مسئلہ کشمیر:موکل وکیل سے پوچھتا ہے!

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

ساحر لدھیانوی کی نظم کا یہ شعر میں بچپن سے سنتا آیا ہوں،آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت ہو یا حریت قیادت ہو اکثر قائدین مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم کے خلاف جب فرصت پاکر کچھ مذمتی الفاظ کی ادائیگی کرتے تو جوش خطابت میں ساحر لدھیانوی کی نظم کا یہ مصرعہ بھی پڑھتے ہیں ’’ظلم تو پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتاہے‘‘مگر ایک خطہ ایسا بھی ہے جہاں ظلم بڑھتا ہے تو بڑھتا ہی جاتا ہے، خون ٹپکتا نہیں خون کے دریا بہتے ہیں مگر خون جمتا نہیں ہے،جی جی بات بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و استبداد کی ہو رہی ہے جہاں حال ہی میں ایک دن میں 14 نہتے کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا اور تین سو سے زائد زخمی ہوئے اور یہ کوئی نئی بات نہیں خون کی ہولی کھیلنے کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے، دنیا مذمت کرتی ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ایک دو رپورٹس جاری کر دی جاتی ہیں اور ان رپورٹس کو لے کر آزادی کے بیس کیمپ کی قیادت دو، چار ماہ پروگرامز کرتی ہے، تقاریر، بیانات، جوش خطابات میں بھارت کو دو، چار گالیاں دی جاتی ہیں اور فرض پورا ہو جاتا ہے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔

اگر کشمیریوں کے وکیل مملکت خداداد پاکستان کی بات کریں تو ایک مدت سے یہاں بھی وہی روایتی مذمتی بیانات کا تسلسل جاری تھا مگر رواں برس پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ میں کشمیر پر جو مضبوط موقف دیا ، اس سے بہت حد تک مظلوم، نہتے کشمیریوں کی حوصلہ افزائی ہوئی مگر پھر کشمیریوں کے حوصلے تب ٹوٹے جب ایک ریاستی اخبار نے چھاپا ”وزیراعظم پاکستان عمران خان نے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی منظوری دے دی ہے ”مگر وزیراعظم پاکستان عمران خان شاید یہ بھول گئے تھے کہ 84 ہزار 4 سو 71 مربع میل پر پھیلی ہوئی پوری ریاست جموں کشمیر کی حیثیت متنازع ہے۔

وزیراعظم پاکستان کو شاید یہ بھی علم نہیں تھا کہ اب تک مسئلہ کشمیر کے حل کے متعلق اقوام متحدہ میں 23 قراردادیں پاس ہوچکی ہیں اور ان قراردادوں کی حمایت پاکستان عالمی سطح پر کرتا آیا ہے،وزیراعظم عمران خان شاید یہ بھی بھول چکے تھے کہ پاکستان کا آئین بھی کشمیر کی متنازع حیثیت کو مانتا ہے اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے 73 کے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے۔وزیراعظم پاکستان کو شاید یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ گزشتہ سات دہائیوں سے پاکستان کشمیریوں کی وکالت کرتا آیا ہے،اور وکیل کیس لڑتا ہے فیصلہ نہیں کرتا۔

اب رہ گئی بات کشمیر کاز کی تو جناب وزیراعظم کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ 70 سالوں سے جو کشمیری اپنی جان کے نذارنے پیش کر رہے ہیں، اپنی ماؤں بہنوں کی عزتیں لٹا رہے ہیں، اور سینہ چوڑا کرکے آپ کہتے ہیں کہ کشمیری پاکستان کا جھنڈا لے کر شہید ہوتے ہیں اور انہیں پاکستانی پرچم میں دفن کیا جاتا ہے، ان کا کیس آپ کس منہ لڑیں گے؟ کل جب ہندوستان مقبوضہ کشمیر کے کسی حصے یا پورے مقبوضہ کشمیر کو اپنا صوبہ بنانے کا اعلان کرے گا تو کیا جواز ہوگا آپ کے پاس کشمیریوں کے لیے بات کرنے کا؟

وزیراعظم پاکستان یہ بھی بھول گے تھے کہ یہ لڑائی کشمیریوں کے حق خودارادیت کی ہے،اور حق خودارادیت میں عوام نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے، جب آپ کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ کہتے ہیں، آپ اگر جانتے ہیں کشمیری پاکستان سے محبت کرتے ہیں وہ پاکستان کے پرچم میں دفن ہونا پسند کرتے ہیں تو آپ کو جلدی کس بات کی ہے جو آپ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف فیصلہ کرنے چل نکلے تھے؟؟ وزیراعظم پاکستان نے یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ اگر آپ گلگت بلتستان کو صوبہ بنا لیتے اور گلگت بلتستان پاکستان کا ہوجاتا ہے تو 70 سالوں سے جو خون کشمیریوں نے بہایا اس کا کیا ہوگا، پنجہ استبداد سے کشمیریوں کو چھڑانے کے دعوے کا کیا ہوگا؟

آزاد کشمیر کی مہر بہ لب سیاسی قیادت کی بات کریں تو وزیراعظم آزاد کشمیر پہلے ہی متعدد بار یہ کہہ چکے تھے کہ دلہن بیاہ کر لے جائیں، بھگا کے لے جانے نہیں دوں گا تو وزیراعظم آزاد کشمیر کے کہنے پر بیاہ کی تیاری تو ہوچکی تھی، وزیراعظم صاحب کنیادان ادا کرنے کی تیاری میں مصروف تھے۔رہی بات باقی قیادت کی تو ان بیچاروں کے پاس میزبانی تھی نہیں،ہاں ڈولی کو کندھا دینے اور ولیمہ کھانے کی تیاری پوری تھی مگر بدقسمتی سے ڈولی اٹھی اور نہ کھانا نصیب ہوسکا،خدا خدا کرکے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا فیصلہ موخر ہو گیا۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا سلسلہ اسی شدت سے جاری تھا کہ ہندوستان پاکستان کے بہتر تعلقات کے لیے کرتارپور راہدری کی بحالی کے ذریعے کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی، کرتارپور راہدری بہت ہی خوش آئند اقدام ہے، اس سے دو طرفہ بہتر تعلقات کی راہیں ہموار ہوں گی۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات خطے میں امن کی ضمانت ہیں، مگر کچھ سوال کشمیریوں کے ذہن کی دیواروں سے بھی ٹکراتے ہیں وہ سوال یہ ہیں کہ:

گزشتہ سات دہائیوں سے ایک قوم جو اپنی نسلوں کی قربانیاں دے رہی ہے، ظلم و استبداد کے انمٹ نقوش جو بھارتی فوج چھوڑ رہی ہے، کشمیری مائیں بہنیں جو اپنی عزتیں لٹوا رہی ہیں، نوجوان جن کی جوانی کا سورج اپنی چمک دکھانے سے پہلے ہی غروب ہو رہا ہے، شادی کا گھر جہاں ماتم کدہ بن جاتا ہے،دلہن کے ہاتھ کی مہندی سے جہاں خون ٹپکنے لگتا ہے، بوڑھے باپ سے اس کی لاٹھی چھین لی جاتی ہے، مگر یہ قوم پھر بھی تھک نہیں رہی ہے۔
اس قوم کی سات دہائیوں کا حساب کون دے گا۔؟

کرتارپور راہدری بہت اچھی بات ہے، میل جول بڑھے گا مگر اک نگاہ اس کشمیر کی طرف بھی ڈال لیتے،جس کے بارے میں روز پاکستانی میڈیا یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ ”آج بھارتی فوج کے ہاتھوں۔۔۔۔نوجوان شہید، نوجوانوں کو پاکستانی پرچم میں سپرد خاک کیا گیا” کرتارپور پر لڈیاں اور جھپیاِں ڈالتے وقت کچھ تو سوچتے کہ ان کشمیریوں پر کیا گزر رہی ہوگی جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا، ان خاندانوں کا کیا حآَل ہوگا جن میں باپ اس طرف اور بیٹا اس طرف ہے، جہاں ایک طرف جنازہ پڑا ہوتا ہے تو دوسری طرف بیٹا کھڑا دیکھ رہا ہوتا ہے مگر جنازے کو کندھا نہیں دے سکتا، ایک طرف بہن کی ڈولی اٹھ رہی ہوتی ہے دوسری طرف کھڑا بھائی صرف دیکھ سکتا ہے،یہاں بھی فاصلہ صرف ایک لکیر کا ہے، ایک بارڈر ہی پڑتا ہے راستے میں مگر یہ درد کسی کو محسوس نہ ہوا۔

آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا؟ کشمیری مرتے رہیں گے اور مذمتی بیانات جاری ہوتے رہیں گے اورپھر ہندوستان سے بہتر تعلقات کی کاوشیں ہوتی رہی گی؟ کب تک آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت کشمیریوں کو بیوقوف بناتی رہی گی؟ کب تک آزاد کشمیر کے سیاسی قائدین پاکستان سے زیادہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو پوجتے رہیں گے؟ آخر جبر وتشدد کا یہ طوفان کب تک؟؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے