گناہ ٹیکس

یہ تصور بھی اسپین کے شہر سیویا(Seville) نے دیا‘ رائل ٹوبیکو کے نام سے فیکٹری بنی اور فیکٹری نے 1758ء میں سگریٹ کی پروڈکشن شروع کر دی‘ مالکان نے سگریٹ بنانے کے لیے بارہ سو خواتین بھرتی کیں‘ خواتین ہاتھ سے سگریٹ بناتی تھیں‘ وہ کاغذ کا چھوٹا سا ٹکڑا لے کر اس پر تمباکو رکھتی تھیں اور دوسرے ہاتھ سے اسے رول کر کے سگریٹ بنا دیتی تھیں‘سگریٹ بنانے کا یہ طریقہ امریکا سے اسپین آیا تھا‘ امریکا میں سگار خواتین بناتی تھیں۔

نئی دنیا کا خیال تھا سگار کو اگر مرد کا ہاتھ لگ جائے تو یہ خراب ہو جاتا ہے لہٰذا سگار بنانا خالصتاً خواتین کا کام تھا‘ یہ تصور سگار سے سگریٹ میں آ گیا چنانچہ دنیا کی تمام ابتدائی سگریٹ فیکٹریوں میں سگریٹ بنانے کے لیے خواتین بھرتی کی جاتی تھیں۔

بھرتی کا یہ سسٹم بھی سیویا سے شروع ہوا‘ سگریٹ سازی کے اس عمل کے دوران تین بیماریاں سامنے آئیں‘ پہلی بیماری جلدی تھی‘ تمباکو رگڑنے سے خواتین کے ہاتھوں پر پھوڑے نکل آتے تھے‘ یہ پھوڑے آہستہ آہستہ بازو اور پھر جسم کے دوسرے حصوں تک پھیل جاتے تھے یوں وہ کام کے قابل نہیں رہتی تھیں‘ دوسرا ان کے جسم سے تمباکو کی بو آتی تھی جس سے ان کی گھریلو زندگی متاثر ہوجاتی تھی اور تیسرا سگریٹ فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین دمے اور ٹی بی کا شکار ہو جاتی تھیں۔

مالکان نے شروع میں ان ایشوز پر توجہ نہ دی لیکن جب زیادہ تر خواتین بیمار ہونے لگیںتو فیکٹری مالکان اور ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے افسراکٹھے بیٹھے اورحکومت نے سگریٹ پر تین ٹیکس لگا دیے‘ پہلا ٹیکس جلدی امراض سے متعلق تھا‘ حکومت سگریٹ کی ہر ڈبی پر تھوڑی سی رقم لیتی تھی اور یہ رقم جلدی امراض پر کام کرنے والے اداروں کو دے دی جاتی تھی ‘ وہ ادارے اس رقم سے سگریٹ فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کے لیے کریمیں اور پاؤڈر ایجاد کرتے تھے۔

دوسرا ٹیکس سگریٹ فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کی بہبود کے لیے تھا‘ حکومت اس فنڈ سے سگریٹ ساز خواتین اور ان کے بچوں کی پرورش کا بندوبست کرتی تھی اور تیسرے ٹیکس سے دمے اور ٹی بی کا علاج ہوتا تھا‘ حکومت نے سیویا میں سینی ٹوریم بنائے اور یہ اس فنڈ سے دمے اور ٹی بی کی شکار خواتین کا علاج کرنے لگی‘ یہ تینوں ٹیکس شروع میں مالکان پر لگائے گئے لیکن پھر یہ سگریٹ نوشوں پر شفٹ کر دیے گئے۔

سگریٹ کی انڈسٹری اٹھارہویں صدی میں سیویا (اسپین) سے نکل کر پورے یورپ میں پھیل گئی‘ یہ وہاں سے یورپی کالونیوں میں آئی اور پھر وہاں سے پوری دنیا میں پہنچ گئی یہاں تک کہ بیسیویں صدی میں دنیا کا کوئی ملک اور کوئی ایسا خطہ نہ بچا جہاں سگریٹ ‘ سگریٹ نوش‘ سگریٹ کی فیکٹریاں اور سگریٹ کا کاروبار نہ ہو‘ ہندوستان میں انگریز سگریٹ لے کر آیا‘1910ء میں امپیریل ٹوبیکو کمپنی بنی اور اس نے 1913ء میں کلکتہمیں پہلی سگریٹ فیکٹری لگائی‘ یہ فیکٹری فوج کو سگریٹ فراہم کرتی تھی‘ فوج میں شامل ہر جوان کو راشن میں سگریٹ دیا جاتا تھا۔

سرکاری افسروں کو بھی فری سگریٹ دیے جاتے تھے‘ سگریٹ کی سرکاری کھپت میں اضافہ ہوا تو حکومت نے یہ علت عوام کے لیے بھی کھول دی‘ عوام کو سگریٹ مہنگا دیا جاتا تھا‘ منافع کا ایک حصہ مالکان کی جیب میں چلا جاتا تھا اور دوسرا حصہ حکومت سے ہوتا ہوا فیکٹریوں میں واپس آجاتا تھا اور اس سے فوج اور بیورو کریسی کے لیے مفت سگریٹ بنائے جاتے تھے‘ یہ سگریٹ محاذ پر لڑنے والے جوانوں کا واحد نفسیاتی سہارا ہوتے تھے‘ فوجی ان کے بغیر لڑ نہیں سکتے تھے۔دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے روز مرہ کی زیادہ تر اشیاء پر ٹیکس لگنا شروع ہوگئے ‘ سگریٹ کی صنعت ٹیکس کا سب سے بڑا سورس بن گئی‘ حکومتیں اس انڈسٹری سے اربوں روپے سالانہ ٹیکس وصول کرتی تھیں۔

یہ اس ٹیکس پر خوش تھیں لیکن پھر آہستہ آہستہ سگریٹ نوشی کے نقصانات سامنے آنے لگے‘ یورپ میں لاکھوں لوگ ٹی بی‘ کینسر‘ دمہ‘ اعصابی کمزوری‘ ڈپریشن اور نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہوگئے‘ سگریٹ کی وجہ سے دل کے امراض میں بھی اضافہ ہو گیا چنانچہ ایک ایسا وقت آ گیا جب حکومتوں کو پتہ چلا ہم سگریٹ کی صنعت سے جتنا ٹیکس وصول کر رہے ہیں ہم اس سے دگنا اور تین گنا رقم امراض قلب اور کینسر پر خرچ کر دیتے ہیں‘ یہ بھی پتہ چلا سگریٹ کی وجہ سے معذور بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہو رہا ہے‘ یہ بھی معلوم ہوا تمباکو سے سگریٹ نوش اتنے متاثر نہیں ہوتے جتنے ان کے اردگرد موجود نان اسموکر ہوتے ہیں اور یہ بھی پتہ چلا سگریٹ نوشوں کی عادت بد کے اثرات تیسری نسل تک جاتے ہیں۔

یہ تمام اعدادوشمار اور انکشافات ہولناک تھے چنانچہ پوری دنیا میں تمباکو‘سگریٹ اور اسموکنگ کے خلاف مہم شروع ہو گئی‘ یورپ کے تمام ملکوں نے سگریٹ پر ہیوی ٹیکس اور ڈیوٹیز لگا دیں‘ سگریٹ نوشی کو کنٹرول کرنے کے لیے قوانین بھی بن گئے‘ شروع میں دفتروں اور عوامی جگہوں پر سگریٹ نوشی پر پابندی لگا ئی گئی اور پھر ہوٹلوں‘ ریستورانوں‘ گلیوں‘ کافی شاپس‘ بسوں‘ ٹرینوں اور ہوائی جہازوں میں پابندی لگائی گئی اور اب تقریباً تمام عمارتوں کے اندر سگریٹ نوشی منع ہے‘ دنیا کے اسی فیصد ملکوں میں بچوں کو سگریٹ فروخت نہیں کیے جاتے‘ پوری دنیا میں سگریٹ کی ڈبی پر کینسر کی وارننگ بھی لازم قرار پا چکی ہے‘ دنیا کے مختلف ملکوں میں وارننگ کا سائز بڑھتے بڑھتے 80 فیصد ہو چکا ہے۔

آپ کو ڈبی کے 80 فیصد حصے پر کینسر کے کسی مریض کی خوفناک تصویر دکھائی دیتی ہے تاہم پاکستان میں یہ وارننگ ابھی تک 50فیصد ہے‘ حکومت کو اسے بھی بڑا کرنا چاہیے‘ تمام سینما گھروں میں فلم سے قبل سگریٹ نوشی کے خلاف اعلان بھی دکھایا جاتا ہے اور پوری دنیا میں سگریٹ کے اشتہارات پر بھی پابندی ہے‘ یہ تمام انتظامات اپنی جگہ لیکن سگریٹ نوشی اور اس کے اثرات کنٹرول نہیں ہو رہے‘ ہمارے ملک میں لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ سگریٹ کے ہاتھوں تباہ ہو رہے ہیں‘ خاندان کے خاندان اجڑ گئے‘ آپ کسی اسپتال میں چلے جائیں‘ آپ کو وہاں ہر دوسرا شخص سگریٹ کا شکار ملے گا‘ ترقی یافتہ دنیا اس مسئلے کے تدارک کے لیے دھڑا دھڑ قوانین بنا رہی ہے‘ ہمارے ملک میں 20سگریٹ کی جو ڈبی 160 روپے میں ملتی ہے وہ آسٹریلیا میں 20 ڈالر‘ نیوزی لینڈ میں18ڈالر‘ آئر لینڈمیں 13ڈالر اوربرطانیہ میں12 ڈالر میں بکتی ہے‘ یہ رقم پاکستانی روپوں میں بالترتیب 2780روپے‘2502روپے‘ 1807روپے اور1668روپے بنتے ہیں گویاآسٹریلیا میں سگریٹ ہمارے مقابلے میں16گنا‘ نیوزی لینڈ میں15گنا‘آئر لینڈ میں10 گنااور برطانیہ میں9 گنا مہنگا ہے۔

ترقی یافتہ قومیں سگریٹ سے حاصل ہونے والی یہ اضافی آمدنی محکمہ صحت کو بھجوا دیتی ہیں اور محکمہ صحت یہ رقم سگریٹ نوشی کے اثرات پر تحقیق ‘ سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں اور کینسر کے مریضوں کے علاج پر خرچ کرتا ہے یوں سگریٹ نوشوں کی رقم سے تمباکو کے برے اثرات کے شکار لوگوں کا علاج کیا جاتا ہے‘ قاتل کی بندوق اور قاتل کی گولی سے قاتل کو قتل کی سزا دی جاتی ہے‘ ذمے داروں پر ذمے داری کا بوجھ ڈالا جاتا ہے۔یہ ایک بہت اچھا تصور ہے‘ سگریٹ کی صنعت اور سگریٹ نوش اگر دوسروں کی جان اور صحت کے ساتھ کھیل رہے ہیں تو پھر انھیں اس ظلم کا تاوان بھی ادا کرنا چاہیے‘ان لوگوں کو عام لوگوں کی بیماری کا بوجھ بھی اٹھانا چاہیے۔

حکومت پاکستان بھی اب یورپین پیٹرن پر ’’گناہ ٹیکس‘‘ کے نام سے ایک نیا ٹیکس متعارف کرا رہی ہے‘ حکومت سگریٹ کی ہر ڈبی پر دس روپے اور مشروبات کی ہر بوتل پر ایک روپیہ ٹیکس وصول کر یگی اور یہ رقم بعد ازاں ہیلتھ انشورنس اسکیم اورمہلک بیماریوں کے خاتمے پر خرچ کی جائے گی‘ یہ حکومت کا پہلا ایسا اینی شیٹو ہے میں جس کی کھل کر حمایت کروں گا‘ سگریٹ نوشی کی وجہ سے محکمہ صحت اور اسپتال دونوں دباؤ میں ہیں‘ تمباکو نوش جہاں خود بیمار ہوتے ہیں یہ وہاں پورے معاشرے کو بھی بیمار کر رہے ہیں‘ ہم سگریٹ نہ پینے والے لوگ ان سگریٹ نوشوں اور ان کی پھیلائی بیماریوں کا بوجھ اٹھارہے ہیں‘ یہ بوجھ بھی ان لوگوں کو اٹھانا چاہیے چنانچہ حکومت کو چاہیے یہ دس کے بجائے تیس بلکہ پچاس روپے گناہ ٹیکس لگائے اور یہ رقم سیدھی امراض قلب‘ ٹی بی اور کینسر کے اسپتالوں کو دے دی جائے‘ مشروبات بھی معدے‘ قلب اور دماغ کے امراض پیدا کر رہے ہیں‘ مشروبات ساز کمپنیاں ہر سال لاکھوں لوگوں کو بیمار کر کے اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے حوالے کر دیتی ہیں۔

حکومت کو مشروبات سے لطف لینے اور مشروبات بنانے والی کمپنیوں دونوں سے اس گناہ کا تاوان وصول کرنا چاہیے‘ پٹرول بیچنے والی کمپنیاں بھی ماحول کو آلودہ کر رہی ہیں‘ ہماری ہوا میں اب آکسیجن کم اور دھاتیں اور کینسر پیدا کرنے والے مادے زیادہ ہیں‘ حکومت پٹرول پر بھی ماحولیات ٹیکس لگائے اور یہ ٹیکس روزانہ کی بنیاد پر وصول کر کے ماحولیات کی وزارت کو منتقل کیا جائے اور آپ اسی طرح بناسپتی گھی اور کوکنگ آئل بنانے والی کمپنیوں پر بھی ’’ہیلتھ اویئرنیس ٹیکس‘‘ لگائیں اور یہ ٹیکس بھی محکمہ صحت کو روزانہ کی بنیاد پر منتقل کر دیا جائے اور ساتھ ہی ان اداروں کو سال کا روڈ میپ بھی دے دیا جائے اور ان سے ہر ماہ پوچھا جائے آپ نے پچھلے تیس دنوں میںکیا کیا؟ ان محکموں کے جن لوگوں کی کارکردگی ٹھیک نہ ہو‘ ان لوگوں کو نکما ڈکلیئر کر کے وزارت خزانہ میں اسد عمر کے حوالے کر دیا جائے اور یہ انھیں اپنے پرسنل اسٹاف میں شامل کر لیں۔

یہ گناہ ٹیکس ملک میں واقعی تبدیلی لے آئے گا چنانچہ میں گناہ ٹیکس پر حکومت کو خراج تحسین بھی پیش کرتا ہوں‘ حمایت کا اعلان بھی کرتا ہوں اور ان سے گناہ ٹیکس کے جلد سے جلد نفاذ کی درخواست بھی کرتا ہوں‘ میری حکومت سے اپیل ہے آپ یہ اعلان بھی کر دیں ہم فلاں سال تک پاکستان کو سگریٹ نوشی سے پاک کر دیں گے‘ہم اگر یہ کر گئے‘ہم نے اگر پاکستان کو دنیا کا پہلا اسموکنگ فری ملک بنا دیا تو یہ واقعی کمال ہو گا‘ ہم دنیا کو حیران کر دیں گے‘ میرا خیال ہے عمران خان کم از کم یہ کام ضرور کر سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے