شادیوں کا موسم

ہفتہ عشرہ پہلے تک پورے ملک میں شادیوں کی اس قدر بھرمار تھی کہ خربوزے کو دیکھ کر بلکہ خربوزوں کو دیکھ کر خربوزے رنگ پکڑنے لگے تھے یعنی اچھے خاصے شرفاء کو میں نے دیکھا کہ شادی کے بارے میں سوچ رہے ہیں بلکہ ایک بزرگوار نے مجھ سے کہا ’’عزیزم بڑھاپے میں انسان کو ’’رفیق کار‘‘ کی نہیں رفیق حیات کی ضرورت ہوتی ہےچنانچہ اگر تمہاری نظروں میں کوئی مناسب سا رشتہ ہو تو بتانا مگر عمر پچاس برس سے کم نہیں ہونی چاہیے۔

میں جانتا تھا کہ مرد تو ستر برس کی عمر میں بھی شادی کرلیتے ہیں مگر خواتین پچاس کے سن میں عموماً اس قسم کے اقدام سے گریز کرتی ہیں چنانچہ میں نے عرض کیا کہ عمر کی یہ شرط شاید پوری نہ ہوسکے۔ چنانچہ اگر آپ مناسب سمجھیں تو پچیس پچیس برس کے دو رشتے تلاش کرلئے جائیں!یہ سن کر بزرگوار نے تحسین بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا۔ برخوردار میں جانتا ہوں تم جوفیصلہ بھی کرو گے وہ مثبت اور صحیح ہوگا لہٰذا مجھ سے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں جو مناسب سمجھو کرو۔

یہ درمیان میں بزرگوار موصوف یونہی آن ٹپکے حالانکہ یہ کالم میں ’’ضرورت رشتہ‘‘ کے حوالے سے لکھنے نہیں بیٹھا بلکہ میں کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ اگرچہ ان دنوں شادیوں کا زور قدرے ٹوٹا ہے مگر پھر بھی کافی زور ہے آئے روز کسی نہ کسی شادی میں شرکت کرنا پڑتی ہے اور ’’منہ دکھائی‘‘ دیتے ہوئے ایسے ایسے منہ دیکھنے پڑتے ہیں جنہیں ’’دُرفٹے منہ‘‘ کہا جاتا ہے ایک دو لہا کو ’’منہ دکھائی ‘‘ دیتےہوئے تو میں نےیہ شرط عائد کی کہ وہ اپنے رخ زیبا سےسہرا نہیں ہٹائے گا کیونکہ موصوف کے ماتھے اور سر میں کوئی حدِ فاصل نہیں تھی۔ بس ایک ’’رڑا میدان‘‘تھا جو کسی کام کا نہیں تھا بلکہ اسے نرا صابن کا خرچہ سمجھا جاتا ہے۔ منہ دھوتے ہوئے سر بھی ساتھ دھونا پڑتا ہے، مجھے سہروں میں لپٹے ہوئے دولہا اچھے نہیں لگتے مگر اس روز محسوس ہوا کہ سہرا تو’’ستار العیوب‘‘ہے۔

ایک اور اسی قسم کے دولہا سے ان دنوں میری ملاقات ہوئی۔ موصوف بہت خوش نظر آتے تھے۔ میں نے کہا ماشا اللہ تم تو بہت خوش ہو مگر فریقِ مخالف کا کیا حال ہے؟ کہنے لگے’’وہ مجھ سے زیادہ خوش ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’وہ کیسے؟‘‘ بولے ’’ وہ ایسے کہ تم نے مجھے دیکھا ہے اسے نہیں دیکھا۔‘‘ مجھے یہ دولہا میاں اپنی سپورٹس مین شپ کی وجہ سے اچھے لگے اور مجھے اس امر کی خوشی ہوئی کہ شادی کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے ان کی حسِ ظرافت برقرار رکھی ہے ورنہ ہمارے ہاں حسِ ظرافت کا مظاہرہ بس اتنا ہی کیا جاتا ہے کہ شادی کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے۔

انہی دنوں ایک اور ’’نوگرفتار‘‘ سے میری ملاقات ہوئی موصوف اپنی رجائیت کے حوالے سے ’’مسٹر چیئرفل‘‘ واقع ہوئے ہیں وہی ’’مسٹر چیئرفل‘‘ جن کا ایک پائوں کٹ گیا تھا اور وہ اس امر پر بہت خوش تھے کہ آئندہ انہیں دونوں پائوں کی بجائے صرف ایک پائوں میں جوتا پہننا پڑے گا چنانچہ میں نے انہیں راستے میں روک لیا اور پوچھا کہ شادی کے تجربے سے گزرنے کے بعد آپ کا شادی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کہنے لگے ، دوسری شادی کے بارے میں؟ میں ان کے اس سوال پر سٹپٹا گیا اور کہا ’’نہیں میاں میرا مطلب یہ ہے کہ شادی کرنا کیسا تجربہ ہے؟‘‘ بولے بہت اچھا تجریہ ہے، میرے خیال میں ہر اس شخص کو شادی کرنا چاہیے جو شادی کے علاوہ کچھ نہ کرسکتا ہو۔

کیا مطلب؟

مطلب یہ کہ جس طرح نابینا حضرات کو کوئی اور کام نہ ملے تو وہ کسی مسجد کے ’’خادم‘‘ بن جاتے ہیں۔ بی اے پاس کو دفتر میں نوکری نہ ملے تو وہ اسکول ٹیچر ہو جاتے ہیں، اور ان دنوں کسی کو نان میڈیکل میں داخلہ نہ ملے تو وہ روس وغیرہ سے میڈیکل کی ڈگری لے آتاہے۔اسی طرح اگر کوئی شخص زندگی میں جو کام کرنا چاہتا ہے وہ نہ کر سکے تو اسے شادی کرنا چاہیے اس کے بہت فائدے ہیں۔

مثلاً کیا فائدے ہیں؟ میں نے پوچھا۔

مثلاً یہ کہ سست سے سست انسان کو بھی سیر کی عادت پڑ جاتی ہے چنانچہ وہ شادی کے اگلے مہینے گھر پر بیٹھنے کی بجائے صبح کے ناشتے سے پہلے دوپہر کے کھانے اور ہر رات کے کھانے کے بعد سیر کرنے کے لئے گھر سے نکل جاتا ہے اس سے اس کی صحت ٹھیک رہتی ہے کیونکہ ماہرین طب کے مطابق انسان کوزیادہ سے زیادہ وقت کھلی فضائوں میں گزارنا چاہیے۔

بالکل ٹھیک ہے اس کے علاوہ کوئی اور فائدہ؟

فی الحال تو یہی ایک فائدہ سوجھا ہے ویسے بھی میں رجائیت پسند ضرور ہوں مگر اتنا نہیں جتنا تم سمجھ بیٹھے ہو۔

تاہم شادی کے حوالے سے کئے گئے سروے کے نتیجے میں جو ایک بالکل نیا نکتہ سامنے آیا ہے کہ آخر میں اس کا بیان ضروری ہے۔ یہ نکتہ بھی میں نے ایک دولہا کے منہ سے براہ راست سنا ہے چنانچہ اسے ’’فرام ہارسز مائوتھ‘‘ کہا جاسکتا ہے ۔ ہمارے اس دولہا دوست کا کہنا ہے کہ شادیوں کے مواقع پر دیئے گئے تحائف اور سیاسی جماعتوں کے وعدے وعید کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہونے چاہئیں۔ میں اس ان مل بے جوڑ قسم کے بیان پر حیران ہوا تو اس نے کہا ’’حیرانی کی کوئی بات نہیں دراصل بات یہ ہے کہ میری شادی کے موقع پر جو تحائف موصول ہوئے تو پتہ چلا کہ ایک ایک آئٹم کثیر تعداد میں موصول ہوگئی ہے

مثلاً 16استریاں، 23ٹی سیٹ،54 پارکر کے پین، 68پرفیومز، 150 سوٹ اور اسی طرح کی دوسری چیزیں اتنی تعداد میں موصول ہوئیں کہ اب اتنی ساری چیزیں میرے کسی کام کی نہیں سوائے اس کے کہ میں جنرل اسٹور کھول لوں۔ جب کہ یہی کام اگر منصوبہ بندی کے تحت ہوتا تو میں اس وقت تم ایسے چپڑقناتیئے سے سیدھے منہ بات نہ کرتا۔مجھے گھوڑے جیسے منہ والے اس دولہا کی بات پر غصہ تو بہت آیا مگر میں نے خود پر قابو پاتے ہوئے پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘ اس نے جواب میں بس ایک جملہ کہا ’’ان بے غیرتوں کو نقد سلامی دیتے ہوئے موت پڑتی تھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے