اگر نواز شریف کو پھر جیل ہو گئی تو؟

سپریم کورٹ میں نواز شریف کے خلاف دونوں ریفرنسز کا فیصلہ قریبا اڑتالیس گھنٹے کے بعد بتاریخ چوبیس دسمبر کو سنایا جائے گا۔ فیصلے کے بارے میں کوئی پیش گوئی مناسب نہیں لیکن حق اور مخالفت کے بارے میں رائے ضرور قائم کی جا سکتی ہے۔ دو ہی ممکن صورت حال ہیں ۔ دونوں کے اپنے اپنے اپنے مضمرات اور ثمرات ہیں۔ اس وقت نواز شریف اور مسلم لیگ کو عوام کی ہمدردی حاصل ہے۔ عوام کا ایک بڑا طبقہ اس کاروائی کو سیاسی انتقام کی صورت میں دیکھتا ہے۔

چونکہ اس طرح کے سیاسی انتقام کی تاریخ پہلے بھی ہمارے ہاں موجود ہے اس لیئے وہ تمام لوگ جنہوں نے مسلم لیگ ن کو ووٹ دیا اور ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر منتخب کیا وہ اس احتسابی عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ اس شبہ میں غصے کا عنصر موجودہ حکومت کی ایک سو بیس روزہ کارکردگی نے شامل کر دیا ہے۔ غربت کے مارے لوگوں کو جب مہنگائی میں سے مزید کچلا جائے گا تو بات غصے سے شروع ہو کر انتقام تک پہنچ سکتی ہے۔

دوسری جانب پانامہ کیس پر جسطرح میڈیا نے گذشتہ دو سال تماشہ لگائے رکھا ہے اس سے لگتا ہے کہ میڈیا ٹرائل اپنے مقاصد میں کامیاب ہو رہا ہے۔ تین دفعہ کے منتخب وزیر اعظم کو عدالتوں میں در بدر ہوتے دیکھ کر بہت سے کلیجے ٹھنڈے بھی ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کا بیانہ بہت سے دلوں میں گھر بھی کر چکا ہے۔ ایک بڑی تعداد پاکستان کے مسائل کی جڑ کرپشن کو سمجھ چکی ہے۔ بادشاہت کے خلاف نعرے انکے دل میں اتر چکے ہیں۔ مورثی سیاست کی چیرہ دستیاں انکو ہر طرف نظر ا رہی ہیں۔ لندن کے چار فلیٹ ستر سال سے پاکستان کی ترقی میں حائل نطر آ رہے ہیں۔ بے شمار لوگوں کو ہر ملکی اور ریاستی ناکامی کے پیچھے کرپشن ہی نظر ا رہی ہے۔ نواز شریف کی سزا میں بہت سے لوگوں کو تمام ملکی مسائل کا حل نظر آ رہا ہے۔

ایک جانب سیاسی انتقام کا نعرہ زور پکڑ رہا ہے۔ آصف زرادری کے خلاف حالیہ کیسز بھی لوگ اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان اور کابینہ تمام وقت چور ، ڈاکو اور لٹیرے کا راگ الاپ رہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ انکی اپنی جماعت میں بہت سے ایسے افراد موجود ہیں جن کے اپنے کیس التوا ء میں ہیں وہ بھی اسی شد و مد سے اپوزیشن پر طعنہ زن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے تجزیہ کار اس صورت حال کو سیاسی انتقام قرار دے رہیں۔ اگر حمکران جماعت کے ساتھ بھی انصاف اور احتساب کا یہی وطیرہ رہتا تواسطرح کی کارواَئی کو شائد ہی کوئی سیاسی انتقام کہتا۔ لیکن جب کبھی احتساب یکطرفہ ہو گا انتقام کہلائے گا ۔ اسے کبھی بھی انصاف کے زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔

سیاسی جماعتوں کے ساتھ سیاسی انتقام کی روایت بہت پرانی ہے۔ کبھی اس میں آمروں نے اپنا کردار ادا کیا اور کبھی سیاسی جماعتیں خود اس کھیل میں شامل رہیں۔ اگر آپ کو انیس سو اٹھاسی سے انیس سو ستانوے کا دور یاد ہے تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ یہی کھیل کھیلتی رہی ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بنتے رہے، کرپشن کے فائلیں کھلتی رہیں، ذاتی حملے کیئے گئے، عدل کے نظام کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ گرفتاریوں اور پیشیاں ہوتی رہیں۔ جیلیں اور نظر بندیاں مقدر بنتی رہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود لوگوں نے اپنی اپنی پارٹیوں سے وفا کا سلسلہ جاری رکھا ۔ کرپشن کے بیانئیے نے انکی مقبولیت پر کچھ خاص اثر نہیں ڈالا۔

جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دور آمریت میں ذوالفقار علی بھٹو پر کون سا الزام تھا جو نہیں لگا۔ کرپشن ۔ کفر اور غداری سب کے الزام لگے۔ پارٹی ورکروں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ پارٹی لیڈر کو پھانسی دے دی گئی۔ سیاسی کارکنوں کو سرعام کوڑے مارے گئے۔ پیپلز پارٹی کے متوالوں پر ملازمتوں کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ ہر ہر طریقے سے سیاسی انتقام لیا گیا۔ لیکن انیس سو اٹھاسی میں وہی پارٹی جس کو نیست و نابود کرنے کا عزم گیارہ سال تسلسل سے کیا گیا وہی پارٹی پوری شان و شوکت کے ساتھ برسر اقتدار آ گئی۔ اس زمانے میں بے نظیر بھٹو کا لاہور کا جلسہ اب تک پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کہلاتا ہے۔ اس ایک جلسے نے گیارہ سالہ سیاسی انتقام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

اب بھی تاریخ اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے۔ عمران خان اسی رستے پر گامزن ہیں جس پر ہم پہلے بھی رسوا ہو چکے ہیں۔ جسطرح حالیہ وزراء کرام نیب کی کاروائی کے بارے میں پہلے خبر دے دیتے ہیں اسی طرح اس ادارے پر لوگوں کا اعتماد متزلزل ہو رہا ہے۔ کرپشن کے مسلسل الزامات کے سوا حکومت کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ نفرت کی سیاست کے سوا کوئی کاروائی نظر نہیں آ رہی۔ اگر حکومت کی اپنی کارکردگی بہتر ہوتی تو شائد نواز شریف مخالف فیصلوں کا عوام پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لیکن روز بروز لوگوں پر یہ واضح ہوتا ہو جارہا ہے کہ دو سال پہلے یہ ملک کچھ اور تھا اور دو سال میں کیا کچھ بدل گیا ہے۔

دو سال پہلے یہی ملک تھا جہاں ترقی کے منصوبوں کا آئے روز افتتاح ہو رہا تھا۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہو رہی تھی۔ ڈالر کی قیمت قابو میں تھی۔ سٹاک مارکیٹ بہتر ہو رہی تھی۔ ریلوے کا نظام بہتر ہو رہا تھا۔ اور دو سال کے قلیل عرصی میں حالت یہ ہو گئی ہے کہ سٹاک مارکیٹ ہر روز کریش کر رہی ہے۔ ڈالر کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ دنیا بھر سے بھیک مانگی جا رہی ہے۔ شیلٹر ہوم کے نام پر لوگوں میں رضائیاں تقسیم کرنے کو ترقی کی طرف اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی تلوار ہر وقت سر پر لٹک رہی ہے۔ ترقیاتی فنڈ روک کر ترقی کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ حکومت کے جانب سے اس ابتر کاروائی کے جواب میں صرف اور صرف ماضی کی حکومتوں کی کرپشن کا نعرہ لگا یا جا رہا ہے۔اس نعرے سے عوام کی تشفی ممکن نظر نہیں آ رہی۔

اس صورت حال اور تاریخ میں نواز شریف کے خلاف اگر عداتی فیصلہ اتا ہے تو اس کا سراسر فائدہ مسلم لیگ ن کو پہنچے گا۔ ہمدردی کا ووٹ جب بھی موقع ملا انہی کو ملے گا۔ نواز شریف کا قد پہلے سے بڑا ہوگا۔ سیاسی قائدین کو جیل ہمیشہ راس آتی ہے۔ اس سے انکی سیاسی ساکھ مضبوط ہوتی ہے۔ عوام کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہوتی ہیں۔ لوگ انکی رہائی کے منتظر رہتے ہیں۔ دہائیوں انکے استقبال کی تیاریاں کرتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب اگر فیصلہ نوز شریف کے حق میں اتا ہے اور انکو تمام تر الزامات سے بری کر دیا جاتا ہے تو اس سے بھی نواز شریف کو اخلاقی برتری حاصل ہو گی۔ کرپشن کا جو بیانیہ انکے خلاف بنایا گیا وہ پل بھر میں پاش پاش ہو جائے گا۔ نواز شریف کو دونوں صورتوں میں اخلاقی برتری حاصل ہو گی۔ اب فیصلے کا انتظار ہے ۔ دیکھیئے کہانی کہاں پر رکتی ہے۔ یاد رکھنے کی بات صرف اتنی ہے کہ سیاسی قوتوں کا خاتمہ اس ملک میں عدالتی فیصلوں سے نہیں ہوتا۔

کرپشن کے ان گنت الزامات عوام پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ سیاسی قوتوں کو عوام کی طاقت ہی ختم کر سکتی ہے۔ عوام کے ووٹ ہی ان کا قلع قمع کر سکتے ہیں۔ انتخابات سیاستدانوں کے ٹرائل کا سب سے درست ذریعہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو خود سوچیئے کہ بھٹو آج تک زندہ کیسے ہوتا۔ عوامی لیڈروں کا احتساب عدالتیں نہیں عوام کرتے ہیں۔ عوامی منشاء فیصلہ کرتی ہے کون مجرم ہے اور کون بے قصور ۔ کون ظالم ہے اور کون مظلوم ۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں عوامی فیصلہ سنانے اور سننے میں تاخیر تو ضرور ہوتی ہے لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے عوام اپنا فیصلہ سنا کر ہی رہتے ہیں چاہے اس کے لیئے ان کو دہائیوں انتظار کرنا پڑے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے