کیا سرکاری خطبات جمعہ کا فیصلہ درست ہے؟

کیا یہ فیصلہ درست ہے کہ مساجد میں علماء اب اپنی مرضی سے خطبات جمعہ کے موضوع اور متن کا انتخاب کا انتخاب نہیں کر سکیں گے اور انہیں پابند کر دیا جائے گا کہ وہ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ خطبات جمعہ پڑھ کر سنائیں ؟ میرے نزدیک اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ یہ فیصلہ علم کی دنیا میں بھی نا معتبر ہے اور دلیل اور معقولیت کے میدان میں بھی اجنبی ۔ ایک بات اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ امور ریاست محض نیک نیتی سے نہیں چل سکتے۔ اس کے لیے حکمت ، بصیرت اور تدبر کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

معاشرہ کسی تابع مہمل کا نام نہیں ہوتا کہ حکم سنا دیا جائے اور پورا سماج اپنا رخ بدل لے ۔ سماج کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں ۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ پائیدار تبدیلی کا راستہ انقلاب نہیں بلکہ ارتقاء ہے۔ ریاست مدینہ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو وہاں بھی یہی بصیرت کارفرما نظر آئے گی ۔ وہاں راتوں رات تبدیلی نہیں آئی ، وہاں برسوں کی ریاضت کے بعد دھیرے دھیرے ارتقاء کا سفر طے ہوا ۔ حکومت فیصلہ سازی کے اس بنیادی پہلو کو نظر انداز کر رہی ہے اور اس کے فیصلہ ساز یہ چاہتے ہیں کہ رات وہ کچھ ایسے فیصلے کر کے سوئیں کہ صبح اٹھیں تو ملک میں انقلاب آ چکا ہو ۔ حکومت جب تک اپنے فلسفہ انقلاب کے عجلت کے گرداب سے نکل کر ارتقاء کی حکمت کی جانب نہیں لوٹتی ، مجھے ڈر ہے اس کا سفر دائرے کا سفر رہے گا۔

سماج کی نفسیات کو جانے بغیر جو قانون بنایا جاتا ہے وہ وزارت قانون میں پڑے کاغذات کے انبار میں اضافے کے سوا کسی خیر کا باعث نہیں بن سکتا ۔ ذرا غور فرمائیے کہ ایک اسلامی ریاست میں اہل مذہب اپنے حکمرانوں کے بارے میں عشروں سے ایک خاص نفسیاتی گرہ کا شکار ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے۔ اسلامی ریاست ہے ، آئین اسلامی ہے ، حکومت نے آئین کا حلف اٹھا رکھا ہے ، پھرکیا مضائقہ ہے کہ حکومت خطبات جمعہ خود لکھ کر دے ؟ حکمرانوں کے بارے میں مذہبی طبقے میں ایک بدگمانی رہی ہے ۔ یہ بد اعتمادی اور بد گمانی آج کی نہیں برسوں سے ہے۔ یہ بدگمانی اس وقت بڑھتی ہے جب وفاقی وزیر یہ کہتا ہے کہ ہم دین کو مولوی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے اس لیے آئندہ ہم قرآن کے چالیس کے چالیس پارے خود پڑھائیں گے۔

تب یہ سوال پیدا ہوتا ہے جنہیں قرآن کے پاروں کی تعداد کا ہی علم نہیں دین کے معاملات انہیں کیسے سونپ دیے جائیں. یہ بد گمانی اس وقت بھی بڑھتی ہے جب شراب پر پابندی کی قرارداد آتی ہے اور قومی اسمبلی میں اسے مسترد کر دیا جاتا ہے۔ جب تک یہ بد گمانی ختم نہیں ہوتی فاصلے برقرار رہیں گے ۔ عدم اعتماد کا یہ ماحول جب تک ختم نہیں ہو گا مسجد ، منبر اور مدرسہ میں حکومتی مداخلت کو شک کی نظر سے دیکھا جائے گا ۔ اہل مذہب کا اس حکومت کے بارے میں جو سیاسی بیانیہ ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ اس ماحول میں حکومت اس فیصلے کو نافذ کرنے پر اصرار کرتی ہے تو سماج میں ہیجان بڑھے گا ۔ تناؤ اور تصادم کی کیفیت پیدا ہو گی ۔ سماج کو اب تصادم اور ہیجان کی نہیں سکون اور ٹھہراؤ کی ضرورت ہے۔

دوسرا اہم نکتہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 19 ہے۔ اس آرٹیکل نے اظہار رائے کی آزادی کو بنیادی انسانی حقوق میں شامل کر رکھا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اس میں یہ بھی طے کر دیا گیا کہ حکومت اظہار رائے کی آزادی پر کون کون سی پابندیاں عائد کر سکتی ہے۔ چنانچہ اب یہ ایک طے شدہ معاملہ ہے کہ اظہار رائے کی آزادی پر صرف وہ پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں جو آئین کے آرٹیکل 19میں موجود ہیں ۔ بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ آرٹیکل 19 ایک اور شرط بھی عائد کرتا ہے کہ یہ پابندیاں reasonable یعنی معقول ہونی چاہیییں ۔

چنانچہ حکومت یہ تو کہہ سکتی ہے کہ مساجد میں فلاں فلاں موضوعات پر بات نہیں ہو گی ، مذہبی منافرت نہیں پھیلائی جائے گی، نفرت اور تشدد کو فروغ نہیں دیا جائے گا، وغیرہ وغیرہ ۔اور پھر جو اس کی خلاف ورزی کرے اسے بے شک سزا دی جائے لیکن وہ یہ حکم نہیں دے سکتی کہ اب علماء صرف وہ بات کریں گے جو حکومت انہیں لکھ کر دے گی ۔ ایک عالم دین خطبہ جمعہ میں کوئی ایسی بات کرنا چاہے تو ریاست کے کسی قانون سے متصادم نہ ہو تو اس کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ یہ بات اس کا آئینی حق ہے۔ جو قانون اس حق کو پامال کرے وہ آئین سے متصادم قانون ہو گا۔
\
تیسرا پہلو حکومت کی فکری صلاحیت سے متعلق ہے۔ کون ہے جو یہ خطبات جمعہ لکھ کر علماء کو دے گا ؟ جن علمائے کرام نے اپنی زندگیاں دین کی تعلیم کے حصول میں وقف کر دیں ان پر تو بات کرنے کی پابندی لگادی جائے تو پھر ہم یہ جاننے کا حق تو رکھتے ہیں کہ وہ رجل رشید کون ہے جس کی فکر کا اب مسجد و منبر سے ابلاغ ہو گا ؟ یہ پراجیکٹ کسی این جی او کو ملے گا یا مقامی بصیرت اس کے اسرار و رموز دیکھے گی؟

چوتھے سوال کا تعلق معاشرے کے فکری ارتقاء سے ہے۔ کیا فکر و شعور اور اظہار رائے پر پابندی عائد کر کے ایک صحت مند سماج تشکیل دیا جا سکتا ہے؟ جن معاشروں کی ہمارے ہاں مثال دی جاتی ہے کہ وہاں خطبات جمعہ حکومت لکھ کر دیتی ہے کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ وہاں کے معاشروں میں گھٹن ہے اور سماج کا فکری ارتقاء رک چکا ہے ۔ جدید دنیا کے فکری بیانیے میں یہ معاشرے کہیں کھڑے نظر نہیں آتے۔ خوفناک فکری زوال نے انہیں گرفت میں لے رکھا ہے۔ یہ معاشرے علم و فکر کی دنیا میں ایسا مقام نہیں رکھتے کہ ان کی تقلید کی جائے۔

پاکستانی معاشرے کا حسن اس کا تنوع ہے۔ یہاں کسی ایک مکتب فکر ، کسی ایک سوچ یا کسی ایک گروہ کی اجارہ داری نہیں ۔ اس معاشرے کی قوت اسی میں ہے کہ اس تنوع کا تحفظ کیا جائے اور فکر پر ناروا پابندیاں عائد نہ کی جائیں ۔ ایک ضابطہ اخلاق اور ایک قانون ضرور ہونا چاہیے لیکن اظہار رائے پر یوں مکمل پابندی سماج کی فکری بنیادی کھود ڈالے گی اوور معاشرہ ایک نئے تصادم اور تناؤ کا شکار ہو جائے گا ۔ قانون کا نفاذ بہت ضروری ہے۔ اہل مذہب میں سے کوئی اس قانون کو پامال کرتا ہے تو اس پر ضرور گرفت ہونی چاہیے لیکن جو علماء ریاست کے قانون کو پامال نہیں کر رہے ، جن کے خطبات فرقہ واریت ، مذہبی منافرت وغیرہ سے آلودہ نہیں ہیں ان کو اظہار رائے کی آزادی آئین پاکستان نے فراہم کر رکھی ہے۔ اس آزادی کو چھیننے کا حکومت کے پاس کوئی حق نہیں ۔ایک جمہوری ملک میں معاملہ آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے