جنرلی کاروبار ۔

پاک فوج میں لیفٹنٹ جنرل امتیاز حیسن ایسے پیشہ ور فوجی بھی ہیں جو اپنے ادارے پر حرف آنے کے خوف سے اپنے سروس ریوالور سے خود کشی کر لیتے ہیں ، پاک فوج میں جنرل کیانی ایسے جنرل بھی پائے جاتے ہیں جن کے بھائی ان کے عہدے کے دوران ڈی ایچ اے میں اربوں روپیہ کی لوٹ مار کرتے ہیں اور سات آٹھ سال گزرنے کے باوجود قانون کی دسترس سے باہر ہیں ۔ بیرون ملک سے وطن واپسی کیلئے انکے انٹرپول کے ریڈ وارنٹ انکی بے پناہ طاقت کے سامنے پر نہیں مار سکتے۔

جنرل امتیاز نے 36 سال فوج میں ملازمت کی انکی کوئی اولاد نہیں تھی اس لئے بیرون ملک سٹاف کورس کے دوران انکے بچوں کو اعلی ترین امریکی تعلیمی اداروں میں سکالرشپ کی پیشکش بھی نہیں کی جا سکی ،ان کا شمار فوج کے ان جنرلوں میں ہوتا ہے جو بیماری کی صورت میں بیرون ملک علاج کیلئے بھی نہیں جاتے مبادہ غیر ملکی ایجنسیاں انکے سینے میں ملکی سلامتی کے چھپے راز نہ جان لیں اور یہاں جنرل مشرف ایسے لوگ بھی ہیں جو جنرل ایوب کی طرح اپنے غیر آئینی اقتدار کیلئے امریکیوں کیلئے ایسے کارنامے سرانجام دیتے ہیں جسکی قیمت ملک و قوم کو ادا کرنا پڑھتی ہے۔

جنرل امیتاز نے دو غلطیاں کیں ۔انہوں نے ڈی ایچ اے کی ڈویلپمنٹ کی زمہ داری بحریہ ٹاون کو دینے کا معاہدہ کیا اور انہوں نے آرمی ویلفیر ٹرسٹ کے سربراہ کی حیشیت سے ریٹائرڈ فوجی جوانوں اور افسران کی فلاح و بہبود کیلئے انکی جمع پونجی پر 14 فیصد منافع دینے کا پروگرام تشکیل دیا۔ بحریہ ٹاون کے ساتھ معاہدہ انکی غلطی تھی لیکن وہ کوشش کے باوجود اس غلطی کو درست نہ کر سکے ۔جنرل امیتیاز حسین نے ریٹائرڈ فوجی افسران اور جوانوں سے 43 ارب روپیہ کے ڈیپازٹ حاصل کر لئے تھے اور ان کا بڑا حصہ عسکری بینک میں نو فیصد شرح منافع کی شرط پر جمع کرا دیا جبکہ کچھ حصہ پراپرٹی کی خریداری پر صرف کیا ۔ریٹائرڈ افسران اور جوانوں کو 14 فیصد ملتے تھے جبکہ آرمی ویلفیر اسکیم اے ڈبلیو ایس کو نو فیصد حاصل ہوتے تھے ۔

پانچ فیصد کا مسلسل نقصان ہو رہا تھا اسی طرح خریدی جانے والی پراپرٹی بھی اتنا منافو نہیں کما پائی نقصان کا ازالہ کر سکے ،جنرل جتنےے مرضی نیک نیت ہوں وہ اپریشن رد الفساد میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں ،جنرل اپریشن ضرب عضب میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں ،جنرلوں کو کراچی اپریشن میں کامیابی مل سکتی ہے لیکن جنرل کاروبار نہیں کر سکتے ،انہیں اسکی تربیت ہی حاصل نہیں ۔جنرل سیاست بھی نہیں کر سکتے جب کرتے ہیں تو پاک فوج ایسے پروفیشنل ادارے کی ساکھ کو جنرل ضیا الحق ،جنرل مشرف اور 2018 کے عام انتخابات کی طرح صرف نقصان پہنچا سکتے ہیں اور بس۔جنرل ایوب اور جنرل ییحی نے سیاستدانوں کو غدار ،چور اور ڈاکو قرار دے کر اس ملک اور قوم کے ساتھ جو کچھ کیا اس پر ہمیں کچھ نہیں کہنا چاہیے کیونکہ تاریخ کی کتابیں اس کیلئے کافی ہیں ۔

جنرل امیتیاز کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے خودکشی کر لی لیکن خودکشی سے پہلے انہوں نے اپنے بھائی کو جو پیغام بھیجا اور اپنی اہلیہ کے ساتھ جو غم غلط کئے ان پر کوئی تفتیش ہوتی اور فیصلے ہوتے تو پاک فوج کاروبار سے ہاتھ اٹھا لیتی یہ ان کے کرنے کا کام ہی نہیں ،لیکن افسوس آج بھی ریٹائرڈ جنرل کاروبار کرتے ہیں ادارے اور قوم کو بھاری نقصان پہنچا رہے ہیں ۔کاروبار کرنے کیلئے پروفیشنل لوگ موجود ہیں انہیں پیسے کیوں نہیں دیتے تاکہ اپنی ہنر مندی سے وہ خود بھی کمائیں اور فوج کو بھی کما کر دیں ملک و قوم کا کیوں نقصان کرتے ہیں ۔ اس ملک میں کسی کے منہ میں اتنے دانت نہیں وہ فوج کے پیسے ہڑپ کر سکے ۔دیں کسی کاروباری آدمی کو پیسے اور منافع کی ضمانت اور بینک گارنٹی کوئی جعلی گارنٹی نہیں دے سکتا کوئی فراڈ نہیں کر سکتا تو کیوں خود کاروبار کرتے ہیں ۔

آرمی ویلفیر ٹرسٹ کی اسلام آباد میں ہاوسنگ اسکیم موٹر وے پر موجود ہے اس سے بہتر ہاوسنگ اسکیم پورے ملک میں موجود نہیں ،یہ مستقبل کا زیرو پوائنٹ ہے نئے اسلام آباد ائر پورٹ سے اس کا فاصلہ تین منٹ کا ہے ۔ سی پیک ہکلہ انٹرچینج سے اس کے ساتھ منسلک ہے ،ہزارہ ایکسپریس اور موٹر وے کے ساتھ یہ ہاوسنگ اسکیم تین موٹروے کے ساتھ منسلک ہے لیکن عقل مند جنرلوں نے ایک فراڈئے کو اس اسکیم کا نام لے کر عوام سے لوٹ مار کی اجازت دی اور وہ فوج کا نام استمال کر کے لوگوں سے کمرشل پلازوں کی بکنگ کے نام پربھاری رقوم لے کر بھاگ گیا اور اب بعض ریٹائرڈ فوجی افسر ہی اس فراڈئے کو عدالتوں کے سٹے ارڈر کے زریعے بچ نکلنے کے راستے بھی بتا رہے ہیں ۔فرادئے کو صرف ایک درجن کمرشل پلاٹ دئے ہونگے جناب اعلی اتنے پیسے ہیں اپ کی زنبیل میں خود تعمیر شروع کر دیں ایک ہفتے میں سرمایہ کار بھاگتے آئیں گے، لیکن کاروبار کرنا آتا ہو تو خود کمرشل پلازے تعمیر کریں ناں انہیں تو بس گھومنے والی کرسی پر بیٹھ کر چائے پینا اور سیاستدانوں کو چور کہنا آتا ہے کاروبار کرنا انکے بس کی بات ہی نہیں ۔

فوجی فاونڈیشن کے بقراط ریٹائرڈ جنرلوں نے تین مختلف کاروبار کرنے کا ڈول ڈالا ،کاروبار تو کیا کرنا تھا الٹا پہلے سے منافع میں جانے والے فوجی فرٹیلائزر اور بن قاسم پلانٹ کا بھی بیڑا غرق کر دیا ہے ،او جناب کاروبار کرنا اپکا کام نہیں نہ آپ کو آتا ہے فوج کے پیسے کیوں برباد کرتے ہیں ۔فوجی فریش اینڈ فیلڈ کا مقصد تھا سبزیوں اور پھلوں کو پراس کر کے برامد کریں گے ۔تمام حسابات موجود ہیں کوئی حاضر سروس جنرل کیوں نہیں پوچھتا ”افسر صاحب حساب دیں فوج کے کتنے پیسے لگے کتنی برامدات ہوئیں اور کتنا منافع ہوا اور اگر بھاری خسارہ ہو رہا ہے تو اس کو بند کیوں نہیں کرتے یا جنرل امیتیاز کی طرح کچھ انوکھا کیوں نہیں کرتے ۔فوجی میٹ کا مقصد تھا گوشت کا کاروبار ۔

اس پراجیکٹ میں کتنی پیدوار ہے کتنی کھپت ہے اور کتنا منافع ہوا رہا ہے کاش کوئی حاضر سروس جنرل اس پر بھی توجہ دے ، پیسے فوج کے ہیں اور فلاح و بہبود کیلئے ہیں کاروبار کا بنیادی مقصد منافع ہے تاکہ افسران اور جوانوں کی فلاح و بہبود کیلے اقدمات کئے جا سکیں ۔سول افسر تو 60 سال میں ریٹائر ہوتا ہے فوجی افسر میجر ،کرنل اور بریگڈئر کے عہدہ سے ریٹائر ہوتا ہے ،سارے جنرل نہیں بنتے ۔یہی حال جوانوں کا ہے وہ بھی بھری جوانی میں ریٹائر ہو جاتے ہیں انکی فلاح و بہبود ادارے کا فرض ہے ۔تو جو پیسے فوج نے ان ریٹائر افسران اور جوانوں کیلئے مختص کئے ہیں ان کو کوئی کس طرح اپنے احمقانہ فیصلوں سے برباد کر سکتا ہے۔ ایک بقراط نے دودھ کا کاروبار کرنے کا نادر منصوبہ پیش کیا ،نور پور دودھ اب کہاں پر ہے ؟ اس منصوبے میں کتنا نقصان ہو چکا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے اور یہ منصوبہ تو اپنا تھا بھی نہیں ،ایک کاروباری خاندان سے خریدا تھا جو اس نقصان والے منصوبے کو بھاری منافع پر عقل مند جنرلوں کو فروخت کر گیا ۔

ان خسارہ میں جانے والے منصوبوں کو منافع میں جانے والے منصوبوں سے چلایا جا رہا ہے کیوں ؟ فوج کے پیسے کیا کیسی کے ذاتی پیسے ہیں کہ ریٹائرڈ افسران کی تنخواہوں اور مراعات کیلئے خسارے میں جانے والے منصوبے چلائے جائیں ۔

نواز شریف دور میں جب سی پیک پر کام زوروں پر جاری تھا تمام سیمنٹ فیکٹریاں بھاری منافع کما رہی تھیں لیکن عسکری سیمنٹ کا منافع اس تیزی میں بھی بہت کم تھا اور حصص بازار میں اس کے حصص کی قیمت بھی سب سے کم تھی اور اب تو مارکیٹ میں مکمل مندہ ہے ۔کیا کوئی حاضر سروس جنرل کوئی انکواری کمیٹی بنائے گا عسکری سمینٹ کی مہنگی مشنری درامد کرنے والے نیک لوگ کون تھے ؟ کیا کوئی حاضر سروس جنرل انکواری کرائے گا عسکری سیمنٹ کا سائلو کیوں گر گیا تھا ،کیا ڈیزئین غلط تھا ،کیا ڈائزئین ٹھیک تھا لیکن بنایا غلط گیا تھا ۔نواز شریف کے 40 سال پہلے کے لندن فلیٹ کے معاملہ پر تو گلی گلی میں شور ہے ایسے نعرے بلند ہو جاتے ہیں کیا جو لوگ ہمارے اداوں کو ناقص منصوبوں سے نقصان پہنچاتے ہیں ان پر بھی کوئی بات کرے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے