بد قسمتی کا مغالطہ

میرے ایک دوست کو خدا نے عجیب و غریب صلاحیت سے نوازا ہے، یہ ایسی حیرت انگیز خوبی ہے جو ہزاروں لاکھوں لوگوں میںسے بمشکل ایک شخص میں ہوتی ہے، کمال یہ ہے کہ اِس خوبی کیلئے علیحدہ سے محنت نہیں کرنا پڑتی اور نہ ہی یہ صلاحیت کوئی شخص اپنے آپ میں خود سے پیدا کر سکتا ہے، یوں سمجھئے کہ یہ بس قدرت کی طرف سے ودیعت کی جاتی ہے، ہر زبان میں اِس کے لئے مختلف الفاظ ہیں، اردو میں اسے بدقسمتی جبکہ انگریزی میں Jinxیا Curseکہا جاتا ہے۔

میرے جس دوست کو اپنی اِس خوبی پر ناز ہے، اُس کا کہنا ہے کہ آج تک زندگی میں اُس نے جب بھی کاروبار کیا یا کسی جگہ سرمایہ کاری کی یا کہیں محض شراکت داری کا ارادہ باندھا، وہ تمام منصوبے ناکام ہوئے، جو کاروبار کئی دہائیوں سے چل رہے تھے وہ محض اُس کی شرکت کی وجہ سے بند ہو گئے اور جس کمپنی میں اُس نے منافع کی غرض سے سرمایہ لگایا وہ کمپنی ہی ڈوب گئی۔ آج کل میرا یہ دوست اپنے تمام کاروباری دوستوں سے اِس بات کی ماہانہ فیس وصول کرتا ہے کہ وہ اُن کے کسی کاروبار میں حصہ دار بننے کی خواہش ظاہر نہیں کرے گا۔ فی الحال اُس کا یہ بزنس ماڈل کامیاب ہے۔

ہم سب لوگ زندگی میں کئی منصوبے بناتے ہیں، اُن میں سے کچھ ناکام ہوتے ہیں کچھ کامیاب ہوتے ہیں، کامیابی کو ہم اپنی محنت کا ثمر سمجھتے ہیں، خوش قسمتی گردانتے ہیں، خدا کا کرم کہتے ہیں، اپنے پیر کی کرامت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں یا پھرماں باپ کی دعاؤں کا قبول ہونا کہہ دیتے ہیں مگر جب کہیں ہم ناکام ہوتے ہیں تو پھر کسی عامل کا گریبان نہیں پکڑتے کہ تم نے عمل ٹھیک نہیں کیا یا اپنے والدین کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے کہ آپ نے دعائیں صحیح نہیں مانگیں یا اپنا محاسبہ نہیں کرتے کہ محنت یا پلاننگ کی کمی تو نہیں رہ گئی، ناکامی کی صورت میں ہم سارا ملبہ اپنی بد قسمتی پر ڈال دیتے ہیں۔ ’’بیڈ لک‘‘ ایسا لفظ ہے جو ہماری تمام کوتاہیوں، کمزوریوں اور نااہلیوں پر پردہ ڈال دیتا ہے، ہم اِس لفظ کے پیچھے چھپ جاتے ہیں اور اپنے مستقبل میں میسر آنے والے مواقع بھی کھو بیٹھتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کی زندگیوں میں بدقسمتی رونما نہیں ہوتی، اگر ایسی مثالیں ڈھونڈنی ہوں تو ہزاروں مل جائیں گی، میرے گھر سے پرے جو سڑک بن رہی ہے وہاں کچھ مزدور کام کر رہے ہیں، ہتھوڑی سے پتھر توڑتے میں انہیں دیکھتا ہوں، آج کل موسم قدرے ٹھنڈا ہے مگر جھلسا دینے والی گرمی میں بھی اِن انسانوں کی قسمت میں یہی کام لکھا ہے۔ مزید بدقسمتی دیکھنی ہو تو کسی اسپتال کا چکر لگا لیں وہاں کوئی غریب لاعلاج بیماری میں مبتلا مل جائے گا۔ سڑکوں پر گھسٹتے ہوئے اپاہج، بھیک مانگتے خواجہ سرا، جنگ زدہ علاقوں میں ٹھٹھرتے بے یارو مددگار بچے، لاپتا افراد کے لواحقین،گمنام قیدی، زرخرید غلام….. یہ ہوتی ہے بدقسمتی جس کا کوئی مداوا نہیں….. بارش کی صورت میں چھتری گھر بھولنے والے کو بدقسمت نہیں بھلکڑ کہتے ہیں۔جب زندگی کی کوئی منصوبہ بندی ہماری محنت اور ذہانت کے باوجود مطلوبہ نتائج نہیں دیتی تو ہم کہتے ہیں کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے۔ جبکہ یہ بد قسمتی نہیں لاعلمی ہوتی ہے۔

یہ کائنات انسان کے مقابلے میں بہت بڑی ہے، انسان کی حیثیت اس کائنات میں اتنی بھی نہیں جتنی ایک چیونٹی کی سمندر میں، اکیلی اِس دنیا میں سات ارب افرادبستے ہیں، یہ سات ارب افراد کھربوں قسم کے کام کرتے ہیں، کروڑوں نوکریاں پیدا ہوتی ہیں، کاروبار شروع ہوتے ہیں، بند ہوتے ہیں، کارخانوں سے مصنوعات تیار ہو کر نکلتی ہیں، حکومتیں مختلف فیصلے کرتی ہیں، جنگیں ہوتی ہیں، مافیاز کام کرتے ہیں، لاکھوں لوگ قتل ہوتے ہیں، حادثات کا شکار ہوتے ہیں، ہر واقعے، حادثے اور فیصلے کا ایک مختلف نتیجہ برآمد ہوتا ہے، کوئی انسانی ذہن ایسا نہیں یا کوئی سائنسی طریقہ اب تک دریافت نہیں ہو سکا جو روزانہ رونما ہونے والے ان تمام اربوں کھربوں عوامل کا ریکارڈ رکھ سکے، ان کا تجزیہ کر سکے اور پھر ان کی روشنی میں آنے والے حالات کی پیش گوئی کر سکے یا کوئی مبہم سی تصویرکشی ہی کر سکے۔ ایسی دنیا میں جب ہماری کوئی منصوبہ بندی ناکام ہوتی ہے تو دراصل وہ ہماری بدقسمتی کی وجہ سے ناکام نہیں ہوتی بلکہ اُن عوامل سے لا علمی کی بنا پر ناکام ہوتی ہے جو ہماری پلاننگ پر غیر محسوس طریقے سے اثر انداز ہوتے ہیں۔

ہم اپنی زندگیوں کے اہم فیصلے یا منصوبے کچھ نہ کچھ معلومات اکٹھی کرکے بناتے ہیں ،جتنا بھی ممکن ہو ہم اِدھر اُدھر سے جانکاری لینے کی کوشش کرتے ہیں، جدید ذرائع سے استفادہ کرتے ہیں اور پھر جو بھی علم ہمیں میسر ہو اس کی روشنی میں فیصلہ کرتے ہیں۔ یقیناً ایسا ہی ہونا چاہئے۔ مگر اس کے باوجود ہر معاملے میں ایسی معلومات بہر حال رہ جائیں گی جن تک آپ کی رسائی نہیں ہو پائے گی کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی انسان کسی معاملے کے ہر قسم کے پہلو سے آگاہ ہوسکے، ایک حد سے آگے یہ ممکن نہیں۔ نام نہاد بدقسمتی اُس حد سے آگے شروع ہوتی ہے۔

مجھے اندازہ ہے کہ ایک سادہ سی بات کو میں نے کس قدر الجھا دیا ہے، اِس سے مجھے سکون ملتا ہے، ذہنی اذیت پسندی کہہ لیں۔ سادہ بات تو یہ تھی کہ جو لوگ محنت اور منصوبہ بندی کے بغیر ہی کسی کام کے پیچھے اندھا دھند دوڑنا شروع کر دیتے ہیں تو آخر میں بدقسمتی اُن کے قدم چومتی ہے۔ اب اس بدقسمتی سے نمٹنے کا طریقہ کیا ہے؟ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آپ کیا نہیں جانتے ….. کوئی کاروبار شروع کرنا ہو، بہترین ملازمت حاصل کرنا ہو یا کوئی اہم فیصلہ کرنا ہو…..

یہ اچھی طرح جان لیں کہ آپ کیا کچھ نہیں جانتے تاکہ آپ کو ان دیکھے عوامل کا اندازہ ہو سکے پھر ہی آپ کی منصوبہ بندی میں اُن کا کوئی حل بھی نکالا جا سکے گا۔ لاعلمی جتنی کم ہوگی، بدقسمتی کی شرح بھی اتنی کم ہوگی۔ زندگی ہمیشہ دوسرا موقع دیتی ہے، اس کا انتظار کریں، اگر پہلی مرتبہ آپ کامیاب نہیں ہوئے اور اس کی وجہ آپ کی ’’بد قسمتی‘‘ تھی تو دوسرے موقع کا انتظار کریں اور اس سے پہلے اُن عوامل کو پتا چلائیں جن کی وجہ سے پہلی مرتبہ ناکامی آپ کے حصے میں آئی تاکہ دوسرے موقع کا بھرپور استعمال کیا جا سکے۔ جہاں یہ دنیا لامتناہی عوامل کو جنم دیتی ہے وہاں ان گنت مواقع بھی اسی دنیا میں پیدا ہوتے ہیں، کسی دوسرے کا موقع چھیننے کی ضرورت نہیں آپ کو اپنا حصہ خدا کی اِس وسیع دنیا سے مل جائے گا۔

بدقسمتی سے نمٹنے کا ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ بند دروازے پر ٹکریں مار کر وقت ضائع نہ کریں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ کوئی کام کرنے کی ضد بنا لیتے ہیں، دراصل انہوں نے سیلف ہیلپ قسم کی کتابوں میں پڑھا ہوتا ہے کہ دنیا میں ہر کام کیا جا سکتا ہے، کوئی بھی کام ناممکن نہیں، شاید ایسا ہی ہو مگر زندگی مختصر ہے اسے محض اپنی ہٹ دھرمی کی خاطر ضائع نہ کریں، اگر کوئی دروازہ بند ہے تو اسے ٹکریں مار کر کھولنے کی بجائے کوئی دوسرا دروازہ تلاش کریں جو پہلے سے ہی کھلا ہو، جب ہم بند دروازے کر ٹکریں مار کر تھک جاتے ہیں تو پھر اپنی ہی قسمت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور تان بدقسمتی پر آکر ٹوٹتی ہے۔ اسے بدقسمتی نہیں ڈھٹائی کہتے ہیں۔

کالم کی دُم: آ ج کالم لکھنے کے لئے لیپ ٹاپ کھولا تو معلوم ہوا کہ ’’بد قسمتی‘‘ سے وہ سافٹ وئیر کرپٹ ہو چکا ہے جس میں کالم لکھتا ہوں، ایک گھنٹہ لگا کر دوبارہ انسٹال کیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے