مستحسن فلاحی ادارے

پاکستان میں مختلف قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں یہ سمجھ لیجئے کہ ایک طرف باکردار اور بااخلاق تو دوسری جانب بدکردار اوربد اخلاق ہیں، ایک جانب نہایت مخیر تو دوسری جانب مالدار ہوتے ہوئے بھی بے ایمان، بدکردار، کنجوس۔ بین الاقوامی اداروں نے چند دن پیشتر چند اعداد و شمار شائع کئے تھے کہ حج کرنے والوں میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے مگر جھوٹ بولنے اور بے ایمانی کرنے والوں میں ہم 163ویں نمبر پر ہیں۔ مگر پھر بھی خدا کا کرم ہے کہ فلاحی کاموں کیلئے چندہ دینے والوں میں دنیا میں ہمارا پہلا نمبر ہے۔ اسی موضوع پر آج چند معروضات پیش خدمت ہیں۔

دیکھئے اگر پاکستان میں مخیر حضرات، تعلیم، میڈیکل، غربا کیلئے خدمتی ادارے قائم نہ کرتے اور جہاد کے جذبے سے ان کو نہ چلاتے تو یہ ملک سیاستدانوں اور حکمرانوں کے رحم و کرم پر رہ کر افریقہ کے کسی پسماندہ ملک کی فہرست میں شامل ہوجاتا۔ میں ذاتی طور پر لاتعداد مخیر حضرات اور فلاحی اداروں سے واقف ہوں جو لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کی خدمت کررہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس کام میں میمن برادری، آغا خان، بوہری، چنیوٹی، دلّی کے پنجابی سوداگران اور لاتعداد دوسرے ناموں سے سرگرم ادارے نہایت ہی قابل تحسین کام سر انجام دے رہے ہیں۔ بعض مخیر حضرات انفرادی طور پر بہت فراخدلی سے غربا کی مدد کررہے ہیں۔ ہمارے اپنے علاقے میں ایک میمن فیملی پچھلے کئی سال سے روز سینکڑوں خواتین کو خشک راشن مہیا کررہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ان کو جزائے خیر دے گا۔

کراچی، لاہور، ملتان، فیصل آباد، اسلام آباد اور دوسرے بہت سے شہروں میں لاتعداد فلاحی ادارے، اسپتال، دینی مدارس، بزرگوں، خواتین، یتیموں کیلئے مہمان خانے، دستر خوان غرض کروڑوں لوگ ان سے مُستفید ہو رہے ہیں۔ یکم دسمبر کو میں نے کنونشن سنٹر میں ایک نہایت روح پرور، خوشگوار تقریب میں شرکت کی۔ یہ بھی اعلیٰ فلاحی کام ہے۔ آپ کو اسکے بارے میں کچھ بتلاتا ہوں۔

اس فلاحی کام کا سہرا عزیز دوست بریگیڈیئر (ر) جاوید اختر ستّی کے سر ہے۔ فوج میں اعلیٰ خدمات ادا کرکے اور بریگیڈیئر کے عہدے سے ریٹائر ہو کر انہوں نے اور ان کے عزیز دوست و نیوی کے افسر عظیم نے اس فلاحی کام کا بیڑا اُٹھایا۔ آپ کا تعلق کہوٹہ تحصیل کے گائوں بے ہَند سے ہے اور میری دلچسپی اور محبت کی یہی وجہ ہے۔ یوں تو پورا پاکستان مجھ سے بے حد محبت کرتا ہے لیکن کہوٹہ کے لوگ میرے شیدائی ہیں وجہ یہ ہےکہ پاکستان نے کہوٹہ کو دنیا کے نقشے پر نہیں رکھا بلکہ کہوٹہ نے پاکستان کو دنیا کے نقشہ پر رکھا اور ہماری شناخت کا وسیلہ بنا۔ تقریباً تین سال پیشتر میں سالانہ فنکشن میں شرکت کیلئے بے ہَند (Behand) گیا۔

یہ کہوٹہ سے 30,25 کلو میٹر دور ہے، راستہ بہت تنگ اور نشیب و فراز سے پُر۔ خوبصورت علاقہ ہے لیکن کمر کے آپریشن کی وجہ سے میں کار میں، خاص طورپر ناہموار راستہ پر، لمبا سفر نہیں کرسکتا۔ سفر کچھ تکلیف دہ تھا مگر مناظر بے حد خوبصورت تھے۔ جب بے ہَند پہنچا تو دل باغ باغ ہوگیا کہ اسکول، ہوسٹل اور دوسری سہولتیں لاجواب، قابل تحسین تھیں۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ بریگیڈیئر جاوید نے اپنے گائوں میں ایک ایسا چراغ روشن کیا ہے جو تاقیامت علاقے کے بچوں کو تعلیمی سہولت پہنچاتا رہے گا اور ان کا نام روشن رہے گا۔

آپ کو علم ہے کہ تحصیل کہوٹہ نے افواج پاکستان کیلئے نہایت بہادر، محب وطن جوان پیدا کئے، جنرل ٹکا خان، جنرل احمد جمال، جنرل احمد کمال، بریگیڈیئر جاوید، بریگیڈیئر سعید بیگ جن میں سرفہرست ہیں۔ کہوٹہ کے لاتعداد لوگوں نے ایٹمی پروگرام کی تکمیل میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔بریگیڈیئر جاوید اور لیفٹیننٹ عظیم نے یہاں (بے ہَندمیں) ایک اسکول قائم کیا جس میں شہدا کے بچوں اور حاضر سروس افراد کے بچوں کیلئے اعلیٰ تعلیم کا بندوبست کیا۔ یہ نہایت قابل تحسین اقدام تھا۔میں نے خود بھی کہوٹہ کو گیس فراہم کرائی، وہاں ایک ٹیکنیکل کالج بنایا۔ ایک خستہ ڈگری کالج کو حکومت پنجاب سے لے کر ایک اعلیٰ کالج بنادیا جہاں پنڈی اور اسلام آباد کے طلبا داخلے کی کوشش کرتے ہیں، وہاں ایک کمپیوٹر ٹیکنالوجی کالج بنایا۔

پنڈی؍اسلام آباد سے کہوٹہ تک اعلیٰ سڑک بنوائی اور کہوٹہ کے تمام مناسب اور اچھے لوگوں کو پلانٹ میں ملازمت دی، گرلز کالج میں کام کرایا۔ ایک لائبریری بنوائی، عدالت اور وکیلوں کے چیمبر بنوائے۔ دیکھئے کہوٹہ سے ہی ہمارے نہایت قابل اور ہمیشہ چہرے پر مسکراہٹ لئے سابق چیف آف نیول اسٹاف عزیز مرزا کا تعلق ہے۔ میرے قابل احترام اور عزیز دوست ہیں۔ کنونشن سنٹر میں جو تقریب منعقد کی گئی تھی اس میں تقریباً چار ہزار بچے اور ان کے والدین تھے۔ جب میں داخل ہوا تو ان کی محبت و احترام قابل دید تھا۔ رواجِ تقریب (قومی ترانہ، تلاوت، نعت رسول مقبولؐ) کے بعد بریگیڈیئر جاوید نے اسکولوں کی کارکردگی پر تفصیلی روشنی ڈالی، یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ اس وقت تحصیل کہوٹہ میں 35 کیمپس کام کررہے ہیں اور ان میں تقریباً 11500 بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اللہ پاک بریگیڈیئر جاوید اور ان کے رفقائے کار کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین۔

(نوٹ) چند باتیں موجودہ حکومت کی کارکردگی کے بارے میں۔

سب سے پہلے تو عام تاثر یہ ہے کہ وزیر اعظم گھنٹوں باتوں میں ضائع کرتے ہیں اور ان باتوں میں مضحکہ خیز باتیں کرجاتے ہیں۔ شیخ سعدیؒ، مولانا رومیؒ، حضرت علیؓ اور دیگر دانشوروں نے کہا ہے کہ انھیں خاموش رہنے میں کبھی خفت نہیں اُٹھانا پڑی اگر کبھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تو منہ کھولنے پر۔ وزیر اعظم ہائوس سے بھینسوں کی فروخت، وزیر اعظم ہائوس کو تعلیمی ادارہ بنانا، گورنر ہائوس لاہور کی بائونڈری وال کی توڑ پھوڑ، شہروں میں تجاوزات کی توڑ پھوڑ(ہزاروں کا رزق بند کردینا بغیر کوئی دوسری سہولت دینے کے) اور سب سے قابل افسوس بیان کہ انہیں TV سے روپیہ کی قدر میں کمی کا علم ہوا۔

آپ کا وزیر خزانہ اور پرنسپل سیکریٹری کیا سورہے ہیں؟ ہر اخبار پر پہلی سُرخی اور آپ کو علم نہیں۔ آپ اس طرح تبدیلی لارہے اور نیا پاکستان بنا رہے ہیں؟ تمام صنعتکار، تاجر نالاں ہیں اورحکومت کی کارکردگی پر تنقید کررہے ہیں۔ پشاور کھنڈر بن چکا ہے۔ اس طرح نیا پاکستان نہیں، نئے کھنڈرات ہمیں ملیں گے۔ آپ کیوں پاکستان کو مغلوں کی طرح اپنی جائیداد اور ملکیت سمجھ کر تباہ کرنے پر تلے ہیں؟ مشرف، نواز شریف، شہباز شریف کے حالات سے عبرت و سبق حاصل کریں ورنہ آپ بھی کسی دن اسی طرح عدلیہ کے سامنے پیش ہورہے ہوں گے۔ سرکاری عمارتیں آپ کی ملکیت نہیں ہیں۔

خبر آئی ہےکہ امریکہ نے اس سال نہایت تباہ کن 6000بم افغانستان پر برسائے۔ افغان حکمرانوں کو شرم نہیں آتی کہ اپنے ملک کو خود کھنڈرات میں تبدیل کرارہےہیںصرف اپنی حکومت بچانے کی خاطر لوگوں کو مروا رہے ہیں۔ ویت نام میں یہ تدبیر فیل ہوئی اور افغانستان میں بھی فیل ہوگی!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے