دسمبر کا تیسرا ہفتہ

یوں تو ہر آنے اور گزرنے والا دن اپنی جگہ ایک پوری دنیا ہوتا ہے لیکن ذاتی اور بعض اوقات اجتماعی حوالوں سے کچھ دن اگر سنگ میل نہیں تو ایک مستقل حوالہ ضرور بن جاتے ہیں اور اگر اس طرح کے دن کسی چھوٹے سے دورانیے میں ایک ساتھ جمع ہو جائیں تو معاملہ اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں بھی عیسوی کیلنڈر رائج ہے وہاں کی زندگی، ادب، معاشرت اور محاوروں میں ایک سال کے اختتام اور دوسرے کے آغاز سے متعلق طرح طرح سے اظہار خیال کیا گیا ہے۔

انبساط انگیز خواہش میں بدلتا ہوا موسم اور جدائی کے دشت افسوس میں تحلیل ہوتے ہوئے شب و روز ایک ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر آئندہ چند دنوں میں اردو دنیا کی حد تک عرش صدیقی مرحوم کی نظم ’’اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے‘‘ اور میرے ایک شعری اظہار ’’دسمبر کے آخری چند دن‘‘ کا بالخصوص سوشل میڈیا پر حسب معمول بہت تذکرہ ہو گا۔ دیکھا جائے تو یہ دونوں بھی اصل میں اسی خواہش اور جدائی کے ہی منظر نامے ہیں۔

ذاتی سطح پر بھی دیکھا جائے تو اس مہینے میں ہمارے علاقوں میں اموات کا تناسب بڑھ جاتا ہے جس کی ایک وجہ موسم کی سختی بھی ہوسکتی ہے کہ بہت سے عمر رسیدہ لوگ اس کا مقابلہ نہیں کر پاتے لیکن جب ہم وطن عزیز کی تاریخ کے حوالے سے اس مہینے پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کا کم و بیش ہر ہفتہ ہمیں کچھ ایسے واقعات کی یاد دلاتا ہے جن کے اثرات نہ صرف بہت گہرے اور دیرپا ہیں بلکہ ان کی شدت اور طاقت اتنی ہے کہ ہر جگہ ہماری تاریخ ایک نیا موڑ لیتے نظر آتی ہے۔

اب دسمبر کے اس تیسرے ہفتے کو ہی لے لیجیے اس کے دوران رونما ہونے والے کم از کم تین واقعات ایسے ہیں جو ہماری قومی تاریخ میں ایک نئی تبدیلی اور انقلاب کا پیشہ خیمہ ثابت ہوئے۔ ان میں سے دو یعنی سقوط ڈھاکا اور عوامی اقتدار کا آغاز ایک ہی سال یعنی 1971 میں رونما ہوئے جب کہ تیسرا جسے ہم سانحہ پشاور یا اے پی ایس کے بچوں کے قتل عام کی نسبت سے جانتے ہیں۔ 2014ء میں رونما ہوا۔ دیکھا جائے تو یہاں بھی ’’جہان تازہ‘‘ اور ’’ماتم یک شہر آرزو‘‘ ساتھ ساتھ چلے آتے ہیں۔

سقوط ڈھاکا کیوں اور کیسے ہوا؟ اس پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے لیکن جہاں تک اس سے کچھ سیکھنے کا سوال ہے تو بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم اور ہمارے سیاستدانوں نے بحیثیت قومی رہنما اس سے وہ سبق نہیں لیے جو ہمیں لینے چاہیے تھے۔ تقسیم کے وقت سرحدوں کے تعین میں جو گڑبڑ اور بے انصافیاں ہوئیں انھیں ایک طرف رکھ دیجیے لاکھوں کی تعداد میں جو لوگ ہجرت کے اس عمل میں اپنی جان و مال سے محروم ہوئے ان کو بھی فی الوقت ایک طرف کر دیجیے اور صرف یہ دیکھیے کہ جن بنیادوں پر ہم نے ایک علیحدہ ملک بنانے کا تقاضا کیا تھا کیا آزادی کے بعد ان کے تقدس کی حفاظت اور ان معاملات پر سنجیدگی اور معاملہ فہمی سے غور و فکر کیا گیا جو بوجوہ توجہ طلب تھے اور عملی طور پر اس جذبے کی حفاظت کی گئی جن سے قومیں اپنا وقار اور تشخص متعین کرتی ہیں۔

14 اگست 1947 کو بننے والے پاکستان کے دونوں حصوں میں بلاشبہ مسلمانوں کی اکثریت تھی اور یہاں کے طرز حیات میں اس کی ایک حد تک اثر پذیری لازمی اور فطری تھی لیکن بدقسمتی سے اس ’’ایک حد‘‘ کا تعین ان لوگوں پر چھوڑ دیا گیا جو سرے سے اس کی صلاحیت اور شعور ہی نہیں رکھتے تھے۔ سو نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے نئے ملک میں مذہبی آزادی کو مسلمانوں تک محدود کیا گیا اور پھر اس کو فرقہ بندی اور مسلک پرستی کے ایک ایسے خار زار میں دھکیل دیا گیا جس کی سب سے زیادہ ضرب مذہب کی رواداری اور خیر کے پہلو پر پڑی اور اب تک پڑ رہی ہے۔ اس کے بعد زبان، معاشرت، مقامی رسم و رواج، انصاف اور تعلیم غرض کہ زندگی کے ہر شعبے میں ایسی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا گیا کہ 16 دسمبر 1971 کو وہ کچھ سامنے آ گیا جس کی ہم اندھا دھند پرورش کرتے چلے آ رہے تھے۔

اس سانحے کے تین چار دن بعد غالباً 20 دسمبر کو بارہ برس کے فوجی اقتدار کے بعد ایک بار پھر بھٹو صاحب کی شکل میں ایک عوامی لیڈر کو سامنے لایا گیا اور کچھ عرصے کے لیے یوں لگا جیسے اب اس ملک سے جاگیردارانہ سیاست اور تنگ نظری کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا۔

اسمبلیوں میں غریب اور متوسط طبقے کے پڑھے لکھے اور شعور زیست کے حامل لوگ پہلی بار اکثریت کی شکل میں نظر آئے اور عوامی انقلاب اور معاشرتی انصاف کے تصور نے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے نعرے کی شکل اختیار کر لی مگر نہ تو یہ نعرہ لگانے والے خود اس عملی صلاحیت میں کمزور تھے جو خوابوں کو حقیقت کی شکل دے سکتی ہے اور نہ ہی ان کے اردگرد کی دنیا اپنے اپنے مفادات کے باعث ان کو اس تبدیلی کا حق اور موقع دینا چاہتی تھی۔

سو یہ عوامی انقلاب بھی چھ برس کے اندر ایک نئے فوجی انقلاب کی نذر ہوگیا۔ اگلے تیس برس میں چھ سویلین حکومتوں اور ایک عدد فوجی دور کے بعد اب جاکر 2018میں ایک بار پھر ایسی صورت حال پیدا ہوئی ہے کہ کچھ لوگ ’’نئے پاکستان‘‘ کی تعمیر کے دعویٰ کے ساتھ آگے آئے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں ہمیں ان میں سے بعض کی انفرادی سطح پر قابلیت اور صلاحیت پر بحث کرنے کے بجائے انھیں کچھ وقت دینا چاہیے اور امید اور دعا کرنی چاہیے کہ عمران خان اور اس کے ساتھی نئی غلطیوں کے ساتھ ساتھ ان غلطیوں سے بھی گریز کرنے کی کامیاب کوشش کریں گے جس نے سقوط ڈھاکا کے بعد موجودہ پاکستان کو اب تک کسی بھی اعتبار سے مستحکم نہیں ہونے دیا۔

اسی طرح دہشت گردی کے طوفان میں جس طرح سے سانحہ اے پی ایس میں شہید ہونے والے بچوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر پوری قوم کو کم از کم اس مسئلے کی حد تک یکدل اور یک جان کردیا ہے۔ یہ جذبہ اور سوچ بھی قائم اور متحرک رہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کے مستقبل کو محفوظ اور ترقی پذیر بناسکیں۔

2018 کے دسمبر کے تیسرے ہفتے میں فن کار علی اعجاز اور سجاد بابر کے بعد اب ایک معروف علمی اور ادبی شخصیت ابصار عبدالعلی بھی ہم سے جدا ہوگئے ہیں۔ ابصار بھائی ایک بہت وضعدار، کم گو اور بالغ نظر انسان تھے۔ ان کے خیالات کی طرح ان کا لباس بھی ہمیشہ صاف ستھرا اور خوش نما ہوتا تھا۔ بچوں کے ادب کے لیے انھوں نے زندگی بھر خاموشی سے اور انتھک کام کیا اور لاہور کی تہذیبی ادبی اور عملی تقریبات میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے۔

جی او آر تھری میں ہم کچھ عرصہ ’’محلہ دار‘‘ بھی رہے اور وہاں بھی ان کا گھر ہمیشہ محفل احباب کا ایک مرکز بنارہتا تھا۔ سو جس طرح ہم رب کریم سے اپنے وطن کے لیے ترقی اور بہتری چاہتے ہیں اسی طرح ابصار عبدالعلی جیسے زندگی اور وطن سے محبت کرنے والوں کی مغفرت کے لیے بھی دست دعا بلند کرنا چاہیے کہ ایسی نیک روحیں تعداد میں ہمیشہ کم ہوتی ہیں اور ان کی موجودگی کسی بھی معاشرے کے لیے برکت کا باعث ہوتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے