فرات اپنے بچا کے رکھے میری سبیلیں فروخت کر دیں

آج وہ تینوں میرے سامنے اکٹھی کھڑی تھیں ۔ ورنہ ان ینگ لیڈیز کے ڈیوٹی اوقات مختلف ہیں ۔ میں نے سلام کیا۔ کہنے لگیں: آپ سے بات کرنی ہے ۔ دو کا تعلق ہمارے ناردرن پاکستان سے ہے‘ ایک پنڈی وال پوٹھوہارن۔ اُنہوں نے جو کہا‘ میں سُن کر حیران رہ گیا۔

درجن بھر سیڑھیوں کے فاصلے پر الیکٹرو جِم (gym ) ہے‘ جہاں ایک پاکستانی بھونڈ نما کالا انگریز روزانہ مغربی سفارت کاروں کو شکار کرنے آ تا ہے ۔ آج وہ بہت پُر جوش لگا ۔ کسی کو کہہ رہا تھا: ایکسی لینسی ہم نے جمہوریت بچا لی ۔ مثبت پارلیمنٹری روایت کے عین مطابق میاں شہباز شریف کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئر مین بنا لیں گے ۔ اس رنگ دار انگریز کی اس انگریزی‘ جو اس کے ضلعے کی زبان میں رنگی ہوئی ہے‘ کے جواب میں انگریز نے کہا:
Is he not arrested for fruad and coruption?

میں آگے بڑھ گیا۔ روٹین کی ایکسرسائز ختم کر کے گرائونڈ فلور پر پہنچا ‘ جہاں پَری کرسمس پارٹی کے لیے نوجوان جمع تھے ۔ کرسمس ٹری کے ارد گرد ۔ ایک نے سیلفی کے لیے روکا۔ اتنی دیر میں سارے متوجہ ہو گئے ۔ پوچھا: سر، یہ پی اے سی کیا ہوتی ہے۔

میں نے بتایا: 1973 کے آئین میں آرٹیکل 171 کی منشاء سے قومی خزانے یعنی پبلک اکائونٹس کو دیانت داری سے خرچ کرنے اور خرچ کردہ رقوم کا میزانیہ دیکھنے کے لیے یہ کمیٹی قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس کے تحت بنائی جاتی ہے ‘ جو کرپشن کو روکنے کے لیے اقدامات کرتی ہے ۔ ایک نوجوان بے پروائی سے بولا: ویل ڈن پارلیمنٹ ‘ اب تمہارے احتساب کے اجلاس کی صدارت کرنے لیے اڈیالہ جیل سے قومی خزانے سے فراڈ میں ملوث حوالاتی بلایا جا ئے گا ۔

پتا نہیں کہاں سے اُٹھ کے آ جاتے ہیں جمہوریت کے وڈے داماد۔ میں پھر آ گے بڑھ گیا۔
کبھی تو بیعت فروخت کر دی کبھی فصیلیں فروخت کر دیں
فرات اپنے بچا کے رکھے میری سبیلیں فروخت کر دیں

گاڑی میں بیٹھا تو گھڑی پر نظر پڑی ، مغرب قضا ہو رہی تھی ۔ 5 منٹ بعد مجھے سوالوں نے گھیر لیا ۔ گاڑی آ گے بڑھتی رہی ساتھ ساتھ سوال بھی۔ مثال کے طور پر کامیابی کیا ہے اور ناکامی کہاں ۔ پہلا سوال یہی تھا‘ جو بار بار ذہن میں آیا ۔ اسے سمجھنے کے لیے ہمیں 70 سال پیچھے جانا پڑے گا۔ پاکستان کے فائونڈنگ فادرز کامیابی کسے کہتے تھے اور آ ج جمہوریت کی فتح کیا ہے ۔ آئیے ایک چھوٹی سی کہانی سن لیں ۔ یہ کہانی ہمارے مہربان معلمِ قرآن ڈا کٹر اسرار احمد مرحوم نے بڑے اہتمام سے بیان کی ۔ ایک بڑے اجتماع کے سامنے ۔ ویڈیو مجھے کسی نے لاہور سے بھجوائی جسے میں نے وزیرِ اعظم عمران خان کو فارورڈ کر دیا ۔ آئیے بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم ؒ کے آخری ایام کی یہ کہانی سن لیں ۔

اُن دنوں قائد اعظم کی جان لیوا بیماری تھرڈ سٹیج پر پہنچ چکی تھی ۔ بابائے قوم بسترِ مرگ پر تھے۔

میو ہسپتال لاہور ، شعبہ ٹیوبرکلوسز کے سربراہ ریاض علی شاہ نے اپنی ڈائری میں لکھا: یہ بات حیرت کا باعث تھی کہ لاہور سے زیارت کا سفر طے کر کے میں شدید بیماری میں مبتلا قائد اعظم ؒ کے کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے باوجود کہ بانیٔ پاکستان انتہائی کمزور ہو چکے تھے اور اُن کا جسم کمبل میں لپٹا ہوا تھا ‘ اُنہوں نے ہاتھ باہر نکالتے ہوئے نہایت گرم جوشی سے مصافہ کیا ۔ پوچھا: آپ کو راستے میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی ۔ مرض الموت میں مبتلا عظیم انسان کے اخلاق، تواضع اور انکساری کی یہ اچھو تی مثال تھی ۔ مجھ سے ہاتھ ملانے ، مزاج پرسی کرنے سے وہ ہانپنے لگے ۔ کئی منٹ تک انہیں آنکھیں بند کیے لیٹے رہنا پڑا۔ ہم خوف زدہ تھے ۔ خون، تھوک وغیرہ کی تحقیق کے جو نتا ئج آ ئے ‘ اُنہیں قائد اعظم ؒ تک کیسے پہنچایا جائے ۔

اُنہوں نے از خود ہماری پریشانی محسوس کر لی۔ بولے: آپ جو کچھ کہنا چاہیں کھل کر بیان کریں ۔ بیماری کی نوعیت جاننے کے بعد میں آپ سے زیادہ تعاون کر سکوں گا ۔ گھبرائیں نہیں ۔ میں موت سے نہیں ڈرتا۔ کیونکہ اُسے بہرحال آنا ہے ‘ البتہ آپ کے پیشے کے اصول حائل ہیں تو میں مجبور نہیں کرتا ۔ ہمیں آزاد وطن سے روشناس کروانے والے قائد اعظم کا خدا پر ایمان اور رسولوں پر یقین ہمارے لیے خوش گوار حیرت کا باعث تھا ۔ قائد اعظم ان معنوں میں مذہبی رہنما نہ تھے‘ جن میں ہم عام طور پر مذہبی رہنما کا لفظ استعمال کرتے ہیں ‘ لیکن مذہب پر اُن کا یقین کامل تھا۔

ڈاکٹر شاہ مزید لکھتے ہیں: ایک مرتبہ میں نے دیکھا‘ وہ کچھ کہنا چا ہتے ہیں ۔ ہم نے بات چیت سے منع کر رکھا تھا ۔ اس لیے الفاظ لبوں پر رُک جاتے ۔ ہم نے اُنھیں دعوت دی تو وہ بولے : جانتے ہو جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے پاکستان بن چکا تو روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے ۔ یہ مشکل کام تھا ۔ میں اکیلا اسے کبھی نہ کر سکتا ۔ میرا ایمان ہے رسولِ خدا ؐ کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے اسے خلافتِ راشدہ کا نمونہ بنائیں ‘ تاکہ خدا ، اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے۔ پاکستان میں سب کچھ ہے۔

اُس کی پہاڑیوں ، ریگستانوں اور میدانوں میں نوادرات بھی ہیں معدنیات بھی ۔ اُنہیں تسخیر کرنا پاکستانی قوم کا فرض ہے۔ قومیں نیک نیتی، دیانت داری ، اچھے اعمال اور نظم و ضبط سے بنتی ہیں ۔ اخلاقی برائیوں منافقت ، زر پرستی سے تباہ ہو جاتی ہیں۔

اتوار پہلے پہر تربیلا غازی میں شادی کی تقریب میں مدعو تھا۔ کچھ مہمان جنہیں میں نہیں جانتا‘ میرے پاس آ ئے۔ کہنے لگے : جن لوگوں نے ڈٹ کر قا ئد اعظم کی مخا لفت کی ‘ تحریکِ اکستان میں کانگریس کا ساتھ دیا ‘ وہ کہتے ہیں 100 دن میں مدینے کی ریاست کیوں نہیں بنی ۔ ان کو ہماری طرف سے پوچھیں ۔ یحییٰ سے لے کر مشرف تک یہ شریکِ اقتدار تھے ۔ اُنہوں نے تب عہدے اور وزارتیں بچانے کے علاوہ کون سا تیر مارا ۔ ایک صاحب جذباتی تھے ۔ بولے: عمران کو بتا ئیں آ گے دیکھ کر چلتا رہے۔ 100 روز کے حساب پر یہ شعر سنایا ۔
خدا ہیں لوگ گناہ و ثواب دیکھتے ہیں
سو ہم تو روز ہی روزِ حساب دیکھتے ہیں

تینوں ینگ لیڈیز نے مجھ سے پو چھا تھا : یہ عمران والی مر غیوں کے سیٹ کہاں سے ملیں گے ۔ خود دیکھ لیں‘ قوم کیا بچا نا چا ہتی ہے اور اس کے انویسٹر رہنماء کیا کیا؟ ہاں البتہ ہمارا فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ گھر کہاں بنائیں اور کیسے۔
یہ کیا کہ سورج پہ گھر بنانا اور اس پہ چھائوں تلاش کرنا
کھڑے بھی ہونا تو دلدلوں پہ‘ پھر اپنے پائوں تلاش کرنا
اور نکل کے شہروں میں آ بھی جانا‘ چمکتے خوابوں کو ساتھ لے کر
بلند و بالا عمارتوں میں پھر اپنے گائوں تلاش کرنا

قائد نے کہا: میرا ایمان ہے رسولِ خدا ؐ کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا ۔ اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے اسے خلافتِ راشدہ کا نمونہ بنائیں ‘ تاکہ خدا ، اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے۔ پاکستان میں سب کچھ ہے۔ اُس کی پہاڑیوں ، ریگستانوں اور میدانوں میں نوادرات بھی ہیں معدنیات بھی۔ اُنہیں تسخیر کرنا پاکستانی قوم کا فرض ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے