متنازع حیثیت کو یک طرفہ طور پر ختم نہیں کیا جا سکا اور بھارت کو ریاستی باشندوں کے لیے مجبورا کنٹرول لائن کھولنا پڑی ۔

اگر مسئلہ کو اسی تناظر میں دیکھا جائے تو کرگل سکردو رُوٹ اور چکوٹھی سرینگر رُوٹ ایک ہی طرح کی چیزیں ہیں. چکوٹھی کے آر پار ایل او سی کو عبور کرنے کی بنیادی شرط سٹیٹ سبجیکٹ موجود ہونے کے سبب محدود پیمانے پر ہی سہی آمد ورفت جاری کی جا سکی جبکہ کرگل سکردو روٹ کھولنے میں سٹیٹ سبجیکٹ کا نہ ہونا بھی آڑے آیا اور ریاستی باشندوں کی روایتی سادگی بھی مار گئی ، ان بے چاروں سے جب قبل از وقت ان کی شناخت واپس لے لی گئی تو انہوں نے اسے اپنے ساتھ ہمدردی اور محبت سمجھا اور سمجھے کہ”پاکستان بن گیا” حالانکہ سٹیٹ سبجیکٹ رولز کی خلاف ورزی نے ہمیں کٹی پتنگ کی طرح ہوا میں ہچکولے کھانے پر مجبور کر دیا ہے۔

لیکن متنازع ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ جب تک ہمارا تنازع حل نہیں ہو جاتا تو اس وقت تک ہم کومے میں رہیں اور انتظار کریں کہ کب ہمارا مسئلہ حل ہوگا، پھر ہم زندگی شروع کریں گے ۔ تبھی ریاستی باشندوں کو با وقار اور جمہوری اصولوں کے تابع بسر اوقات کے لیے ہی بین الاقوامی برادری نے دونوں ملکوں بھارت اور پاکستان کو اپنے اپنے زیر انتظام علاقوں میں جمہوری طریقہ سے گڈ گورننس مہیا کرنے کا پابند کیا ہے ، یہاں تک کہ خوراک پر سبسڈی ، سفری دستاویزات ، شناختی کاغذات اور تحفظ مہیا کرنا بھی انہی متحارب ملکوں کی ذمہ داری ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ حکومت پاکستان نے ایک انتظامی حکم کے ذریعہ ریاست کی ” آزاد حکومت ” ہوتے ہوئے بھی آزاد کشمیر کو معاملات چلانے کی حد تک بطور صوبہ ٹریٹ کرنے کا فیصلہ کیا ، جس کے تحت آج بھی آزاد کشمیر بطور صوبہ ٹریٹ ہوتا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے معاملے میں ایسا کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ گلگت بلتستان کو الگ متنازع اکائی تسلیم کرتے ہوئے بھی معاملات چلانے کی حد صوبائی حیثیت دینے میں کیا امر مانع ہے ؟ اس طرح گلگت بلتستان پاکستان کے اسی طرح مکمل کنٹرول میں بھی رہے گا جیسا کہ پاکستان کی پالیسیوں کی منشا ہے اور ایک ہی وقت میں وہ بین الاقوامی سطح پر اپنی متنازع حیثیت کے پیش نظر کنٹرول لائن پر تجارت اور آمد و رفت کے مقاصد بھی حاصل کر سکے گا۔

واقفان حال جانتے ہیں کہ اس ضمن میں بارہا پاکستان اور بھارت کئی مراحل میں اتنے آگے بھی چلے گئے تھے کہ ریلیجیئس ٹورازم یعنی "زیارات ” اور حتی کہ عام سیاحت کے لئے بھی کنٹرول لائن کو کھولنے پر بات چیت ہوتی رہی ، کنٹرول لائن پر امن پارک بنانے کی باتیں بھی ہوتی رہیں یعنی کنٹرول لائن پر ایسی جگہوں کا تعین کر دیا جاتا کہ جہاں ایک مخصوص جگہ کو دونوں اطراف سے بند کر کے دونوں جانب گیٹ لگا دیے جاتے ، اس بند جگہ میں قائم ” پیس پارک” میں دونوں جانب سے منقسم ریاستی باشندے ایک دوسرے کو بلا روک ٹوک ملتے حتی کہ کاروبار کرتے ، وہاں ہوٹل ، دوکانیں حتی کہ تجارتی منڈیاں تک بنانا تجویز تھا جسے دنیا بھر کے امن پسند لوگوں کی حمایت حاصل تھی اور ایسے نہیں کہ یہ پیس پراسس اب ختم ہو گیا ہے ، یہ کسی نہ کسی سطح پر کہیں نہ کہیں ضرور چل رہا ہے . جب تک یہ پراسسس کسی نتیجہ پر نہیں پہنچتا ، اس وقت تک ایک طرف تو ہمیں گلگت بلتستان کے قدرتی روٹس کھولنے کی آوازوں کو مزید موثر بنا ہوگا اور دوسرے اس سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے خود کو اس کا اہل ثابت کرنا ہوگا، یعنی اپنی شناخت سٹیٹ سبجیکٹ جس کی بنیاد پر کنٹرول لائن کے آر پار آنا جانا ہوگا ۔ اس کھوئی ہوئی شناخت کو دوبارہ حاصل کرنے کی سعی کرنا ہوگی ، اس میں خود پاکستان کا فائدہ ہے.

اگر پاکستان استصواب رائے پر راضی ہے اور یقین رکھتا ہے تو اسے گلگت بلتستان کے لاکھوں لوگوں کو اس رائے دہی کا حصہ بنا کر اپنے ووٹ بنک بڑھانا وارے کا سوداہوگا ۔ جب تک کہ دونوں متحارب ملکوں کا ” تنازع کشمیر” اور سٹیٹ سبجیکٹ یعنی ریاستی باشندوں کا "مسئلہ کشمیر” حل نہیں ہو جاتا ، ریاستی باشندوں کو اپنی حتمی منزل تک پہنچے کا ٹکٹ سنبھال کر رکھنا ہوگا ، یہی سٹیٹ سبجیکٹ یعنی ووٹ کی پرچی جس پر ہماری نسلوں کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے ، ورنہ آنے والا کوئی لکھاری کل لکھے گا کہ فلاں نے ظلم اور جبر کر کے ہمیں اپنے ساتھ شامل کیا تھا ہم تو اس کا حصہ تھے ہی نہیں ۔

گلگت بلتسان میں ایک تاثر بہت شدید پایا جاتا ہے کہ شاید ریاست کی ” آزاد حکومت ” نے معاہدہ کراچی کر کے خود تو بہت کچھ لے لیا اور گلگت بلتستان کو بد ترین فرنٹئیر کرائم رولز (ایف سی آر ) کے حوالے کر دیا حالانکہ یہ حقیقت کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ اپنے "زیر نگین” لوگوں سے معاہدے کس طرح اور کن شرائط پر کیے جاتے ہیں اورپھر ان پر عمل درآمد کیسے ہوتا ہے، یہ سادہ سی بات سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کا سمجھنا شاید ضروری نہیں ، یقین نہ آئے تو ” پنجاب کے وزیراطلاعات چوہان صاحب کی آزاد کشمیر بارے کی گئی مشہور تقریر سن لیں” جس میں وہ ”آزاد حکومت” کے چیف ایکزیکٹو کی اصلی ”اوقات” بتانے کی کوشش کرتے ہیں.

حکومت پاکستان نے ریاست جموں کشمیر کی متوازی باغی "آزاد حکومت” کو بہت عرصہ تک ایک سرکاری افسر کے ذریعہ چلایا جب کہ” آزاد حکومت”کا صدر وزارت امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کے ایک معمولی افسر کو کوہالہ کے مقام پر استقبال کر کے گارڈ آف آنر پیش کرتا رہا تھا، پہلا پارلیمانی نظام تو1985 کی اسمبلی میں ملا جس کا وزیراعظم ٹی وی پر بیٹھ کر رو پڑا کہ ” میرے گھٹنوں میں شدید تکلیف ہے اور میں نے ” ان ” سے کہ دیا ہے کہ مجھ سے ” مری کے دفتر کی سیڑھیاں” اب بار بار نہیں چڑھی جاتیں۔”

جس عبوری آئین ایکٹ 1974 کی بات زور شور سے کی جاتی ہے ، اس میں نصف سیکریٹری امور حکمرانی پاکستان کے کنٹرول میں تھے اور انگلیوں پر گنے جاتے چند امور ریاست کی ” آزاد حکومت ” کے اختیار میں تھے، وہ بھی کبھی مارشل لا نے ایک حاضر سروس برگیڈئیر چیف ایگزیکٹو دیا اور کبھی ایکٹ کی دفعہ 56 نے صدر و وزیر اعظم کو دُولائی اور ساملی ڈیم کی راہ دکھلائی، ایسا بھی ہوا کہ رات کو ایک صاحب پاکستان کے بڑے افسر تھے ، صبح بغیر ریٹائرمنٹ کے ایک فوری حکم کے ساتھ اپنے ساتھ لایا ہوا صدارت کا قلمدان ایوان صدر مظفرآباد میں گاڑھ دیا، دورکی بات نہیں تازہ صدر ریاست حاضر سروس گریڈ بیس بائیس کے افسر کا ایک دن میں آزاد کشمیر کا شناختی کارڈ بنا، اسی روز ووٹر لسٹ میں نام آیا اور اگلے دن وہ صاحب ”آزاد حکومت” کے صدر تھے.

اس لیے گزارش ہے کہ سکردو کارگل روٹ کھولنے کی باتیں قیام امن کے اٹھائے گئے اقدمات کے جس جس مرحلے میں ہوئیں یا کہیں ہو رہی ہیں تو اُن کی بنیاد منقسم ریاست جموں کشمیر ہی ہے نہ کہ سکھوں کے ماڈل کے تحت کوئی تحریک.ہمیں‌ یہ پہلو ملحوظ رکھنا ہوگا.

نوٹ: یہ تنازع ریاست جموں کشمیر کے حوالے سے جاری مباحثے کا دوسرا حصہ ہے . پہلا حصہ پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر جائیں

مسئلہ کشمیر، نئے اقتصادی اکٹھ اور امکان کی پگڈنڈی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے