واشنگٹن سے سوال پوچھنے کو مچلتا دل

بات تو یہ چل رہی تھی کہ امریکی انتظامیہ کو بالآخر احساس ہوگیا ہے کہ ٹرمپ کے بدکلام ٹویٹس کے ذریعے پاکستان کو دیوار سے نہیں لگایا جا سکتا۔ ایک برس تک برسر عام تڑیاں لگانے کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے چند ہفتے قبل وزیراعظم عمران خان کو خاموشی سے ایک خط لکھ دیا۔ اس خط کا متن ابھی تک منظرِ عام پر نہیں آیا ہے مگر شنید ہے کہ اس کے ذریعے اعتراف ہوا کہ افغانستان میں امریکی مشکلات کے ازالہ کے لئے پاکستان کی مدد درکار ہے۔ شاید اس کی توقع باندھ کر ہی ٹرمپ کا افغانستان کے لئے لگایا خصوصی مشیر زلمے خلیل زاد پاکستان آیا۔ یہاں اس نے تین روز گزارے۔اعلیٰ حکام سے طویل ملاقاتیں کیں۔

ان ملاقاتوں کی تفصیل بھی میسر نہیں۔ تاہم کچھ مثبت پیش قدمی کے نتیجہ ہی میں وہ یہاں سے افغانستان، وہاں سے ازبکستان اور بعد ازاں ماسکو سے ہوتا ہوا قطر اور یو اے ای پہنچے گا۔ سنا یہ بھی جا رہا ہے کہ زلمے خلیل زاد کی پاکستان اور دیگر ممالک میں ہوئی ملاقاتوں کے نتیجہ میں طالبان اور امریکہ کے درمیان افغانستان میں امن کے قیام کو یقینی بنانے کے لئے آئندہ اپریل تک کوئی معاہدہ ہوجائے گا۔ افغان حکومت اس معاہدے کی روشنی میں اس مہینے میں ہونے والے صدارتی انتخابات کو مؤخر کردے گی۔ اس کے بعد شاید کسی ’’قومی یا نگران‘‘ حکومت کااعلان ہو۔ یہ حکومت قائم ہوگئی تو ’’لویہ جرگہ‘‘ ہوگا۔ اس جرگے میں طالبان افغانستان کے آئین میں تبدیل کی راہ بنائیں گے۔

یہ سب عمل خیر و عافیت سے مکمل ہوگیا تو طالبان افغانستان کے سیاسی عمل میں پرامن انداز میں حصہ لینا شروع ہوجائیں گے۔ جس اُمید بھرے عمل کی بات ہورہی ہے اس میں ٹھوس پیش رفت پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں واشنگٹن اور اسلام آباد لہذا ٹرمپ کے پہلے دوسالوں میں شدت سے بڑھتی ہوئی باہمی مخاصمت کو بھول کر ایک دوسرے کے ساتھ باوقار انداز میں تعاون پر مجبور ہوں گے۔ پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں بہتری کی اُمید دلاتے اس موسم میں لیکن منگل کے روز امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کو دنیا کے ان ممالک کی فہرست میں ڈالنے کا اعلان کردیا جہاں بقول اس کے شہریوں کو مذہبی آزادیاں میسر نہیں۔پاکستان کے سیاسی اور صحافتی حلقوں نے پاکستان کو اس فہرست میں ڈالنے پر بامقصد بحث کا آغاز نہیں کیا۔

ہماری وزارت خارجہ سے ایک روایتی بیان جاری ہوا۔ چند وزراء نے بیانات دئیے۔ اپوزیشن اس ضمن میں خاموش رہی میں ذاتی طورپر امریکہ سے نیک چال چلن کا سرٹیفکیٹ لینے کا خواہش مند نہیں۔ ٹرمپ کے امریکہ کی جانب سے دوسرے ملکوں میں ’’مذہبی آزادی‘‘ اور رواداری کی بات بلکہ مضحکہ خیز دکھائی دیتی ہے۔ انسانی حقوق کے بارے میں جو ’’فکر‘‘ ان دنوں واشنگٹن میں موجود ہے اس کی حیثیت مجھے ایک سعودی صحافی جمال خشوگی کے استنبول میں ہوئے قتل کے بعد اچھی طرح سمجھ آچکی ہے۔ پاکستان کی ریاست مگر امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے ایک منفی فہرست میں ڈالنے والا معاملہ نظرانداز نہیں کر سکتی۔ پاکستان کے امیج کو زک پہنچانے کے علاوہ اس فہرست میں موجودگی ہماری معاشی مشکلات میں اضافہ بھی کرسکتی ہے۔امریکہ اور یورپی ممالک اس کی بنیاد پر چند پابندیاں عائد کرسکتے ہیں۔

بدھ کے دن اگرچہ وضاحت آگئی ہے کہ پاکستان کو مذہبی آزادیوں کے حوالے سے منفی فہرست میں ڈالنے کے باوجود اس کے خلاف اس کی بنیاد پر معاشی پابندیوں کا راستہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔ایک عام پاکستانی کی حیثیت میں بہت عاجزی سے میں یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوں کہ ہمارے معاشرے میں مذہبی رواداری قابل ستائش نہیں۔ اس کے باوجود ٹھوس حقیقت یہ بھی ہے کہ حال ہی میں پاکستان کی اعلی ترین عدالت نے کئی برسوں سے قید ہوئی ایک اقلیتی خاتون کو توہین مذہب کا مرتکب قرار نہیں دیا۔سپریم کورٹ کی جانب سے آئے اس فیصلے کے خلاف مذہبی انتہا پسندوں کے ایک گروہ نے پورے ملک میں فساد برپا کرنے کی کوشش کی۔

ریاست پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدے داروں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دئیے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے وقتی جان خلاصی کے لئے فساد کی آگ بھڑکانے والوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ چند دن گزرنے کے بعد البتہ بہت مہارت اورمستعدی سے اشتعال پھیلانے والوں کو گرفتار کرلیا۔ اب ان کے خلاف سنگین الزامات کے تحت مقدمات چلانے کا وعدہ کیا جارہا ہے۔حال ہی میں رونما ہوئے ان واقعات کے تناظر میں پاکستان کو امریکہ کی جانب سے ’’مذہبی رواداری‘‘ کی بنیاد پر منفی فہرست میں ڈالنا زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ہمیں دیوار سے لگانا ہے۔ٹرمپ کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو بھیجے خط اور اس کے بعد زلمے خلیل زاد کی کاوشوں کی بدولت ابھرتے امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے منگل کے روز ہوا اعلان مزید حیران کن تھا۔منگل کے روز ہوا یہ اعلان واضح طورپر یہ بھی دکھارہا ہے کہ دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے امریکہ کے فیصلہ سازوں میں یکسوئی موجود نہیں۔

ٹرمپ کا وائٹ ہائوس پل میں تولہ پل میں ماشہ والے رویے کے ساتھ پاکستان سے بالآخر تعاون کا طلب گار ہوتا ہے تو اسکے جرنیل رعونت سے یہ بیان دیتے ہیں کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلافی الوقت ممکن نہیں۔ ایسا ہوا تو امریکہ میں ایک اور نائن الیون ہوجائے گا۔طالبان کا بنیادی مطالبہ ہی افغانستان سے امریکی افواج کا ا نخلاء ہے۔

اس ضمن میں کسی ٹائم ٹیبل کے اعلان کے بغیر وہ صلح کے لئے مذاکرات پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ ان کی آمادگی کے بغیر پاکستان افغانستان کے حوالے سے وہ کردار ادا نہیں کرسکتا جس کی توقع باندھی جارہی ہے۔جرنیلوں کے بیانات کے باعث پھیلے کنفیوژن کے بعد امریکی وزارتِ خارجہ بھی حرکت میں آگئی اور پاکستان کو منفی فہرست پر ڈال دیا جاتا ہے۔لاہور کی گلیوں میں کسی معاملے کی پیچیدگی پر اُکتاکر لوگ حیرانی سے پوچھا کرتے تھے کہ ’’کدی ماں نوں ماسی کہیّے‘‘۔میرا ان دنوں واشنگٹن پر نگاہ ڈالتے ہوئے یہ ہی سوال پوچھنے کو دل مچل جاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے