پنکی اور میم صاحب، ایک سکے کے دو رخ؟

تقریبا ایک دہائی تک بند رہنے والی پاکستانی فلمی صنعت اب گزشتہ پانچ سالوں سے اپنے نئے تجرباتی دور سے گزر رہی ہے اور جہاں نئے اداکار، ہدایت کار اور مصنف اپنی قسمت آزمائی کے لیے آرہے ہیں وہیں اس نوزائیدہ انڈسٹری میں نئے نئے موضوعات او اصناف پر فلمیں بنانے کا رحجان بھی سامنے آرہا ہے۔

ایسی ہی ایک فلم اس ہفتے پیش ہونے والی ‘پنکی میم صاحب’ ہے جس کے نہ صرف پروڈیوسر ہدیات کار اور مصنف نئے ہیں بلکہ اس میں زیادہ تر اداکار بھی یا تو پہلی مرتبہ سکرین پر آئے ہیں یا پھر اداکاری کا بہت کم تجربہ رکھتے ہیں۔

دوبئی میں مقیم شازیہ خان کی پروڈکشن کمپنی ‘شاز میڈیا’ کی پیشکش پنکی میم صاحب کی مصنف اور ہدایت کار بھی شازیہ خان ہی ہیں جبکہ فلم کے دو مرکزی کردار پنکی اور میم صاحب بھی دو خواتین ہیں۔ فلم کی کہانی پنجاب کے ایک گاؤں کی ان پڑھ لڑکی پنکی (ہاجرہ یامین) اور دوبئی میں ایک پرتعیش زندگی گزارنے والی مہر(کرن ملک) کے گرد گھومتی ہے۔ پنکی مہر کے شہری اور مغربی طرز زندگی سے مرعوب ہوتے ہوئے اسے میم صاحب کے نام سے پکارتی ہے۔ مہر بھی پنکی کو ایک نئی دنیا سے معتارف کرواتی ہے اور تعلیم کے ساتھ اس کے حلیے اور چال ڈھال پر بھی توجہ دیتی ہے۔ ظاہری طور پر رشک بھری زندگی گزارنے والی مہر اپنی گھریلو اور پیشہ ورانہ زندگی میں مشکلات کا شکار ہے اور نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے نشے کی عادی ہوچکی ہے اور پنکی گوکہ ایک بہادر لڑکی ہے اور کافی حد تک دوبئی کے اعلیٰ طبقے کو سمجھ چکی ہے مگر ابھی بھی اس میں کہیں اعتماد کا فقدان ہے۔ ان دونوں خواتین کے یہ دونوں تضادات ہی ایک دوسرے کو قریب اور دور لے جاتے ہیں جس کے بعد وہ ایسے حالات سے دوچار ہوتی ہیں جہاں ان دونوں کو اپنی زندگیوں کا تجزیہ کرنے کا موقع ملتا ہے جو ان کو ایک مثبت سمت اور انکشاف زات کی طرف لے جاتا ہے۔

فلم میں ان دونوں خواتین کے علاوہ دو مردوں کا کردار بھی اہم ہے جن میں ایک مہر کا شوہر (عدنان جعفر) اور دوسرا اس کا ڈرائیور سنتوش (سنی ہندوجا) ہے جو پنکی کا اچھا دوست بھی بن جاتا ہے۔ ان دونوں مردوں کو بھی اپنے آپ کو پہچاننے موقع ان کی زندگی میں شامل ان خواتین کی بدولت ہی ملتا ہے۔

کہانی کی ایک اور اہم کردار پنکی کو دوبئی میں ملنے والی اس کے گاؤں کی ایک پرانی دوست کلثوم (ہاجرہ خان) ہے جو دبئی آکر اپنا اور خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے نائٹ کلب میں کام کرنے پر مجبور ہے۔ کلثوم پنکی کو دوبئی کی ایک نئی دنیا سے متعارف کرواتی ہے۔

پنکی میم صاحب گو کہ ایک سنجیدہ اور حقیقت پر مبنی خیال ہے لیکن فلم کی ہدایت کاری اور پروڈکشن کہانی کی جزباتیت یا رنگ کو موثر طور پر نہیں اٹھا سکی۔ اس بات کا اعتراف فلم کی پروڈیوسر شازیہ خان بھی کرچکی ہیں کہ پنکی میم صاحب ان پہلی فلم تھی اور ناتجربہ کاری کی بنا پر اس میں بہت سی خامیاں ضرور ہیں مگر یہ فلم محنت اور سچے جذبے کے ساتھ بنائی گئی ہے۔

جہاں تک فلم میں اداکاری کا تعلق ہے تمام اداکاروں نے اچھا کام کیا خاص طور پر ہاجرہ یامین جو تھیٹرمیں اداکاری کا تجربہ رکھتی ہیں فلم میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہردکھارہی ہیں اور جنہوں نے نہ صرف اسکرپٹ میں موجود اپنے کردار سے پوری طرح انصاف کیا ہے بلکہ اس سے کہیں آگے جاکر محنت کی ہے۔ ہاجرہ اداکاری میں اپنے تاثرات اور آواز کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے فلموں کے مشکل کرداوں کے لیے ایک بہترین دریافت ہیں۔ کرن ملک یقینا پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک خوصورت اضافہ ہیں اور انہوں نے بھی مہر کے کردار کو بہ خوبی ادا کیا بلکہ لگتا ہے کہ وہ اور مہر ایک ہی ہیں لیکن ان کی اداکاری کی صلاحیتوں کا صحیح اندازہ اس وقت ہوگا جب وہ مختلف نوعیت کے کرادارادا کنے کاموقع ملے گا۔ بہرحال ان کی پرکشش اور نمایاں شخصیت اسکرین پر چھائی رہی۔

عدنان جعفر نے ہمیشہ کی طرح ایک نپی تلی اداکاری کی البتہ سنتوش کے کردارمیں سنی ہندوجا نے یہ احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ کوئی اداکاری کررہے ہیں بلکہ وہ اپنے کردار میں اس طرح ڈھل گئے ہیں کہ لگتا ہے کہ بھارتی چینل پر کوئی رئیلیٹی شو دیکھ رہے۔ ہاجرہ خان ایک مختصر مگر اہم رول میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواگئیں اور اپنے کردار کو فلم بینوں کے زہنوں میں نقش کرگئیں۔

پنکی میم صاحب ایک ایسی فلم ہے جو کمزور ہدایت کاری کے باوطود اپنی جاندار کہانی اور پراثر اداکاری کہ وجہ سے ناقدین کی توجہ حصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ جہاں تک فلم کے بزنس کی بات ہے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے فلم بینوں میں ابھی تک آرٹ یا متوازی سینما کا رحجان پیدا نہیں ہوا ہے۔ دوسرے یہ کہ پروڈیوسر کےمطابق فلم شروع میں فیسٹول میں شرکت کے خیال سے بنائی گئی تھی لیکن بعد میں اسے سینما میں لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ممکن ہے آگے چل کر یہ ٹیم پہلے دن ہی سے سینما کے مطابق فلم کا اسکرپٹ اور پرڈکشن ڈیزاین بنائے تو اس سے بہتر چیز سامنے آسکے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے