بھارتی انتخابات

بھارت میں چند صوبائی اور وفاقی حلقوں میں مرحلہ وار انتخابات ہو رہے ہیں۔عام رائے یہی ہے کہ اس بار بوڑھی کانگرس پلٹ کر اپنا حساب چکانے والی ہے۔ بھارت میںپارلیمنٹ کے 2019ء کے مجوزہ انتخابات میں اب زیادہ وقت باقی نہیں رہا۔ سیاسی پارٹیوں نے اپنی بساط بچھانی شروع کر دی ہے۔ اتر پردیش ہمیشہ سے ایسی ریاست رہی ہے‘ جہاں سے دلی کا راستہ جاتا ہے اور تمام سیاسی پارٹیوں کی توجہ ہمیشہ اتر پردیش پر مرکوز رہی ہے۔ گزشتہ الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اترپردیش کی70 سیٹوں پر زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ میں اسے واضح اکثریت حاصل ہوئی اور مودی کی قیادت میں بی جے پی نے حکومت قائم کی‘ جس کا وقت مکمل ہونے کو ہے۔

بھارت میںعام انتخابات کا اعلان کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر سیاسی پارٹیوں نے الیکشن کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ بھارت کا صوبہ اترپردیش اس لحاظ سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ یہیں ایودھیا واقع ہے‘ جہاں بابری مسجد اوررام جنم بھومی کا ایشوہمیشہ الیکشن سے پہلے شہ سرخیوں میں آجاتا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہمیشہ انتخابات میں ایودھیا کو اپنے انتخابی منشور میں شامل کیا اور اس کا ایجنڈا رام مند رکی تعمیر رہا ہے۔

ماضی میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں مرکز میں حکومت قائم ہوئی تو بی جے پی نے ہمیشہ یہی کہا کہ ایودھیا میں مندر کی تعمیر کیلئے مکمل اکثریت حاصل ہونی چاہئے۔

2014ء کے الیکشن میں بی جے پی کو مکمل اکثریت حاصل ہو گئی اور مرکز میں حکومت بھی قائم کر لی تھی۔ اس کے بعد اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی تاریخ ساز فتح سے سادھو سنتوں کو نا صرف امید بندھی ‘بلکہ یقین ہو گیا تھا کہ مندر کی تعمیر اب دور نہیں‘ لیکن سیاست کا یہی اصول ہے کہ ہر وہ کام نہیں کیا جاتا‘ جسے کہا جاتا ہے اور بہت سارے وہ کام کئے جاتے ہیں‘ جن کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ مودی سرکار کو تقریباً ساڑھے چار برس کا عرصہ گزر گیا‘ لیکن ایودھیا مسئلے کے حل کے سلسلہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

شری روی شنکر کے ذریعے گفتگو کا دور شروع کرایا گیا‘ لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بابری مسجد۔رام جنم بھومی کے جو اصل فریق تھے‘ ان میں سے کسی نے شری روی شنکر کی باتوں پر کان نہیں دھرے اور وہ ایسے لوگوں سے گفتگو کرتے رہے‘ جن کا اس مسئلے سے تعلق نہیں تھا۔ پھراچانک وشوا ہندو پریشد اور کچھ سادھو سنتوں نے مندر تعمیر کی تحریک کو بڑھاوا دینے کے لئے مذہب کا سہارا لیا اور یہ کہا جانے لگا کہ مندر تعمیر کا فیصلہ کیا جا چکا ہے ‘جبکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔

بھارت میںسیاسی سرگرمیاں اب تیز ہو گئی ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ‘ اکھلیش یادو ‘ بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ‘ مایا وتی سے اتحاد کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ریاست کے ضمنی انتخابات میں سماج وادی پارٹی کی کامیابی سے ان دونوں پارٹیوں میں اتحاد کی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ دوسری جانب سابق ریاستی وزیر اورکنڈ(پرتاب گڑھ) کے آزاد ممبر اسمبلی رگھو راج پرتاب عرف راجا بھیا نے نئی پارٹی بنانے کا اعلان کر دیا ہے‘ جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیں گے‘ کیونکہ اکھلیش یادو سے ان کی کبھی نہیں بنی۔

کئی برس سے سماج وادی پارٹی کے قد آور لیڈر شیو پال سنگھ یادو اور ان کے بھتیجے اکھلیش یادو میں جس طرح کی سیاسی رسہ کشی چل رہی تھی‘ اس کا انجام پرگنی شیل سماج وادی پارٹی لوہیا کی تشکیل کی صورت میں سامنے آیا۔

شیو پال سنگھ یادو نے پارٹی کی تشکیل کے ساتھ ہی ریاست گیر پیمانے پر اپنی سرگرمیاںتیز کر دی ہیں اور سماج وادی پارٹی سے ناراض سابق ممبران اسمبلی و پارلیمنٹ اور ایس پی کے سابق سینئر لیڈروں کو اپنے ساتھ جوڑنے کی مہم شروع کی‘ جس میں انہیں کافی حد تک کامیابی بھی ملی ۔ شیو پال یادو کی طرح ہی بی جے پی کی معاون پارٹی ”اپنا دل‘‘ بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مصروف ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ وہ چند اضلاع سے نکل کر ریاست گیر پیمانے پر اپنی شناخت قائم کر لے۔اتر پردیش حکومت میں شامل وزیر اوم پرکاش راج‘ بھارتیہ سماج پارٹی کے قائد ہیں۔ وہ بھی اپنی پارٹی کے دائرے میں توسیع کے لئے کوشاں ہیں اور اس معاملے میں عجیب وغریب صورت حال یہ ہے کہ اوم پرکاش جس حکومت کے وزیر ہیں‘ وہ اسی کو مسلسل ہدف تنقید بناتے رہتے ہیں ‘لیکن یوگی حکومت ان کے تئیں نرم رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔

حکومت کے اس رویے کو بھی آئندہ پارلیمانی الیکشن سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے؛ اگر یوگی حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی کرتی ہے‘ تو آئندہ عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ اجیت سنگھ بھی اپنی پارٹی کو مضبوط کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں اور اکھلیش‘ مایا وتی اتحاد میں اجیت سنگھ کی پارٹی‘ راشٹریہ لوک دل‘ کے شامل ہونے کا بھی قوی امکان ہے‘ لیکن اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔یہ سوال توجہ طلب ہے اور ریاست کے عوام انتہائی خاموشی کے ساتھ ‘سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیوں اورمنظر نامے کو پرکھ رہے ہیں۔ کیا ہو گا؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا؟ مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت میں 2019ء کا پارلیمانی الیکشن سنسنی خیز ہو گا اور سیاسی پارٹیوں کے لئے سبق آموز بھی۔

حالیہ بھارتی انتخابات میں راہول گاندھی‘ ان کی ماتا سونیا گاندھی اور کانگرس کے دیرینہ لیڈر اور کارکن انتہائی سخت جدو جہد سے گزرتے ہوئے انتخابی میدان میں اترے۔ سونیا گاندھی نے انتخابی میدان میں اترنے سے گریز کیا اور نہ ہی انہوں نے دھواں دار تقریریں کیں ‘لیکن وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ کم و بیش تمام انتخابی سرگرمیوں میں رہیں۔

بیشتر جلسوں میں وہ سٹیج کے ایک طرف بیٹھ کر شریک ہوتی رہیں۔ بھارتی انتخابات کے بارے میں اب کم و بیش یہ بات طے شدہ ہے کہ ان کے نظام میں انتخابی عمل بڑی حد تک‘ بلکہ بہت بڑی حد تک صاف ستھرا ہوتا ہے۔ووٹرز پولنگ سٹیشن پر جا کر من مرضی کا ووٹ ڈالتے ہیں۔ ووٹر زیادہ تر پورا یقین رکھتے ہیں کہ ان کے ووٹوں میں کوئی دھاندلی نہیں کی جا سکتی۔نجانے ہم اس دور میں کب داخل ہوں گے؟ جب ہمارا ووٹر دھاندلی کے خوف سے نکلے گا؟شاید وہ وقت بہت دور ہے۔

بہر حال جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ رائے دہندگان اپنی مرضی اور پسند کے مطابق ووٹ ڈالتے ہیں ۔اوراب تو ووٹر یہاں تک اپنی رائے میں اتنا پختہ ہو گئے ہیں کہ کوئی اجنبی اگر ان سے پارٹی کی پسند اور نا پسند پر ان کی رائے پوچھے تو یہ سوال کرنے والے کوناخوشگوار نظروں سے دیکھتے ہیں۔ بھارت میں الیکشن جہاں بھی ہو اور جیسا بھی ہو‘ پولنگ سٹیشنوں پر آنے والے ووٹروں کو نہ تو دبائو میں لایا جا سکتا ہے اور نہ لالچ میں۔

انتخابات کے مقررہ دن بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ووٹوں کا باکس‘ کسی سرکاری یا غیر سرکاری شخص کو یہ ہمت نہیں پڑتی کہ پولنگ سٹیشن کے اندر جا کر ووٹروں کو کسی بھی قسم کے دبائو میں لا سکے۔ووٹوں کے باکس پولنگ بند ہوتے ہی الیکشن کمیشن کی تحویل میں آجاتے ہیں اور کسی امیدوار یا وووٹر کو یہ موقع نہیں دیا جاتا کہ کوئی سرکاری یا اجنبی آدمی کو پولنگ سٹیشن پر ووٹروں کو ترغیب دینا تو اور بات ہے‘ وہ کسی کے پاس جا کر خاموشی سے سرگوشی یا اشارہ نہیں کر سکتا ۔

کسی ووٹر کو بھی یہ شکایت نہیں ہوتی کہ اس کا ووٹ دھاندلی کی لپیٹ میں آگیا ہے ‘ جبکہ ہمارے انتخابی امیدوار ہر جتن کر کے ووٹرکو دبائو میں لا سکتے ہیں۔دوسری طرف بھارت میں ووٹر معمولی دھاندلی بھی برداشت نہیں کر سکتے۔پاک بھارت تعلقات اچھے نہیں رہتے ‘ورنہ بے شمار پاکستانیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھارتی انتخابات کا مشاہدہ از خود جا کے کر یں ۔پتا نہیں کیوں؟ پاکستان میں جب بھی پولنگ سٹیشنوں پر رائے دہندگان کو ووٹ ڈالنے کا موقع ملتا ہے‘ تو انہیں آنے والے پانچ برس سے خوف آتا ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے