فلیگ شپ ریفرنس میں‌ نوازشریف کی آخری پیشی

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے

فیض احمد فیض کا یہ شعر میاں نواز شریف نے احتساب عدالت کے داخلی دروازے پر کھڑے ہو کر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران پڑھا .

فلیگ شپ ریفرنس کی آخری سماعت تھی، میاں نواز شریف ساڑھے نو بجے اپنے سیاسی رفقاء کے ساتھ کمرہ عدالت میں پہنچے. سماعت شروع ہونے سے قبل جج کے عین اوپر لگا بجلی کا بلب دھڑام سے نیچے گرا، کمرہ عدالت میں موجود ہر شخص اس آواز پر چونکا ، مجھے یہاں قدرت اللہ شہاب کی بات یاد آ گئی انھوں نے اپنی کتاب شہاب نامہ میں لکھا ہے کہ جب جنرل یحییٰ نے اقتدار سنبھالا تو تقریب حلف برداری کے لیے جو شامیانے اور قناتیں لگائی گئی تھیں ، عین حلف کے موقع پر اندھی کی وجہ سے اکھڑ گیا ، وہ لکھتے ہیں یہ قدرت کی طرف سے ایک اشارہ تھا کہ یہ شخص ملک و قوم کے لیے نیک شگون نہیں ، یہاں روشنی کا بلب گرا ، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ اندھیرا، اللہ کرے میرا اندازہ غلط ثابت ہو.

خواجہ حارث عدالت کو جواب الجواب میں بتا رہے تھے کہ میاں نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ، اس پر پانچ ججز نے دستخط کیے اور جے آئی ٹی بنانے کی تین ججز نے سفارش کی تھی اس ججمنٹ پر ان تین ججز کے دستخط بھی ہیں جس کا مطلب ہے کہ انھوں نے کیس سنے بغیر دستخط ثبت کیے جس پر فاضل جج نے ریمارکس دیے اس کو دیکھنا پڑے گا.

نیب پراسیکیوٹر کے دلائل کے دوران جج ارشد ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ کی ضرورت نہیں ، مجھے اپنا فیصلہ سنانا ہے آپ نے جو دستاویز دی وہ میں نے دیکھ لی ہیں.

خواجہ حارث نے لندن سے آنے والا لینڈ ریکارڈ پیش کیا اور استدعا کی کہ عدالت اسے ریکارڈ کا حصہ بنائے ، عدالت نے ان کی استدعا منظور کرتے ہوئے اسے ریکارڈ کا حصہ بنایا.

ایک اور موقع پر فاضل جج نے بڑے دلچسپ ریمارکس دیے کہ نیب پراسیکیوٹر اس سوچ بچار میں ہیں کہ حسن نواز نے اپنا سارا کاروبار فروخت کر دیا یا کچھ بچا کے رکھا ہوا ہے ، اس پر عدالت میں قہقہے بلند ہوئے.

سماعت کے دوران میاں نواز شریف کمرہ عدالت میں موجود رہے ، میاں نواز شریف کے دائیں طرف عرفان صدیقی اور بائیں طرف بزرگ سیاستدان راجہ ظفرالحق بیٹھے ہوئے تھے ، میاں نواز شریف عرفان صدیقی سے طویل مشاورت کرتے رہے اور ساتھ ساتھ کچھ ضروری نوٹس بھی لکھنے کے بعد جیب میں ڈالتے رہے.

کمرہ عدالت میں لیگی کارکنان اور لیڈران کی بڑی تعداد موجود تھی ، سیکیورٹی اہلکار بار بار کمرہ عدالت سے غیر معروف لوگوں کو باہر نکالتے رہے.

میاں نواز شریف سے ملاقات کرنے والوں میں سردار ممتاز، سینیٹر چوہدری تنویر، سینیٹر بیرسٹر جاوید عباسی، بیرسٹر دانیال تنویر، سینیٹر مشاہد حسین سید، سینیٹر پرویز رشید، ڈاکٹر آصف کرمانی، ایم این ایز میاں جاوید لطیف، رانا ثناءاللہ، احسن اقبال، میاں نواز شریف کے دوست حامد میر، زبیر بٹ، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، ملک ابرار، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، انجم عقیل، نذہت صادق، مریم اورنگزیب، طاہرہ اورنگزیب، اور دیگر موجود تھے.

میاں نواز شریف ضروری دستاویزات پر دستخط کرنے روسٹرم پر آئے اور عدالت سے اجازت مانگی کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں ، اجازت ملنے کے بعد وہ گویا ہوئے ، تین مرتبہ وزیراعظم اور دو مرتبہ وزیراعلیٰ رہنے کے باوجود کرپشن کے نزدیک نہیں گیا اور نہ کبھی اختیارات کا غلط استعمال کیا، جناب جج صاحب آپ نے دیکھ لیا ہو گا کہ ہمارے خلاف مفروضوں، قیاس آرائیوں اور اندازوں پر جے آئی ٹی بنائی گئی، آپ جج ہیں آپ دیکھ رہے ہیں ساری قوم دیکھ رہی ہے، اللہ کی عدالت بہت بڑی عدالت ہے ، وہاں کوئی جے آئی ٹی نہیں ہو گی مفروضے نہیں چلیں گے ، سب کچھ صاف صاف ہو گا
جج صاحب! اللہ کی عدالت کے بعد مجھے آپ کی عدالت کے بعد پورا بھروسہ ہے کہ مجھے انصاف ملے گا.

فاضل جج نے کہا کہ فیصلہ اکیس دسمبر بروز جمعہ کو سنایا جائے ، اس پر کمرہ عدالت میں موجود لیگی کارکنان کے منہ سے "او ہو” کی آوازیں نکلی ، میاں نواز کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ایک دستاویز عدالت کو دینی ہے ، ممکن ہے لندن سے آتے ہوئے تھوڑا وقت لگے ، میاں نواز شریف نے اس موقع پر عدالت کو بتایا کہ جج صاحب سرکاری دستاویز ہے ، تھوڑا وقت لگے گا آنے میں ،اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ جمعہ کا دن مبارک دن ہے ، اللہ خیر کرے گا . ازاں بعد فریقین کے وکلاء سے مشاورت کے بعد فیصلے کا دن چوبیس دسمبر بروز پیر رکھا گیا.

سماعت کے خاتمے کے اسلام آباد سے سابق ممبر اسمبلی انجم عقیل نے میاں نواز شریف اور کارکنان کی چائے، سموسوں اور سینڈ وچز سے تواضع کی.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے