سانحہ مشرقی پاکستان ۔۔۔ معاشی استحصال ، کتنی حقیقت کتنا فسانہ؟

مشرقی پاکستان کے معاشی استحصال کی بہت بات کی جاتی ہے اور شیخ مجیب الرحمن کا یہ فقرہ قول فیصل بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ ’’ مجھے اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آ تی ہے‘‘۔ ایک ایسا تاثر قائم کر دیا گیا ہے گویا قیام پاکستان سے لے کر 1947 تک مشرقی پاکستان میں تو سرے سے کوئی ترقی ہوئی ہی نہیں تھی اور وہاں کے جو تھوڑے بہت وسائل تھے وہ بھی لوٹ کر مغربی پاکستان میں صرف کیے گئے ۔ آئیے ان دونوں پہلوؤں پر بات کر لیتے ہیں ۔

سب سے پہلے تو یہ دیکھ لیجیے کہ 1947 میں مشرقی پاکستان کی حالت کیا تھی اور 1971 میں جب وہ ہم سے الگ ہوا تب وہ کیسا تھا ؟ قیام پاکستان سے قبل مشرقی پاکستان یعنی مشرقی بنگال کی معاشی حالت خاصی خراب تھی ۔ مغربی بنگال جو بعد میں بھارت کا حصہ بنا معاشی طور پر کہیں زیادہ بہتر تھا ۔ سہروردی نے اسی لیے متحدہ بنگال کی کوشش کی تھی کہ انہیں معلوم تھا کہ کول مائنز سے لے کر پٹ سن کی ملوں تک معاشی امکانات تو مغربی بنگال میں ہیں اور مشرقی بنگال کے پاس تو کچھ بھی نہیں ۔

مشرقی بنگال یعنی بنگلہ دیش کی اس وقت حالت تھی کہ وہاں ایک اندسٹری تک نہیں تھی ۔ معیشت کا مکمل انحصار زرعی اشیاء پر تھا یا پھر مچھلی پر۔ خام مال کلکتہ جاتا اور وہاں کی انڈسٹری میں استعمال ہوتا تھا ۔ پاکستان بننے کے بعد خام مال مشرقی پاکستان میں رہ گیا اور اندسٹری بھارت کے مغربی بنگال میں چلی گئی۔اس سے معاشی مسائل پیدا ہوئے ۔ مغربی بنگال کا کلکتہ بہت آگے تھا اور مشرقی بنگال کا ڈھاکہ بہت پیچھے تھا ۔ جب پاکستان بنا تو ڈھاکہ صرف ایک ضلعی ہیڈ کوارٹر تھا اور وہاں پر محض وہ سہولیات تھیں جو ایک ضلع میں ہوتی ہیں ۔ مشرقی بنگال کے دولت مندوں کا رخ مغربی بنگال کے شہر کلکتہ کی جانب تھا۔

قیام پاکستان کے دو سال بعد 1949 میں چٹا گانگ میں ’’ چٹا گانگ ٹی آکشن‘‘ قائم کیا گیاتا کہ مشرقی پاکستان کے کسان کو اپنی چائے کی بہتر مارکیٹ مل سکے۔ چائے اس وقت مشرقی پاکستان کی زراعت میں نمایاں حیثیت رکھتی تھی ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ 70 سال پہلے بننے والے اس ٹی آکشن کو اب بھی بنگلہ دیش کا کاروباری مرکز کہا جاتا ہے ۔ پٹ سن کے حوالے سے بہت کام ہوا ۔

قیام پاکستان کے وقت مغربی بنگال پٹ سن انڈسٹری میں بہت آگے تھا ، پٹ سن کی ساری ملیں بھارت میں رہ گئیں اور مشرقی پاکستان میں ایک بھی نہ تھی لیکن صرف پانچ سالوں میں مشرقی پاکستان نے مغربی بنگال کو پیچھے چھوڑ دیا اور پٹ سن میں دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری بنگلہ دیش میں تھی ۔ 1955 میں مشرقی پاکستان میں قدرتی گیس کے ذخائر دریافت کر لیے گئے ۔ 1959 میں وہاں گیس کا صنعتی استعمال شروع ہو چکا تھا ۔ 1964 میں یہ صورت حال تھی کہ پاکستان پٹرولیم نے نصف درجن سے زائد گیس فیلڈز سے گیس نکالنا شروع کر دی تھی ۔ پاکستان نیشنل آئل کاہیڈ آفس بھی کراچی میں نہیں بلکہ چٹا گانگ میں تھا ۔ 1957 میں دریائے کرنافلی پر کپتئی ڈیم پر کام شروع ہو چکا تھا ۔1962 میں اس ڈیم نے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔

چٹا گانگ میں 1956 میں پہلی سٹیل مل کام کرنا شروع کر چکی تھی ۔ یہ پاکستان کی پہلی سٹیل مل تھی ۔ کراچی کی سٹیل مل بہت بعد کی بات ہے۔ کسی نے نہیں کہا کہ یہ مل چٹا گانگ میں کیوں لگا رہے ہو کراچی میں لگاؤ ۔ چٹا گانگ آئل ریفائنری 1963میں قائم ہوئی ۔ یہ واحد آئل ریفائنری ہے جو بنگلہ دیش کی اپنی ملکیت ہے۔کچھ دن پہلے حسینہ واجد نے بڑے طنطنے سے بنگلہ دیش اکیدمی فار رورل ڈیویلپمنٹ کا زکر کیا ، ہمیں معلوم ہونا چاہیے یہ اکیڈمی 1959 میں بنی تھی ، بنگلہ دیش نے صرف اس کا نام ہی بدلا ہے ۔

اس کے روح رواں مرحوم اختر حمیید خان تھے جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے نہیں تھا ۔ چٹاگانگ پورٹ ٹرسٹ 1960 میں قائم ہوا اور پورٹ میں جد ت لائی گئی ۔ شاہ جلال ایر پورٹ سے پہلے بنگہ دیش کا واحد انٹر نیشنل ائر پورٹ تیجگان ائر پورٹ تھا جسے 1960میں حکومت پاکستان نے باقاعدہ انٹر نیشنل ائر پورٹ کی شکل دی ۔ بنگلہ دیش میرین اکیڈمی فار ٹریننگ مرچنٹ شپس ایوب دور میں بنی ۔ بنگلہ دیش کی موجودہ پارلیمنٹ کی عمارت کا سنگ بنیاد بھی ایوب خان کے دور میں رکھا گیا تاکہ اسلام آباد کے ساتھ ڈھاکہ کو دوسرا دارالھکومت قرار دیا جا سکے۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مشرقی پاکستان میں ہونے سرمایہ کاری کا بڑا حصہ مغربی پاکستان کے تاجروں کا تھا ۔ شیخ مجیب نے اپنے نکات میں تو یہ کہہ دیا کہ ایک حصے سے سرمایہ دوسرے حصے میں آزادانہ نہ جا ئے اور اسی کو بعد میں اقوال زریں بنا دیا گیا لیکن یہ بات کسی کو معلوم نہیں کہ مشرقی پاکستان میں سرمایہ کاری میں زیادہ حصہ مغربی پاکستان کے بنکوں سے گیا ۔ نرائن گنج میں پٹ سن کی سب سے بڑی فیکٹری آدم جی گروپ نے لگائی جس کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا ۔

قیام پاکستان کے وقت جس مشرقی بنگال کا معاشی طور پر بہت برا حال تھا پاکستان بننے کے بعد 1960 میں وہاں اتنی بہتری ضرور ہو چکی تھی کہ پاکستان کی کل ایکسپورٹ کا 70 فیصد وہاں سے آ رہا تھا ۔ کہاں وہ وقت کہ سہروردی معاشی خوف سے یہ کہہ رہے تھے مشرقی بنگال مغربی بنگال سے الگ ہوا تو تباہ ہو جائے گا کیونکہ معاشی امکانات تو سب مغربی بنگال کے کلکتہ میں ہیں اور پھر کہاں یہ وقت کہ مشرقی پاکستان کی معاشی ترقی نے مجیب الرحمن کو یہ کہنے پر مجبور کر دیاکہ مشرقی پاکستان اب اپنے فارن اکاؤنٹس الگ کرنا چاہتا ہے۔ مغربی پاکستان نے بہت غلطیاں کی ہوں گی لیکن اتنا تو سوچیے کہ یہ تبدیلی کیسے آ گئی؟

بجا طور پر،ہر گز یہ کوئی مثالی صورت حال نہیں تھی ۔ لیکن مغربی پاکستان میں بھی دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں ۔ شیخ مجیب الرحمن کو اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آ تی تھی تو یہ اس بات کا اعتراف بھی تھا کہ مغربی پاکستان میں معیشت کے ایسے کوئی گلاب نہیں کھل رہے تھے جن کی خوشبو سے اسلام آباد مہک اٹھتا ۔ یہ مشرقی پاکستان کی پٹ سن ہی تھی جس کی خوشبو مغربی پاکستان میں بھی آ رہی تھی ۔ مجیب الرحمن کو اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو تو آ گئی لیکن انہیں مشرقی پاکستان کی پٹ سن انڈسٹری میں مغربی پاکستان کے تاجروں کے سرمائے کی بو کبھی نہ آ سکی۔

وسائل کی تقسیم کے جائز شکوے ہو سکتے ہیں ۔ لیکن یہ شکوے صوبوں کے درمیان موجود رہتے ہیں اور گفت و شنید سے حل بھی کر لیے جاتے ہیں ۔ یہ ملک توڑنے کی دلیل اور جواز نہیں بن سکتے۔

( اگلی نشست میں اس بیانیے کے کچھ اور پہلووں پر بات ہو گی، انشاءاللہ)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے