کبھی کوئی مشرقی پاکستان بھی تھا!

آج کل اکثر بیٹھے بٹھائے مجھ پر کئی باتیں ازخود آشکار ہوتی رہتی ہیں، آپ اسے القا یا الہام بھی کہہ سکتے ہیں، اس خداداد صلاحیت کے نتیجے میں کبھی کوئی گتھی سلجھ جاتی ہے اور کبھی کسی راز سے پردہ اٹھ جاتا ہے اور کبھی یوں ہوتا ہے کہ کسی گمبھیر مسئلے کا آسان حل خودبخود ذہن میں امڈ آتا ہے۔ کل رات بھی یہی ہوا۔ میں اپنی اسٹڈی میں بیٹھا پاکستان کی تاریخ پر ایک کتاب پڑھ رہا تھا، سرد ی کی وجہ سے کمرے کی کھڑکی بند تھی اور باہر مدھم سی روشنی تھی، اچانک مجھے یوں لگا جیسے کھڑکی کے پاس سے ایک سایہ سا لہرا کر گزر گیا ہو، میں سمجھ گیا کہ اب مجھ پر کچھ القا ہونے والا ہے کیونکہ میرے مرشد نے یہی نشانی بتائی ہوئی ہے اور پھر وہی ہوا۔

مجھ پر القا ہوا کہ ہمارے اسکولوں میں بچوں کو تاریخ نہیں پڑھائی جانی چاہئے، بچے معصوم اور ناسمجھ ہوتے ہیں، الٹے سیدھے تاریخی حقائق سے ان کا ذہن خراب ہو سکتا ہے، یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں، اگر ہم ایسے ہی بلاسوچے سمجھے مغرب کی اندھادھند نقالی میں انہیں تاریخ پڑھاتے رہے تو یہ بچے ملک کے مستقبل سے بد ظن اور مایوس ہو جائیں گے جبکہ ہمیں ان بچوں کو روشن مستقبل کی امید دلانی ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اسکول کالجوں کے نصاب سے تاریخ کا مضمون ہی نکال دیں۔

جب یہ باتیں مجھ پر القا ہوئیں تو یوں لگا جیسے مجھے ملک کے تمام مسائل کا حل مل گیا ہو۔ حالانکہ سامنے کی بات تھی مگر کسی کے دماغ میں ہی نہیں آئی کہ تاریخ کا مضمون نصاب سے نکالنے کے ہمیں کتنے فائدے ہوں گے۔ ایک فوری فائدہ تو یہ ہوگا کہ بچوں کا ایک امتحان کم ہو جائے گا اور وہ ہمیں دعائیں دیں گے اور جب کروڑوں بچے ہمارے حق میں دعا کریں گے تو ویسے ہی ملک ترقی کی پٹڑی پر بگٹٹ بھاگنے لگے گا۔ اس کے علاوہ تاریخ کی کتب نہیں چھاپنی پڑیں گی، یہ بھی کروڑوں روپوں کی بچت ہے اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ تاریخ پڑھنے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے بچے سائنسی علوم پڑھیں گے اور بڑے ہو کر سائنس دان بنیں گے اور کسی ڈکٹیٹر کی کابینہ میں بطور ٹیکنوکریٹ وزیر بھرتی ہو کر غریب عوام کی تقدیر بدلنے کے منصوبے بنائیں گے۔ اب اس سے زیادہ سودمند بات بھلا کیا ہو سکتی ہے؟

ہماری قوم کو عقل کی بات سمجھانا کوئی آسان کام نہیں، یہ بات اس جاہل قوم کو آسانی سے ہضم نہیں ہوگی کہ نصاب سے تاریخ کا مضمون نکال دیا جائے لہٰذا یہ کام بتدریج اور مرحلہ وار کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ تاریخ کا مضمون سرے سے غائب کرنے کی بجائے اگر ہم اس میں کچھ ضروری ترامیم کر لیں تو بھی ہمارا مقصد پورا ہو جائے گا، اس طریقہ واردات کا فائدہ یہ ہوگا کہ کوئی ملک دشمن لبرل لکھاری اس پر تنقید کر سکے گا اور نہ ہی ڈنگر عوام کو خواہ مخواہ وضاحتیں دینا پڑیں گی اور یوں تمام کام نہایت ہی غیر محسوس طریقے سے بخیر و خوبی مکمل کر لیا جائے گا۔

اس ضمن میں سب سے پہلے ہمیں نصاب میں کچھ بنیادی ترامیم کرنا ہوں گی، مثلا ً یہ تو سب جانتے ہیں کہ ملک کے اکلوتے فیلڈ مارشل جناب ایوب خان کا دور ملک کا سنہری دور تھا، اس وقت میں جتنی ترقی ہوئی اس کی مثال نہیں ملتی، ڈیم بنائے گئے، فیکٹریاں لگائی گئیں، صنعتوں کا جال بچھایا گیا، بنیادی جمہوریت کا ایسا تصور دیا گیا کہ افلاطون زندہ ہوتا تو اپنی ’’ری پبلک‘‘ کو آگ لگا کر کوڑے دان میں پھینک دیتا، خارجہ پالیسی ایسی بنائی گئی کہ امریکہ ہماری راہ میں آنکھیں بچھانے پر مجبور ہوا، داخلہ امور ایسے تھے کہ کہیں کوئی پتا بھی ہلتا تو حکمران کو خبر ہو جاتی، غرض شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے، خوش و خر م رہتے تھے، موج مستی کرتے تھے (تاہم بعد میں پتہ چلا کہ بکری ہم سے خوش نہیں تھی) لیکن آپ زیادتی کی انتہا دیکھیں کہ بعض کینہ پرور تاریخ دان ہمارے اس خوبرو حکمران کو، جس پر مغربی حسینائیں مرتی تھیں، محض اس وجہ سے ملکی ترقی کا کریڈٹ نہیں دیتے کہ ایوب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کے ساتھ معاشی ناانصافی روا رکھی گئی جو بعد میں ملک ٹوٹنے کا باعث بنی۔

ان متعصب تاریخ دانوں کے مطابق مغربی پاکستان میں جو صنعتیں لگائی گئیں اُن کے لئے مشینری باہر سے درآمد کرنا پڑتی تھی، اس کے لئے ڈالر چاہئے ہوتا تھا، مغربی پاکستان کے شہری صنعتکار کو حکومت سرکاری ریٹ پر ڈالر دیتی تھی جبکہ بازار میں ڈالر مہنگا ملتا تھا، دوسری طرف مشرقی پاکستا ن کی معیشت کا زیادہ انحصار ایکسپورٹ پر تھا، سو جب برآمدات کے نتیجے میں مشرقی پاکستانیوں کو آمدن ہوتی تو انہیں حکومت ڈالر کے سرکاری ریٹ کے مطابق ادائیگی کرتی۔

سادہ الفاظ میں یوں سمجھیں کہ اگر سرکاری سطح پر ڈالر پانچ روپے کا تھا اور مارکیٹ میں سات روپے کا تو لاہور اور فیصل آباد کے امپورٹر کو یہ سہولت حاصل تھی کو وہ اپنی فیکٹری کے لئے پانچ روپے کا ڈالر حاصل کرکے مشینری امپورٹ کرلے جبکہ چٹا گانگ میں بیٹھے کسی ایکسپورٹر کو حکومت بازاری نرخ یعنی سات روپے فی ڈالر کے حساب سے ادائیگی کرنے کی بجائے سرکاری ریٹ پانچ روپے فی ڈالر کے برابر روپے دے کر ٹرخا دیتی تھی، گویا ریاست نے اپنے دو بچوں کے لیے علیحدہ علیحدہ میعار مقرر کر رکھا تھا، اسی لئے شیخ مجیب الرحمٰن نے کہا تھا کہ مجھے اسلام آباد سے پٹ سن کی بُو آتی ہے۔ اب اس قسم کے حقائق جمع کرنے والوں کو میں متعصب تاریخ دان نہ کہوں تو اور کیا کہوں۔ انہیں اتنی عقل بھی نہیں کہ یہ سب باتیں آج اپنے بچوں کو پڑھا کر ریاست پر ہمیں اُن کا اعتماد ختم نہیں کرنا، بچوں کو صرف یہ بتانا کافی ہے کہ ایوب خان کے دور میں اندھا دھند معاشی ترقی ہوئی ،فل اسٹاپ۔

سچی بات ہے میرا بس چلے تو تاریخ کی کتابوں سے مشرقی پاکستان کا لفظ ہی حذف کروا دوں، یہ لفظ ہمیں ملک کے دولخت ہونے کی یاد دلاتا ہے جسے یاد کرنا ظاہر ہے کہ ہمارے مفاد میں نہیں، سینتالیس برس ہو گئے اب ہمیں یہ بات بھول جانی چاہئے، کوئی ضرورت نہیں کہ ہر سال سولہ دسمبر کو ہم ملک ٹوٹنے کا مرثیہ پڑھیں، زندہ قومیں آگے کو دیکھتی ہیں ماضی کو یاد کرکے ماتم نہیں کرتیں، ویسے بھی جب ہم سقوط ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں تو لا محالہ ہمیں یہ بتانا پڑتا ہے کہ 1971میں کیا ہوا تھا اور جب ہم یہ تاریخ پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ 1971 میں صرف علیحدگی ہوئی تھی جبکہ اس کے بیج ساٹھ کی دہائی میں بو دیئے گئے تھے جب شیر کے لئے ڈالر سستا اور بکری کے لئے مہنگا تھا۔

تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ اسکولوں میں مطالعہ پاکستان اور کالجوں میں تاریخ کی کتابوں میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے متعلق مضامین ملکی مفاد کو مدنظر رکھ کر شامل کئے جاتے ہیں اور اس بات کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے کہ بچوں کو پتہ نہ چل سکے کہ ملک کیسے ٹوٹا تھا، اُس وقت حکمرا ن کون تھا اور اس سے پیچھے کے دس برس کس حکمران کی پالیسیاں تھیں جو سقوط ڈھاکہ کا باعث بنیں! اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بازار میں جو نام نہاد تاریخ دانوں کی کتابیں دستیاب ہیں اُن پر پابندی لگائی جائے تاکہ کسی کے ذہن میں کوئی ابہام پیدا نہ ہو سکے۔ ایک مثبت بات یہ بھی ہے کہ ہمیں تاریخ پڑھنے کا کوئی خاص شوق نہیں اسلئے وہ دن دور نہیں جب ہمارے ذہنوں سے بات مکمل طور پر صاف ہو جائیگی کہ کبھی کوئی مشرقی پاکستان بھی ہوا کرتا تھا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے