پانچ جسمانی خوبیاں جو کم لوگوں میں ہی پائی جاتی ہیں

مافوق الفطری قوت کے حامل افراد کامکس کی کتابوں یا سائنس فکشن کا حصہ ہوتے ہیں۔

لیکن بعض لوگوں کے پاس مخصوص صلاحیتیں ہوتیں ہیں جن کے حصول کے بارے میں صرف خواب ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔

بعض معاملوں میں ان کی وضاحت جینیاتی تغیر و تبدل سے واضح کی جا سکتی ہے اور بعض معاملوں میں ان کے جسم زندگی کے مخصوص حالات میں کس طرح خود کو ان کے مطابق ڈھالتے ہیں سے ہوتی ہے۔

یہاں پانچ قابل قدر خصوصی صلاحیتوں کا ذکر کیا جا رہا جو ہم میں سے کم ہی لوگوں کے پاس ہوتی ہے۔

[pullquote]1. پانی میں واضح بصارت[/pullquote]

ہم میں سے زیادہ تر لوگ جب پانی میں آنکھ کھول کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں پانی میں دھندھلا نظر آتا ہے۔ لیکن اس معاملے میں میانمار اور تھائی لینڈ کی جانب والے انڈمن ساحل پر رہنے والے تین قبائل موکن کے بچے استثنی ہیں۔

ان جائزر پر آباد لوگوں کو ‘سمندری خانہ بدوش’ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ پانی میں بنی جھونپڑیوں یا کشتیوں میں گزارتے ہیں اور سمندری حیاتیات اور نباتات کو اکٹھا کرتے ہیں۔

یہ اس بات کی وضاحت کے لیے کافی ہے کہ انھوں نے پانی میں اس قدر صاف دیکھنے کی قوت کس طرح حاصل کی۔

یہ سب طبیعیاتی معاملہ ہے کہ انسانی آنکھ ہوا میں اور پانی میں کس طرح توجہ مرکوز کرتی ہے۔

ہوا میں جب آنکھ کھلتی ہے تو روشنی جوں ہی قرنیۂ چشم یا آنکھ کے شفاف پردے سے ٹکراتی ہے منتشر ہونے لگتی ہے کیونکہ وہ ہوا سے زیادہ کثیف یا گھنی ہوتی ہے۔ لیکن پانی کی کثافت آنکھ کے پانی کی کثافت کے برابر ہوتی ہے تو ایسے میں پھر منتشر ہونے کی گنجائش زیادہ نہیں ہوتی۔ اس لیے صاف نظر نہیں آتا ہے۔

اس مسئلے کو گوگلز (عینک) حل کردیتے ہیں وہ آنکھ اور پانی کے درمیان ہوا کا ایک خانہ بنا دیتے ہیں۔

کرنٹ بائيلوجی نامی جریدے میں سنہ 2003 میں شائع ایک تحقیق میں بتایا گيا کہ موکن کے بچوں کی آنکھیں پانی کے اندر کے ماحول سے خود کو اسی طرح ہم آہنگ کر لیتی ہیں جس طرح ڈالفن کر لیتی ہیں۔ وہ اتنی روشنی کو موڑ لیتی ہیں جس سے وہ بغیر پریشانی کے صاف دیکھ سکیں۔

بعد کی تحقیق میں پتہ چلا کہ بالغ موکن جو زیادہ تر کھڑے ہو کر سمندر میں نیزے سے مچھلی مارتے ہیں وہ رفتہ رفتہ اپنی پانی کے اندر دیکھنے کی صلاحیت کھونے لگتے ہیں۔

[pullquote]2. انتہائی ٹھندے موسم کو برداشت کرنا[/pullquote]

انسانی جسم کا عام درجہ حرارت 36.5C سے 37.5C ڈگری ہوتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر لوگ ٹھنڈے موسم کے مقابلے میں گرم موسم سے اچھی طرح ہم آہنگ ہوتے ہیں۔

لیکن آرکٹک یا قطب شمالی میں رہنے والے انوئٹ باشندے یا پھر نینٹ باشندے جو شمالی روس میں رہتے ہیں وہ منجمد کرنے والے درجۂ حرارت کے ساتھ مطابقت رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ان کے جسم ٹھنڈک میں مختلف قسم سے رد عمل کرتے ہیں کیونکہ وہ حیاتیاتی طور پر عام لوگوں سے مختلف ہیں۔

ان کی جلد عام لوگوں سے زیادہ گرم ہے اور ان کی میٹابولک شرح ہم سے زیادہ ہے۔ ان میں پسینے کے کم گلینڈز ہوتے ہیں اور وہ سردی میں کانپتے نہیں ہیں۔

یہ خصوصیت خالصتاً جینیاتی ہے۔ اگر آپ انوئٹ یا نینٹ نہیں ہیں تو خواہ قطب شمالی پر کتنے ہی دن کیوں نہ گزار لیں آپ میں سردی کو برداشت کرنے کی وہ قوت پیدا نہیں ہوگی جتنی ان لوگوں میں ہوتی ہے۔

[pullquote]3. کم نیند کے باوجود کام کرنا[/pullquote]

زیادہ تر لوگوں کو پرسکون رہنے کے لیے سات سے نو گھنٹے کی نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔

لیکن سنہ 2014 میں امریکن اکیڈمی آف سلیپ میڈیسن نے اپنی ایک تحقیق میں ایک جین میں تبدیلی دریافت کیا جس کے سبب روزانہ چھ گھنٹے سے بھی کم سونے کے باوجود لوگ اپنا معمول کا کام بہ آسانی کر لیتے ہیں۔

جن لوگوں میں متبدل جین DEC2 ہوتا ہے ان میں تیزی سے آنکھوں کی حرکت (آر ای ایم) کا شدید مرحلہ زیادہ ہوتا ہے اس لیے ان کا آرام زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔

اس کے مختلف جینیاتی اقسام بھی نیند کی کمی کے خلاف مزاحمت فراہم کرتے ہیں۔

نیند کی کمی سے ذہن کو مرکوز کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور اس سے جسمانی صحت کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ جینیاتی تبدیلی بہت کم لوگوں میں مؤثر ہے اور ایک فی صد سے بھی کم لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ چھ گھنٹے سے کم سوتے ہیں۔

اس لیے اگر آپ چھ گھنٹے سے کم سوتے ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ٹھیک ہیں تو آپ ہوشیار ہو جائیں کہ نیند کی کمی آپ کے لیے کسی دن نقصاندہ نہ ثابت ہو۔

[pullquote]4. زیادہ کثیف ہڈیاں[/pullquote]

بڑی عمر کے ساتھ ہڈیوں کا گھناپن یا اس کی کثافت یا حجم کا کم ہونا عام بات ہے لیکن بعض لوگوں میں عام لوگوں کے مقابلے میں تیزی سے کثافت میں کمی آتی ہے۔ اس کی وجہ سے اوسٹیوپوروسز یا ہڈیاں ٹوٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

لیکن بعض لوگوں میں ایک جینیاتی تغیر ہوتا ہے جس کے سبب معاملہ اس کے برعکس ہو جاتا ہے اور یہ شاذ و نادر کے زمرے میں آتا ہے۔ اسے سکلیروسٹیوسس کہتے ہیں اور جس میں یہ جینیاتی تغیر ہوتا ہے اس شخص کی ہڈیا ہمیشہ حجم حاصل کرتی رہتی ہیں یعنی گھنی ہوتی رہتی ہیں۔

امریکہ کی ریاست واشنگٹن کے بوتھل میں چیروسائنس ریسرچ اینڈ ڈولپمنٹ ادارے کے سائنسدانوں نے اس بات کی شناخت کی ہے کہ کس طرح SOST جین کس طرح سکلیروسٹن پروٹین کی پیداوار کو متاثر کرتا ہے جو کہ ہڈیوں کے بننے کا سبب ہوتا ہے۔

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس سے انھیں بڑھاپے میں ہڈیوں کے حجم میں کمی کے سلسلے کو پلٹانے میں مدد ملے گی۔

لیکن اس کی کمی بھی ہے کہ ہڈیوں کے مسلسل بڑھنے سے کسی عضو کے غیر معمولی طور پر بڑھ جانے، چہرے کی ساخت بگڑنے اور بہرے پن کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ یہ جینیاتی حالت افریکینر (ولندیزی نسل کے جنوبی افریقی) میں پائی جاتی ہے۔

[pullquote]5. بلندی پر رہائش[/pullquote]

آپ میں سے جس کسی کا پالا ’ایلٹی ٹیوڈ سکنس‘ یا زیادہ بلندی کی وجہ سے طبعیت کی خرابی سے پڑا ہوا وہ جانتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے۔

اینڈیئن کمیونٹیز جو کہ سطحِ سمندر سے پانچ ہزار میٹر کی بلندی پر رہتی ہیں اسے ’سوروش‘ کہتی ہیں۔

ایلٹی ٹیوڈ سکنس کی وجہ آکسیجن کی کمی ہوتی ہے کیونکہ بلندی میں اضافے کے ساتھ فضا میں آکسیجن کی مقدار کم سے کم ہوتی جاتی ہے۔

چکر آنا، سر درد، فشار خون میں کمی اور سانس لینے میں دقت اس کی عام نشانیاں ہیں۔

لیکن پہاڑی سلسلے اینڈیز اور ہمالیہ میں رہنے والے کویچوا اور تبتی باشندوں پر کیے جانے والے تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ قدرتی طور پر ان علاقوں میں رہنے کی وجہ سے وہ جینیاتی طور پر بلندی پر رہنے کے لیے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ ان کا جسمانی ڈھانچہ بڑا ہوا جس سے ان کے پھیپھڑوں کی گنجائش بھی بڑھی اور یوں وہ سانس لیتے ہوئے زیادہ آکسیجن اندر لے جانے کے قابل بنے۔

اور جبکہ عام لوگوں میں کم آکسیجن ملنے کی صورت میں ریڈ بلڈ سیلز بننے کی رفتار بڑھ جاتی ہے ان افراد میں یہ تعداد کم ہوتی نظر آئی ہے۔

کیونکہ یہ وہ جینیاتی خصوصیات ہیں جو ہزارہا سال سے موجود ہیں اور جو کہ تبدیل نہیں ہوئیں اگرچہ یہ پہاڑی لوگ پہاڑوں سے نیچے اتر کر میدانی علاقوں میں بھی آ گئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے