اشرافیہ اور ماجھے ساجھے!

ہم لوگ بہت مہذب ہو گئے ہیں۔ چائے پیتے ہوئے ہلکی سی آواز بھی نہیں پیدا ہونے دیتے خواہ لب ہی کیوں نہ جل جائیں۔ کسی اعلیٰ درجے کے ریستوران میں بیٹھے ہوئے کچھ اس طرح سرگوشیوں میں گفتگو کرتے ہیں جیسے سازش کر رہے ہوں۔ بات بات پہ ایکسکیوزمی کہتے ہیں۔ کھانے کے بعد ایک ہاتھ سے منہ ڈھانپ کر دوسرے ہاتھ سے خلال کرتے ہیں کہ کہیں نامناسب طریقے پر دانتوں کی نمائش نہ ہو جائے۔ کسی محفل میں کوئی اچھا سا لطیفہ سن کر ہنسنے کی نوبت آ جائے تو گیئر بدل بدل کر ہنستے ہیں کہ کہیں بھرپور قہقہہ ہمارے مہذب ہونے کا بھرم نہ کھول دے۔

تصویروں کی نمائش میں جانا پڑتا ہے اور سمجھ میں نہ آنے والی آڑی ترچھی لکیروں کی داد بھی دینا پڑتی ہے۔ مشاعروں کی سرپرستی کرتے ہیں اور کسی شعر پر لوگوں کو داد دیتے دیکھ کر اگلی صفوں میں بیٹھی ’’اشرافیہ‘‘ سر کی ہلکی سی جنبش سے ’’ایگزیکٹلی‘‘ کے الفاظ بھی ادا کرتی ہے۔ عوام الناس میں سے کسی کی شادی بیاہ میں شرکت کرنا پڑ ہی جائے تو بھوکے گھر سے نکلتے ہیں اور بھوکے ہی گھر واپس آ جاتے ہیں۔ عوام الناس کو اپنا دیدار کرا دینا ہی بڑی بات ہے۔

یہ اور اس نوع کے دیگر بہت سے امور ہیں جہاں ہم ایسے ’’کلچرڈ‘‘ لوگوں کو ایسا رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے جس سے کسی کو ہم پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ ہم لوگ ’’جینٹری‘‘ میں شامل ہیں اور اس میں شامل رہنا چاہتے ہیں۔

اس کے برعکس عوام الناس ہیں جنہیں تہذیب چھو کر بھی نہیں گئی۔ یہ لوگ کھانے کے بعد بھرپور طریقے سے ڈکار مارتے ہیں اور مزید ستم یہ کہ ایسے مواقع پر پوری ڈھٹائی سے ’’الحمد للہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ بابو ہوٹل میں جا کر بیٹھتے ہیں جہاں بھرپور والیم پر ریکارڈنگ چل رہی ہوتی ہے اور اس سے زیادہ بلند آواز میں یہ لوگ باتیں کرتے اور قہقہے لگاتے ہیں۔ مشاعرے میں جاتے ہیں کھل کر داد دیتے ہیں اور ہوٹ کرتے ہیں، بھوک لگی ہو تو سڑک کنارے کھڑے ہو کر نان چھولے کھاتے ہیں اور پھر کُرتے سے منہ پونچھتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔

رونے کو جی چاہتا ہے تو پھوٹ پھوٹ کر رو بھی لیتے ہیں۔ اور زندگی میں ہنسنے کا موقع پیدا نہ بھی ہو تو پیدا کر لیتے ہیں۔ آج کل کے عوامی سینمائوں کی پوزیشن اور ٹکٹ ریٹ کا مجھے علم نہیں مگر ایک وقت تھا کہ بارہ آنے کی ٹکٹ لینے کے لئے قمیص اور بنیان اتار کر ایک دوسرے کے کندھوں پر سے گزرتے ہوئے کھڑکی تک پہنچ جاتے اور پھر ساری فلم کے دوران موقع بہ موقع اپنے جذبات کے اظہار کے لئے کھل کر بڑھکیں بھی لگا دیتے تھے۔

اول الذکر طبقہ یعنی جینٹری مال مست اور دوسرا طبقہ یعنی یہ عوام حال مست ہیں۔ اس طبقے کے بعض لوگ جینٹری میں شمولیت کے لئے ہاتھ پائوں مارتے ہی رہتے ہیں ان میں سے کچھ لوگ تو خود کو نئی صورتحال میں ایڈجسٹ کر لیتے ہیں جبکہ بعض اس میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ ایک فلم شو کے دوران ایک عوام بوسکی کی قمیص اور شلوار پہن کر نیچے بارہ آنے میں بیٹھنے کے بجائے اوپر جینٹری کے ساتھ بیٹھ گیا۔ یہاں لوگ دم سادھے فلم دیکھ رہے تھے جبکہ نچلے حصے میں اس کے بھائی بند مختلف مواقع پر اپنے جذبات کا اظہار بآواز بلند کرتے۔ مثلاً اگر وہ ولن کو کسی پر ظلم و ستم کرتے دیکھتے تو گالیاں دے دے کر ان کا گلا بیٹھ جاتا، کسی اچھے ڈائیلاگ پر وہ تالیاں بجا بجا کر داد دیتے اور کمزور مکالموں پر وہ ہوٹنگ شروع کر دیتے۔

بوسکی کی قمیص اور شلوار والا شخص بے چینی سے اپنی سیٹ پر کروٹیں لے رہا تھا پھر اچانک اس نے اپنے دائیں جانب بیٹھے ہوئے خاموش اور مہذب تماشائی کو بازو سے ہلایا اور کہا ’’جناب اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک بڑھک لگا لوں؟‘‘ اس نے برا سا منہ بنایا اور کہا ’’اگر تم باز نہیں رہ سکتے تو مجھ سے پوچھنے کا کیا فائدہ ہے لگائو بڑھک۔‘‘ پھر اس بوسکی کی قمیص والے نے اپنے بائیں جانب والے کلچرڈ شخص سے اجازت طلب کی اور پہلے جیسا روکھا پھیکا این او سی ملنے پر وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے منہ کے گرد دونوں ہاتھ رکھے اور چیخ کر کہا ’’اوئے شیدے دب کے بڑھکاں لا میں جینٹری وچ پھس گیا آں‘‘ (اوئے شیدے خوب بڑھکیں لگائو میں تو جینٹری میں پھنس گیا ہوں)۔

جینٹری جو کہ مضحکہ خیز منظرنامے پر اپنے قہقہوں کا گلا دبا دیتی ہے، جو کسی درد انگیز سین پر اپنے آنسو آنکھوں کی دہلیز سے باہر نہیں آنے دیتی، جینٹری جو پوری خاموشی سے فلم دیکھتی ہے۔ جینٹری اور ماجھوں ساجھوں میں فرق ہوتا ہے۔

پس نوشت:بیرونِ ملک مقیم (کینیڈا) اشفاق حسین ہمارے صف ِ اوّل کے شاعروں اور نثر نگاروں میں سے ہیں۔ انہیں پوری اردو دنیا میں نہ صرف جانا جاتا ہے بلکہ بہت احترام کی نظروں سے بھی دیکھا جاتا ہے۔ ان کے شعری مجموعے ’’ایک ہتھیلی پر گلاب‘‘ میں سے ایک نظم ملاحظہ فرمائیں۔ کاش یہ نظم میں نے لکھی ہوتی۔

آخر ایسا کیوں ہوتا ہے

جب میں کچھ چہروں سے

اور کچھ آوازوں سے

رشتہ توڑنا چاہتا ہوں

تو یہ چہرے مجھے مسلسل گھور رہے ہوتے ہیں

مجھے مجبور کر رہے ہوتے ہیں

کہ میں اپنے فیصلے واپس لے لوں

میں ان کی مخالف سمت میں

تیز تیز قدم بڑھانے لگتا ہوں

وہ بھی میرے ساتھ

الٹے قدموں

مجھ سے دو قدم آگے چلنے لگتے ہیں

یا شاید دو قدم پیچھے

میں جن آوازوں سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہوں

اور اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیتا ہوں

وہی آوازیں

میرے دماغ کی شریانوں میں

سائونڈ پروف اسٹوڈیو بنا لیتی ہیں

کوئی دوسرا اُن آوازوں کو سن نہیں سکتا

ان آوازوں کا شور

میرے کان کے پردوں کو زخمی کئے دے رہا ہے

ان آوازوں اور ان چہروں سے

ایک عجیب سا رشتہ ہے میرا

جو روز میرے اندر مرتا اور جیتا ہے

آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے