عالمی منڈی میں تیل کے بدلتے تیور

رواں ماہ تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم ”آرگنائزیشن آف دی پٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز‘‘ کا اجلاس ویانا میں منعقد ہوا‘جس میں سعودی عرب سمیت دیگر تیل پیدا کرنے والے ممالک نے شرکت کی۔اجلاس کا مرکزی ایجنڈاتیل کی قیمتوں کے تعین سمیت ان کو برقرار رکھنا تھا۔اس غیرمعمولی اجلاس کی اصل وجہ سعودی عرب پربڑھتا ہوا امریکی دبائو سمجھا جا رہا ہے‘ جو قتل ہونے والے سعودی صحافی جمال خشوگی اوریمن جنگ کے حوالے سے بڑھا۔دونوں ممالک کے درمیان یہ تنائواس وقت پروان چڑھا جب امریکی میڈیا نے سعودی عرب کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔

سعودیہ اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے تاکہ امریکہ پر انحصار کو کم سے کم کیا جا سکے۔ سعودی عرب فی الوقت تیل کی سب سے زیادہ پیداوار والا واحد ملک ہے۔اس کے اقدامات کا اثر نہ صرف امریکہ اور روس بلکہ عالمی سطح پر تیل کی مارکیٹ پربھی پڑتا ہے۔ ریاض اور واشنگٹن کے درمیان تنائو بھی کئی بار دیکھا گیا ۔ایسا صرف سعودیہ کی سیاسی و خارجہ پالیسی کی وجہ سے محسوس کیا گیا خصوصاً سعودیہ جب اپنی خارجہ پالیسی کے تحت روس کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھائے یا ان میں نرمی دکھائے ‘یہ پہلی بار نہیں بلکہ عالمی جنگ دوم سے ہوتا آرہا ہے۔

امریکہ کی ایران پر تجارتی پابندیوں کی وجہ سے بھی تیل کی قیمتوں پر کافی اثرات پڑے۔ سعودی عرب اور دیگر تیل کی پیداوار والے ممالک نے امریکہ پر کئی مرتبہ دبا ئو ڈالا کہ وہ ایران پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے‘ تیل کی قیمتوں پر بات کرے کیونکہ سستے ایرانی تیل کا اثر عالمی سطح پر ان تمام ملکوں پر پڑتا ہے جیسا کہ گزشتہ ماہ کے آخرمیں دیکھنے کو ملا۔عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں 30فیصد تک کمی دیکھی گئی ۔سستا ایرانی تیل ‘سمگل ہو کر سپلائی کیا جاتا ہے‘دنیا میں ڈرائیور حضرات کے لیے تو فائدہ مند ثابت ہوتا ہے مگر سعودیہ ،عراق اور روس کے لیے اتنا نقصان دہ ہے کیونکہ ان ممالک کی معیشت کا تعلق تیل کی برآمدات سے منسلک ہے ۔گزشتہ کئی مہینوں سے تیل کی کمی ان ممالک کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے ۔

OPEC کے اجلاس سے قبل امریکی صدر کی جانب سے ایک پیغام بھی سامنے آیا‘ جس میں انہوں نے کہا ”میں امید کرتا ہوں OPECتنظیم تیل کی فراہمی کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ دنیا تیل کی قیمتوں کو بڑھتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتی ‘ ‘ ۔ امریکی صدر کے اس پیغام کو سعودی عرب کے لیے دھمکی کے طور پر بھی دیکھا جا رہا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ درپردہ مطالبہ کر رہا ہے کہ سعودیہ تیل کی قیمتوں کو مزید نہ بڑھائے۔اس کے ساتھ ساتھ امریکی صدر اور کابینہ کے کچھ ممبران کی جانب سے صحافی خشوگی کے قتل باعث سعودی حکومت پر دبائو بھی بڑھایا جا رہا ہے۔کانگرس کئی بار اس حوالے سے مزاحمت بھی کرچکی ہے۔امریکی سینیٹرزکے ایک گروپ نے شہزادے محمد بن سلمان کے خلاف امریکی سینیٹ میں مذمتی قرار داد بھی جمع کرائی تھی ‘ جس کے بعد یمن جنگ کے حوالے سے بھی امریکی پارلیمنٹ میں کئی مرتبہ بازگشت سنائی دی ۔

سعودی عرب کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے کہ تمام دبائو کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تیل کی قیمتوں کو برقرار رکھے اور اپنی معیشت کے استحکام کے لیے خاطر خواہ اقدامات کرے مگر تیل کی قیمتوں پر کئے گئے اقدامات امریکی صدرکی ناراضی کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔دیکھنا ہوگاتنظیم کے اجلاس کے بعد ‘اپنے کیے گئے فیصلوں پرتمام ممالک کس قدر عملدرآمد کروانے میں کامیاب ہو پاتے ہیں؟زمینی حقائق کے مطابق دنیا کے تمام پٹرول پمپس 1.2ملین بیر ل یومیہ تیل استعمال کرتے ہیں۔اجلاس میں عالمی سطح پر کوئی بڑا فیصلہ تو نہ ہوسکا مگر سعودی عرب کی یہی کوشش رہی کہ تیل کی قیمتوں کو مزید کمی سے بچایا اور برقرار رکھا جا سکے۔

مسلسل گرتی ابھرتی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے جامع پالیسی مرتب کی جائے۔ اسی تنظیم کے پلیٹ فارم پر 2016ء میں روس اور سعودیہ کے درمیان معاہدہ بھی ہو چکا ہے جو رواں ماہ کے آخر میں اختتام پذیر ہو جائے گا‘ لیکن سعودی عرب یہی چاہتا ہے کہ روس کے ساتھ تعلقات میں مزید بہتری لا تے ہوئے‘ اس تنظیم کے قوانین کے تحت نئے معاہدے عمل میں لائے۔ یہ روس کے لیے بھی یقینا نادر موقع ہے جس سے وہ عالمی مارکیٹ میں نئے مقام کے ساتھ سامنے آئے گا اور تیل کی قیمتوں میں دوسرے ممالک کی نسبت رعایت بھی حاصل کر سکے گا۔

سعودی اور روسی میڈیا میں ایک تصویر کو جواز بناتے ہوئے بہت سی خبریں بھی گردش میں رہیں جس میں ولی عہد محمد بن سلمان اور روسی صدر‘ پوٹن کو مصافحہ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔تجزیہ کاروں نے امریکہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کو اپنے اور سعودی تعلقات میں مزید کشیدگی لانے کے بجائے سدھارنے پر زور دینا چاہیے کیونکہ امریکہ تیل درآمد کرنے والا بڑا ملک ہے۔سعودیہ اور روس کے مابین ان تعلقات کو مبصرین اور میڈیا میں کافی اہمیت دی جارہی ہے اور یہ معاملہ امریکی اخبارات کی شہ سرخیوں میں بھی رہا۔ کہیں ان اقدامات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا؟ کہیں تنقید کے نشتر برسائے گئے؟ مگر سب نے اس بات سے اتفاق کیا کہ یہ عمل خطے کی سیاست اور معیشت دونوں پر گہرے اثرات چھوڑ سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے