فضل الرحمان ، مدارس اور ختم نبوت

یہ ایجنسیوں کا ہے۔
یہ یہودی ایجنٹ ہے۔
یہ فوج کا آلہ کار ہے۔
یہ پیدوار ہی ایجینسیوں کی ہے۔

ان سب کو تو بنایا ہی اسی لیے گیا ہے تاکہ ہم اقتدار میں نہ آسکیں۔

میں جب بھی مدارس مساجد کی حفاظت کی بات کرتا ہوں تو فورا میرے ہی ہم مکتب ہم فکر لوگوں کو میرے سامنے کھڑا کردیا جاتا ہے ۔تاکہ میں مدارس مساجد کی حفاظت نہ کرسکوں۔مطلب مدارس مساجد کے نام پر سیاست نہ کرسکوں۔

مولانا طارق جمیل صاحب پر ابھی فتوی بازی اور بدخوئی ہوہی رہی تھی کہ اب نشانہ بنیں ہیں جامعہ الرشید کے مہتمم مفتی عبدالرحیم صاحب۔وجہ کہ انہوں نے مولانا طارق جمیل صاحب کا استقبال کیا۔

گویا جامعہ الرشید بھی اب ایجنسیوں کا ادارہ بن گیا۔یہ وہ ادارہ ہے جس پر تمام دیوبند مکتبہ فکر فخر کرتا ہے۔

آج جامعہ دارالعلوم کبیر والا والا جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ جامعہ کی سہ ماہی پیپر ہورہے ہیں۔ مدارس کی ترتیب یہ ہی ہوتی ہے کہ ہفتہ کے دن پیپر شروع ہوتے ہیں جمعرات کو آخری پیپر ہوتاہے.امتحانات کے دنوں میں طلبہ کو صرف پڑھائی پڑھائی اور پڑھائی ہی کی فکر ہوتی اور آج تک ان دنوں میں خاص طور پر کسی پروگرام یا غیر نصابی سرگرمی میں حصہ لینا انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے ۔جامعہ میں اتوار کے روز پیپر باقی ترتیب سے ہٹ کر علی الصبح 7 بجے ہی پیپر کا وقت طے تھا۔

یہ ترتیب دیکھ کر بہت حیران ہوا اور جامعہ کے ایک ذمہ دار سے اس کی وجہ پوچھی تو ان صاحب نے میرا سوال سن کر ٹھنڈی آہ بھری اور کہا کہ اس دن مظفرگڑھ میں ملین مارچ ہے ۔میں نے کہا مدارس کا ہے کہا نہیں سیاسی ملین مارچ ہے۔لیکن ہے دینی ایشو پر ۔میں نے کہا ایسا کون سا ایشو آگیا ہے کہ جس پر ملین مارچ کی ضرورت پڑگئی ۔کہنے لگے ختم نبوت کے حوالے سےہے۔میں نے کہا ختم نبوت کا تو اب کوئی ایشو ہے ہی نہیں۔اصل ایشو نواز شریف دور میں تھا جب قانون بدلنا چاہا تھا۔

کہنے لگے نہیں اس وقت کا تو ہمیں نہیں پتا اب سنا ہے کہ ختم نبوت کو خطرہ ہے۔

ہاں دوسرا مدارس کے خلاف بھی سازش ہورہی ہے تو اس لیے مدرسے والوں کو نکلنا چاہیے۔

میں نے کہا حضرت مدارس کے خلاف اور علماء کے خلاف اب کیا ہوا ہے۔علماء اور اہل مدارس کو تو سابقہ حکومت نے ذلیل کیا ہے۔اسی دارالعلوم کبیر والا میں پولیس نے جس قدر تضحیک آمیز رویہ اپنایا ۔ طلبہ کے سامنے اساتذہ کی تذلیل کی۔ مدارس پر چھاپے مارے گئے۔طلبہ کو گرفتار کیا گیا۔علماء کو فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا جھوٹے مقدمات بنائے گئے ابھی تک اس حکومت نے تو ایسا کچھ نہیں کیا تو پھر یہ ملین مارچ ۔احتجاج۔ بیانات یہ سب کچھ سابقہ حکومت کے دور میں کیوں نہیں کیا گیا؟؟

نواز شریف نے تو سیرت کے جلسوں جمعہ کے بیانات۔حتی کہ آذان اسپیکر پر دینے کی بھی پابندی لگا دی تھی اس وقت کیوں نہیں نکلے۔

تو وہ صاحب فرمانے لگے دراصل اس وقت مولانا فضل الرحمن صاحب حکومت میں شامل تھے۔آج اگر مدارس اور مساجد موجود ہیں تو یہ مولانا فضل الرحمن صاحب کی وجہ سے ہیں۔ورنہ آج دین و اسلام کا نام لینا محال ہوجاتا۔اب تمام علماء کا باہر نکلنا اس لیے ضروری ہے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب حکومت میں نہیں ہیں اور یہ حکومت یہودی ایجنٹس کی ہے قادیانیوں کے آلہ کار کی ہے۔میں نے کہا حضرت اس حکومت نے پہلی بار سرکاری سطح پر ختم نبوت کانفرنس منعقد کی ہے۔جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔کہنے لگے اس میں مولانا فضل الرحمن کو کیوں نہیں بلایا گیا؟؟

میں نے کہا جی یہ بات درست ہے ۔اور خیال رہے کہ ملیں مارچ میں مدارس کی شرکت اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے پہلے جہادی تنظیمیں۔مسلکی تنظیمیں ۔اور وہ سیاسی مذہبی جماعتیں جو مولانا کی پالیسیوں پر عمل پیرا نہیں ہیں۔مولانا طارق جمیل۔مفتی عبدالرحیم ۔جامعہ الرشید یہ سب اسٹیبلشمنٹ کی ایجاد اور ایجنسیوں کے آلہ کار بنائے جاچکے ہیں اگر مدارس نے شرکت نہ کی تو مدارس پر بھی یہی فتوی لگایا جائے گا کہ حکومت نے مدارس اس لیے بنائے تاکہ میں وزیراعظم نہ بن سکوں ۔

ایک سیٹ کا نہ ملنا ۔اچھے بھلے بندے کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے