ایسا دیس ہے میرا……

حکمران طبقے کا زہنی دیوالیہ ختم ہوتا نظر نہیں آرہا،1948ء کے بعد پاکستان کے عوام 1965ء میں جنگ کی تباہ کاریوں سے دوچارہوئے،1971ء کی جنگ لڑی،1999ء کی جنگ لڑی اور پھر اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی خفیہ جنگ لڑتے رہے اور امن کی طرف پیش رفت کے امکانات مخدوش دکھائی دئیے،مگراب کچھ سالوں سے امن کی جانب پیش قدمی جاری ہے ،حکمرانوں کے ارتجالی تبصروں اور وعدوں پر کوئی رائے زنی نہیں کروں گا،پاکستان کے حالات میں آئینی یا بے آئینی ،قانون یا لا قانونیت اور انصاف یا بے انصافی کے درمیان جو فرق ہے مجھے آج تک اس کی سمجھ نہیں آئی،

جو لوگ آئین توڑتے ہیں وہی آئین کی پاسداری کا درس بھی دیتے ہیں اور جو لوگ آئین کی پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں اسے گھر کی لونڈی سمجھ کروہی پیروں تلے روندتے ہیں،یہی حکمران لوگ حسب ضرورت اس کھیل تماشے میں اپنے اپنے مفادات کیمطابق نقاط پیدا کرکے اس کھیل میں شریک ہر کردار کواپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں،انہی اختیارکردہ دلائل کو آئینی تقاضوں کا نام دیتے ہیں،عوام بے بس تماشائی کی حیثیت سے یہ سب دیکھتے ہوئے ان کا کچھ نہیں بگاڑسکتی،یہی کھلاڑی تھوڑی بہت تو تکرار کے بعد جب ذاتی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے کیے گئے فیصلوں پر یوٹرن لے لیتے ہیں پھروہی چیزآئینی اور قومی مفاد میں بھی ہو جاتی ہے جو کچھ عرصہ قبل عوام کے سامنے غیرآئینی اور بری تھی۔

قانون اورلاقانونیت کی صورتحال بھی اس سے مشابہت رکھتی ہے،جس کے پاس کچھ کرنے کی صلاحیت ہو وہ کرگزرتا ہے اور اس پر غالب آنے کی صلاحیتوں سے محروم لوگ اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔طاقتور کا کوئی اقدام قانون کے مطابق ہو یا اس کے خلاف ،عملی طور پر وہی قانون ہوتا ہے۔نہ جانے کتنے بے گناہ اس وقت جیلوں میں نہ کردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں،نہ جانے کتنے امراء ا اس وقت کتنے غربا ء کا لہوشراب طہور سمجھ کر پئے ہوئے ہونگے،نہ جانے کتنی بیوائیں جو قانونی طور پر زمینوں کی مالکن ہیں مگر غیر مالکان ان کی جائیدادوں پرغاصبانہ قبضہ جمائے بیٹھے ہیں،نہ جانے کتنے مزدور ہوں گے جن کو وقت کے فرعونوں نے سود در سود جیسے فعل میں جکڑ کر زرخریدغلام بنا رکھا ہوگا۔

ملک کا قانون لاعلم ہوکر خواب خرگوش میں سویا نظر آتا ہے،اس کی آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب کسی سرمایہ دار کے ساتھ انہونی وقوع پذیرہو،کسی غریب کے لیے ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
گزشتہ کئی سالوں سے نئے سیاسی نظام اور تبدیلی کے دعوے بڑھا چڑھا کر کیے جارہے تھے،ان میں سرفہرست کرپشن کا علاج تھا،میں اس وقت بھی گویاشیفتگی میں تھاکیونکہ دنیا کا آج تک کوئی معاشرہ کرپشن سے پوری طرح پاک نہ ہوسکاہے،یہ کارنامہ ہمارے کھلاڑی حکمران کیسے سرانجام دیں گے،کھلاڑی وزیراعظم اس وقت ٹیکس وصولی کی بات اور طور طریقے سمجھاتے رہے جب ان کی اپنی بہن ٹیکس کے پیسے بچاکر دبئی میں کاروبار میں مشغول تھی ،

یہ دنیا کا اصول بھی رہاہے وہ ہمیشہ دوسروں کے احتساب کی بات کرتی ہے اپنے گریبان میں کوئی نہیں جھانکتا،ماضی حال دیکھ لیں ہمیں شاید ہی کوئی ایسا سیاست دان ملے جسے کرپشن کے نام پر رسو انہ کیا گیا ہومگر وہ آج بھی حکم الہی بن کر ہم پر حکمرانی کرتا ملے گا،زیادہ دور نہ جائیں موجودہ حکومت میں سوائے چند نئے آنے والے بچوں کے کوئی سینئر سیاست دان ڈھونڈکے دکھائیں جو کرپشن جیسے الزام سے نہایا ہوا نہ ہو،لفظ الزام اس لیے استعمال کیا کیونکہ ملزم سے مجرم صرف غریب ہی بن پاتا ہے ،باقی لوگ قانون کو جالا سمجھ کر پھاڑ کے نکل جاتے ہیں ،یہ دنیا اسی طرح چلتی آئی ہے اور چلتی رہے گی،شیطان اور انسان دونوں ہی قیامت کے دن ختم ہونگے،جب تک قیامت نہیں آتی انسانی معاشروں میں ان دونوں کی کارفرمائیاں رنگ لاتی رہیں گی۔

ہماری سیاست میں فلاحی منجن بہت بڑا ہتھیار ہے ،صرف وہی سیاست دان ہی پاکستان میں کامیاب رہاجو اس منجن کو احسن طریقے سے بیچ پایا ہو،قیام پاکستان کے بعد ہمیشہ ہر سیاست دان اور سیاسی ومذہبی پارٹی کے جانشینوں نے غریب کی بات کرکے انہی کے کندھوں پر چڑھ کر ان کا حق کھایا ہے۔کسی نے اختیارات کی نچلی سطح تک خالصتا منتقلی عمل میں نہیں لائی،ہاں کسی نے ایسا کیا بھی تو ان اختیارات پر اسی پارٹی کا مقامی وارث مکمل دور اقتدار میں اس طرح براجمان رہاجیسے مرغی 21دنوں کے لیے انڈوں پر بیٹھتی ہے،اس نے بھی صرف مفادات کی جنگ کو مقدم رکھا، صرف صاحب ثروت لوگوں نے فاعدہ اٹھایاکیونکہ غریب کے پاس سرکاری روزگار حاصل کرنے کے لیے اس تک رسائی نہ تھی یا پھر جیب میں روپے نہ تھے،کچھ غریبوں کی تو مقامی سیاستدان کو ووٹ نہ دینے کی پاداش میں عمرہی کورٹ کچہری کے چکر لگاتے گزری،ہمارے سیاست دان دوسروں کے روزگار کی بات کرتے ہیں اور بالآخر اپنے روزگار کے وسائل پیدا کرلیتے ہیں۔

ہمارا معاشرہ وہ میخانہ ہے جس میں جام اسی کا ہے جو ہاتھ بڑھا کر اسے اٹھا لے تکلف،جھجھک اور تہذیبی تقاضوں کا احترام کرنے والے پیاسے رہ جاتے ہیں ،یہی وجہ ہے ایک طرف بدمستیوں کی انتہا ہے تو دوسری طرف پیاس کے ماروں کی بیچارگی۔نظام عدل ہو یا صحافتی آزادی،مضبوط وفاق ہویا مفلسی کے خاتمے کے دعوے،اقلیتوں کے حقوق کا آئینی تحفظ ہویا دیار غیرمیں بسنے والے غریب پاکستانیوں کے تحفظ کا عمل،صنفی مساوات کا درس ہو یا معاشرتی ترقی کے دعوے،سماجی خدمات میں انقلاب کا عمل ہو یاپاکستان کی قومی سلامتی کا تحفظ جیسے کھوکھلے نعرے الیکشن سے پہلے سننے کو ملتے رہے اور ہر بیچارہ غریب پاکستانی ان خوابوں کو آنکھوں میں سجائے ان نام نہاد سیاسی رہنماوں کو کامیاب کراتے رہے ہیں،زمینی حقائق پر بات کریں تو موجودہ حکومت کے نعرے بھی کوئی نئے نہ تھے یہ بھی ماضی سے مماثلت رکھتے ہیں ،

کسی نے روٹی ،کپڑا، مکان کا نعرہ متعارف کروایا تو کسی نے عدل ،قانون کی پاسداری اور روزگار کے بلندوبانگ دعوے کیے تھے ،بس اس بار انہی نعروں کویکجا کرکے تبدیلی کا نام دیا گیا اور پڑھے لکھے طبقے کی برین واشنگ کرکے پرانے خواب نئی شکل میں دکھائے گئے ،قومی تاریخ کی طویل سیاسی افراتفریح ،تبدیلی کے جھگڑوں اور بڑے رہنماوں کی ہنگامی اور غیر متوقع رخصتیوں کے موج در موج بہاؤ میں نیا چہرہ سیاسی افق پرنئے انداز میں رونما ہوا،اس نئے چہرے کے پیچھے بے شمار چہرے دھند،کہراور تاریکیوں کے پیچھے اوجھل ہورہے ہیں اور ان پر لامتناہی دبیز سیاہی کا لیپ اس قدر ملا جا رہا ہے کہ دور دور تک ان کا سیاسی کیرئیردکھائی نہیں دے رہا،بے فکر رہیں یہ صرف پانچ سالوں کے لیے ہی ہے یا جب تک مقتدر قوتوں کا ساتھ ہے،یہ چہرہ یونہی جگمگاتا رہے گا باقیوں کی روشنی ماند پڑتی جائے گی اور یہی اصول بھی رہاہے،غریب بے چارہ ماضی کی طرح بے روزگاری ،مہنگائی،کرپشن ،لاقانونیت،بھوک وافلاس کے دلدل میں پھنسا ہی رہے گا،

حکمران پانچ سال پورے کر کے چلے جائیں گے پھر پرانی پارٹی نیا نعرہ،نیا منجن لیکر میدان میں اترے گی اور پھر میرے دیس کی بھولی بھالی عوام اپنے لیا دوبارہ گڑھا کھودے گی،خیر میں مایوس بھی نہیں کیونکہ میرا دین مجھے اس سے روکتا بھی ہے،ماضی میں قوموں کی مثالیں میرے سامنے بھی ہیں،روسی ،چینی،جاپانی اور امریکی اوپر سے اتری ہوئی قوم نہیں ہے ان کا حال بھی ہم سا ہی تھا مگر وقت کیساتھ ساتھ بہتر منصوبوں ،اعتدال پسندی،مستقل مزاجی اور مسلسل ان تھک محنت سے کامیاب معاشرہ بنا پائے ہیں،دنیا میں اپنا وزن بھی رکھتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں بڑھتا ہوا شعور،تعلیم،نوجوانوں کی سیاست میں آمد،گہرے سمندرمیں غریب کی کشتی کو سہارا دینے او ر احساس رکھنے والے نوجوانوں کے ساتھ نئے خواب بن رہا ہوں ،پرامید ہوں میرا مالک ہر چیز پر قادر ہے انشاء اللہ وہ میرے خواب میری آنکھ بند ہونے سے پہلے شرمندہ تعبیر ہوتے ہوئے دکھلائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے