بچے نالائق ہی اچھے

سوریندرا کمار ویاس میری ’’وش لسٹ‘‘ میں شامل ہے‘ میں چاہتا ہوں میں زندگی میں کبھی نہ کبھی بھوپال جائوں‘ اس شخص سے ملوں‘ اس کے ساتھ تصویر بنوائوں اور یہ تصویر پاکستان کے ان تمام والدین کو بھجوا دوں جو اپنے بچوں کو ہمیشہ اسکول‘ کالج اور یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن پر دیکھنا چاہتے ہیں اور پھر ان سے عرض کروں‘ دنیا میں سوریندرا کمار ویاس جیسے لوگ بھی موجود ہیں‘ بچوں کی ناکامی پر خوش اور مطمئن والدین۔

میں سوریندرا کمار ویاس سے کیوں ملنا چاہتا ہوں‘ آپ کو یہ جاننے کے لیے میری ’’وش لسٹ‘‘ میں شامل اس حیران کن کردار کا کارنامہ ملاحظہ کرنا پڑے گا‘ سوریندرا کمار ویاس بھوپال شہر کی وارڈ شیوا جی میں رہتے ہیں‘ یہ ٹھیکیدار ہیں‘ ان کا بیٹا آشوویاس پڑھائی میں اچھا نہیں تھا‘ یہ کوشش کرتا تھا لیکن یہ زیادہ نمبر حاصل نہیں کر پاتا تھا‘ آشوویاس کا مئی 2018 میں میٹرک کا نتیجہ نکلا اور یہ بورڈ کے امتحان میں بری طرح فیل ہو گیا‘ یہ اداس شکل بنا کر گھر آیا تو یہ حیران رہ گیا۔

آشوویاس کے والد سوریندرا کمار ویاس نے بیٹے کی ناکامی کی خوشی میں گھر میں جشن کا اہتمام کر رکھا تھا‘ جشن میں خاندان کے لوگ بھی مدعو تھے‘ دوست احباب بھی‘ کاروباری رفیق بھی اور محلے کے لوگ بھی‘ سوریندرا کمار نے کھانوں کا بندوبست بھی کر رکھا تھا‘ آتش بازی کا بھی اور موسیقی کا بھی‘ آشو ویاس جوں ہی گھر میں داخل ہوا‘ لوگوں نے بھرپور تالیوں سے اس کا استقبال کیا‘ اس کے گلے میں ہار ڈالے اور اس کے ساتھ ناچنا شروع کر دیا‘ وہ لوگ جوں جوں ناچتے جاتے تھے چھت پر آتش بازی ہوتی جاتی تھی۔

آشوویاس اس سلوک پر حیران ہو رہا تھا‘ اس کا خیال تھا یہ لوگ کسی غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں‘ یہ لوگ سمجھ رہے ہیں میں نے امتحان میں پوزیشن لے لی ہے‘ وہ والد کو بار بار روک کر بتانے کی کوشش کرتا رہا لیکن والد اسے ساتھ لے کر ناچتا رہا یہاں تک کہ وہ دونوں ناچتے ناچتے تھک گئے‘ سوریندرا کمار نے تھکنے کے بعد اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑا‘ ڈی جے کے پاس آیا‘ مائیک اٹھایا اور لوگوں سے مخاطب ہو کر بولا’’ آشو ویاس میرا بیٹا ہے‘ یہ پاس ہو یا فیل ہو یہ میرا بیٹا رہے گا۔

مجھے آج دن کے وقت پتہ چلا یہ میٹرک کے امتحان میں فیل ہو گیا ہے‘ کیا فرق پڑتا ہے‘ یہ آج فیل ہوا ہے‘ یہ کل کو پاس ہو جائے گا اور یہ اگر کل بھی پاس نہ ہوا تو بھی کیا فرق پڑتا ہے‘ یہ پھر بھی میرا بیٹا رہے گا‘ زندگی اور کامیابی صرف میٹرک کے امتحان تک محدود نہیں‘ یہ بہت لمبی‘یہ بہت وسیع ہے‘ اس میں بے شمار امتحان آئیں گے اور ضروری نہیں میرا بیٹا ان امتحانوں میں بھی فیل ہو جائے گا‘ میں نے آج کی یہ پارٹی مستقبل کے ان امتحانوں کے لیے رکھی ہے جن میں میرا بیٹا شریک بھی ہو گا اور کامیاب بھی‘ میں اپنے بیٹے کو بتانا چاہتا ہوں۔

تم اس معمولی ناکامی پر اداس یا مایوس نہ ہو‘ میں تمہارے ساتھ ہوں‘ میں اس قسم کا والد نہیں ہوں جو بچوں کی ناکامی پر اداس ہو جاتا ہے اور بچے ڈپریشن کی وجہ سے خودکشی کر لیتے ہیں‘ میں ایسے بچوں کو نہیں ‘میں ایسے والدین کو ناکام سمجھتا ہوں‘ یہ کیسے لوگ ہیں جو ایک آدھ امتحان کو زندگی سمجھ کر اولاد جیسی نعمت سے محروم ہو جاتے ہیں‘ میں اپنے بیٹے کی ناکامی پر بھی خوش ہوں لہٰذا میں بیٹے کی اس ناکامی پر آپ سب کو مٹھائی اور کھانا کھلانا چاہتا ہوں‘‘ وہ اس کے بعد بیٹے کی طرف مڑا‘ فضا میں ہاتھ لہرایا اور کہا’’ آئی ایم پرائوڈ آف یو مائی سن‘ تم جیتو یا ہارو‘ مجھے تم سے پیار ہے‘‘ بیٹا آگے بڑھا‘ باپ کے سینے سے لگا اور آنسو پونچھ کر بولا ’’ابا مجھے آپ پر فخر ہے۔

آپ دنیا کے سب سے اچھے والد ہیں‘ میں نے کوشش کی لیکن میں اس کے باوجود فیل ہو گیا‘ میں مزید کوشش کروں گا‘ میں اگلی ٹرائی میں ضرور کامیاب ہوں گا اور میں اگر اس میں بھی ناکام رہا تو میں زندگی کے اصل امتحانوں میں کامیاب ہو کر آپ کا سر فخر سے بلند کروں گا‘ میں ثابت کروں گا میں ایک شاندار والد کا شاندار بیٹا ہوں‘‘ باپ بیٹے کا یہ پیار دیکھ کر محفل میں موجود ہر شخص کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ آگے بڑھ بڑھ کر باپ اوربیٹے سے گلے ملنے لگے‘ یہ بھوپال بلکہ ہندوستان کی تاریخ کا اس نوعیت کا پہلا جشن تھا اور میں ناکامی کے اس جشن پرسوریندرا کمار ویاس کو مبارک باد دینے بھوپال جانا چاہتا ہوں‘ میں اس عظیم باپ کے گلے لگ کر اسے وش کرنا چاہتا ہوں۔

ہم برصغیر کے والدین نمبروں کی ایک جعلی اور مصنوعی جنت میں رہ رہے ہیں‘ ہم نے اپنے بچوں کو نمبروں کی ایک ایسی ریٹ ریس (چوہوں کی دوڑ) پر لگا دیا ہے جس میں یہ بیچارے روز جیتے اور روز مرتے ہیں‘ یہ جس کے لیے اپنی جان ہلکان کر دیتے ہیں اور یہ جسکی وجہ سے بچپن ہی میں ڈپریشن‘ ٹینشن‘ اینگزائٹی اور حسد جیسی ہولناک بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں‘ آپ ہر امتحان کے نتائج کے بعد اخبارات میں جوان بچوں کی خودکشیوں کی خبریں پڑھتے ہوں گے‘ سوریندرا کمار ویاس کے اپنے صوبے مدھیہ پردیش میں ہرسال سیکڑوں بچے امتحان میں کم نمبرآنے پر خودکشی کر لیتے ہیں‘ پورے بھارت میں یہ تعداد ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے۔

پاکستان میں بھی یہ وبا اب شہروں سے دیہات اور دیہات سے دور دراز کے علاقوں تک پہنچ رہی ہے‘ 2018 میں چترال جیسے پرامن علاقے میں ایک درجن جوان بچوں نے کم نمبر آنے پر خودکشی کر لی‘ دو جوان بچیاں دریا میں کود گئیں ‘ ایک خوبصورت جوان بچے نے خود کو گولی مار لی جب کہ باقی بچوں نے چوہے مار گولیاں کھالیں اور زہر پی کر مرگئے‘ میں اس خوفناک ٹرینڈ میں والدین‘ اساتذہ اور طالب علم تینوں کو ذمے دار سمجھتا ہوں۔

ہم سب نے مل کر اپنے تعلیمی نظام کو پراڈکٹو کے بجائے چیٹنگ بنا دیا ہے‘ ہم اپنے بچوں کو ٹرینڈ کرتے ہیں تم رٹا لگائو‘ استاد کی منت کرو یا پھر نقل کرو لیکن تمہارے نمبر اچھے آنے چاہئیں چنانچہ ہمارے بچے نمبروں کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں‘ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ہمارے بچے قدرتی کے بجائے مصنوعی ماحول میں گرو کرتے ہیں‘ یہ نمبروں اور فگرز کو زندگی سمجھ لیتے ہیں اوریوں یہ سفرحیات میں کلرک بن کر رہ جاتے ہیں‘ میں نے کسی جگہ پڑھا تھا‘ زندگی میں جو لوگ فیل نہیں ہوتے وہ پوری زندگی کامیابی کے مزے کو انجوائے نہیں کرتے اور یہ بات غلط نہیں۔

آپ نے اگر زندگی میں اندھیرا نہیں دیکھا تو آپ کو پوری زندگی روشنی کی قدر نہیں ہو گی‘ آپ نے اگر زندگی میں غربت نہیں دیکھی تو آپ پوری زندگی امارت کا سکھ محسوس نہیں کر سکتے اور آپ اگر زندگی میں بدصورت اور کمزور نہیں رہے تو آپ طاقت اور خوبصورتی کے ذائقے سے کبھی متعارف نہیں ہو سکتے اور ہم والدین‘ اساتذہ اور رشتے دار اپنی بے وقوفی کی وجہ سے اپنے بچوں سے یہ سارے ذائقے‘ یہ ساری خوشیاں چھین لیتے ہیں‘ ہم انھیں خود کشی پر مجبور کر دیتے ہیں یا پھر انھیں ایسی زندہ لاشیں بنا دیتے ہیں جن کی جیبوں میں فگرز اور نمبروں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

ہم والدین ایک اور مغالطے کا شکار بھی ہیں‘ ہم اچھے نمبروں کو کامیابی کی ضمانت بھی سمجھ لیتے ہیں اور سعادت مندی بھی جب کہ حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے‘آپ نے خود زندگی میں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کو امتحان میں ٹاپ کرتے اور زندگی میں ناکام ہوتے دیکھا ہوگا‘ آپ نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو اسکولوں اور کالجوں سے فیل ہونے کے بعد زندگی میں کامیاب ہوتے بھی دیکھا ہوگا۔

یہ عالمی ریسرچ ہے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ نمبر حاصل کرنے والے صرف ایک فیصد لوگ زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں جب کہ تعلیم میں کم تر کامیابی کے حامل زیادہ تر بچے عملی زندگی میں کامیاب ہو جاتے ہیںچنانچہ امتحانات میں زیادہ نمبر حاصل کرنا ہرگزہرگز کامیابی کی گارنٹی نہیں‘ آپ کے بچے اچھے نمبروں کے ساتھ بھی ناکام ہو سکتے ہیں اور فیل ہو کر بھی زندگی میں بہت ترقی کر سکتے ہیں‘ میں نے اسی طرح زندگی میں بے شمار نالائق بچوں کو اپنے والدین کی بے تحاشہ خدمت کرتے دیکھا اور کامیاب بچوں کو اپنے والدین کو بیماری کے عالم میں اکیلا چھوڑ کر کامیابی کے پیچھے بھاگتے بھی دیکھا۔

میں کراچی میں ایک صاحب کے گھر گیا‘ اس کا بیٹا عاشق کی طرح ان کی خدمت کر رہا تھا‘ میں نے بیٹے کی تعریف کی تو وہ صاحب ہنس پڑے‘ میں نے وجہ پوچھی تو انھوں نے جواب دیا‘ میرے پانچ بیٹے ہیں‘ چار لائق ہیں اور یہ ایک نالائق‘ آج سارے لائق ملک سے باہر بیٹھے ہیں جب کہ یہ نالائق دن رات میری خدمت کرتا ہے‘ میں اسے دیکھتا ہوں اور دل ہی دل میں کہتا ہوں ’’بچے نالائق ہی اچھے‘‘۔

ہم والدین کو اپنا زاویہ نظر تبدیل کرنا ہوگا‘ ہمیں سوریندرا کمار ویاس کی طرح اپنے بچوں کو ناکامیوں کے ساتھ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا موقع دینا ہوگا‘ عین ممکن ہے اسکول میں ناکام رہنے والا بچہ زندگی میں تمام کامیاب بچوں سے آگے نکل جائے اور ہمارا کوئی ایک نالائق بچہ ہماری خدمت میں تمام لائق بچوں کو پیچھے چھوڑ جائے‘ وہ ہمارا فخر بن جائے‘ہم والدین اپنے بچوں سے صرف دو توقعات رکھتے ہیں‘ یہ اپنی جوانی میں ہم سے زیادہ ترقی کریں اور یہ ہمارے بڑھاپے میں ہمارا خیال رکھیں اور یہ میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے اسکولوں اور کالجوں میں زیادہ نمبر حاصل کرنے والے اکثر بچے ان توقعات کے امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں۔

یہ زندگی میں زیادہ ترقی بھی نہیں کر پاتے اور یہ والدین کو بڑھاپے میں اکیلا بھی چھوڑ دیتے ہیں چنانچہ پھر والدین کو بچوں کے اچھے نمبروں اور فرسٹ کلاس ڈگریوں کا کیا فائدہ ہوا؟ کچھ نہیں‘ کچھ بھی نہیں اور یہ وہ سراغ زندگی ہے جو سوریندرا کمار ویاس پا گیا جب کہ ہم اس سے کوسوں دور بیٹھ کر بچوں کے گریڈ اور نمبرگن رہے ہیں اور یہ وہ وجہ ہے جس کے لیے میں بھوپال جانا چاہتا ہوں‘ سوریندرا کمار ویاس سے ملنا چاہتا ہوں اور اسے یہ بتانا چاہتا ہوں بے شک بچے نالائق ہی اچھے ہوتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے