کامیوکا نظریہ اور ’’تبدیلی‘‘ کا بنیادی تقاضہ

ٹیلی فون پر لمبی گفتگو سے مجھے کوفت محسوس ہوتی ہے۔ قریبی عزیز اور بے تکلف دوست اس ضمن میں میرے رویے کے عادی ہوچکے ہیں۔ یہ کالم پڑھ کر لیکن کسی نہ کسی طرح میرا فون نمبر ڈھونڈ کر رابطہ کرنے والوں کی کال آجائے تو محتاط ہونا پڑتا ہے۔ یہ فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ بہت خلوص سے رابطہ کرنے والا مجھے سلیبریٹی رعونت کا مارا تصور نہ کرے۔ بات لمبی ہو جائے تو برداشت کر لیتا ہوں۔گزشتہ دوروز کے دوران مگر یہ احتیاط برقرار رکھنا بہت دشوار محسوس ہوا۔ مجھ سے رابطہ کرنے والوں کی اکثریت اس تصویر کے بارے میں بہت پریشان تھی جس میں سرگودھا یونیورسٹی کے لاہور کیمپس سے جڑے چند معاملات کی وجہ سے ایک صاحب کو نیب نے گرفتار کیا تھا۔ تفتیشی مراحل ختم ہوجانے کے بعد جیل بھیج دئیے گئے۔

وہاں دل کا دورہ پڑا۔ جانبرنہ ہو سکے۔ ان کا مردہ جسم بھی لیکن ہتھکڑیوں میں بندھا رہا۔ ہتھکڑیوں میں بندھے جسم کی تصویر سوشل میڈیا پر وائر ہوگئی۔ مجھ سے رابطہ کرنے والے کم از کم تین افراد کا اصرار تھا کہ ہتھکڑی میں بندھے جسم کی یہ تصویر عوام کی اکثریت ہضم نہیں کر پائے گی۔ شاید ویسا ہی ردعمل دیکھنے کو ملے جو 2007کے مارچ میں جنرل مشرف کی سابق چیف جسٹس افتخار چودھری سے ہوئی ملاقات کے بارے میں سرکاری طور پر جاری ہوئی تصویر کی اشاعت کے بعد پھوٹ پڑا تھا۔ میں ’’لگدا تے نئیں پر…‘‘ والا رویہ اپنائے ہوئے کال کے خاتمے کی کوشش کرتا رہا۔ مجھے یہ دعویٰ کرتے ہوئے ہرگز خوشی نہیں ہو رہی ہے کہ میرا سفاکانہ دکھائی دیتا خیال غلط ثابت نہیں ہوا۔ جو فون آئے تھے ان کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوشل میڈیا پر حاوی مباحث کو ذرا غور سے دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

جو وقت میں نے وہاں صرف کیا۔ اس دوران ٹویٹر پر ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت یہ طے کرنے میں مصروف تھی کہ بلال لاشاری نام کے جواں سال فلم ساز نے ’’مولاجٹ‘‘ کے بارے میں جو فلم بنائی ہے وہ پنجاب کی ثقافت کی نمائندہ ہے یا نہیں۔اس کے کردار کچھ لوگوں کی نظر میں رومن تاریخ کے اکھاڑوں یا کرداروں کے مابین معرکہ آرائی کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ بحث اس فلم کے ٹریلر کی ریلیز کے باعث برپا ہوئی میں نے اس ٹریلر کو بھی غور سے دیکھا۔ یاد آیا کہ 1980کے آغاز میں ’’مولاجٹ‘‘ کی شہرت سن کر میں یہ فلم لاہور کے خیام سینما میں دیکھنے کو مجبور ہوگیا تھا۔ مجھے اس فلم نے خاص متاثر نہیں کیا تھا۔

اس کے باوجود اسے ’’گیلری‘‘ میں نہیں نچلے درجے میں بیٹھ کر دوبارہ دیکھا۔ صرف یہ جاننے کے لئے کہ اس فلم نے کھڑکی توڑ رش کیوں لیا۔ میں نے اپنے تئیں جو تھیوری اس وقت ایجاد کی تھی اس کا ذکر آئندہ پر چھوڑتے ہوئے آج کے دورِ احتساب کی طرف لوٹتا ہوں۔ فرانسیسی زبان کا ایک بہت مشہور لکھاری تھا- البرٹ کامیو-دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہٹلر کے جرمنی نے جب اس کے ملک پر قبضہ کرکے وہاں ایک کٹھ پتلی حکومت مسلط کی تو اس کے خلاف مزاحمتی تحریروں سے لوگوں کو بغاوت پر اُکسانے والے مصنفوں کی صف میں کامیو سرفہرست تھا۔

مزاحتمی تحریروں سے بہت شہرت کمالینے کے بعد کامیو نے اپنے "Mature”کہلاتے دور میں لیکن Rebel (باغی) کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کے ذریعے وہ دنیا کی تاریخ میں عظیم کہلاتے’’انقلابوں‘‘ کے بارے میں حیران و پریشان کن سوالات اٹھاتا نظر آیا۔ یوں محسوس ہوا کہ کامیو کے دل دماغ پر حاوی قنوطیت نے اسے امید نامی شے سے بیگانہ کر دیا ہے۔انسان اس کی نظر میں ابدی طور پر بے حس اور حیران کن حد تک سفاک ہے۔ وہ کسی نہ کسی وجہ سے جبر کے شکنجے میں آئے لوگوں پر نازل ہوئی آفتوں سے پریشان نہیں ہوتا۔ ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ توں‘‘والا رویہ۔ جبر کو بہرحال کامیو نے اس کتاب میں بھی ’’جرم‘‘ کہا۔ ’’جرائم‘‘ کو مگر اس نے دو بنیادی خانوں میں تقسیم کردیا۔

جرائم کی ایک قسم کی اس کی دانست میں Crimes of Passion تھے۔Passion کا لفظی ترجمہ عشق، محبت اور جنون ہوسکتا ہے۔ مجھے خبر نہیں کہ کونسا ترجمہ Rebleکے تناظر میںمناسب ہوگا۔اپنی بات کو سمجھانے کے لئے کامیو نے انگریزی کے ایک مشہور ناول Wuthering Heightsکا حوالہ دیا تھا۔ اس کا ہیرو اپنے بچپن میں جاگیردارانہ ظلم وستم کا شکار رہا تھا۔ بالغ ہوا تو اسے جاگیردار کی بیٹی سے عشق ہوگیا۔ اس عشق کی خاطر اس نے دیگر کرداروں پر بے تحاشہ ظلم کئے۔ اس کے رویے کو مگر کامیو نے وحشی ہوئے ایک فرد کا رویہ بتایا۔’’انقلاب‘‘ وغیرہ کے دوران انسانوں کے ایک گروہ کے خلاف ہوئے نارواسلوک کو کامیو نے Crimes of Reason ٹھہرایا۔

ظلم وجبر کی وہ قسم جسے ٹھوس دلائل کے ذریعے اخلاقی جواز مہیا ہوتا ہے۔ میری ناقص رائے میں جن معاملات کو ہمارے ہاں بہت سے لوگ احتساب کے نام پر زیادتی اور ناانصافی ٹھہرا رہے ہیں درحقیقت کامیو کی بیان کردہ اس قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے آزاداور بے باک میڈیا نے ’’کرپشن‘‘ کو اس ملک کا بنیادی مسئلہ ٹھہرا دیا ہے۔

اس کے مکمل خاتمے اور ’’بدعنوانوں‘‘ کو ’’عبرت کا نشان‘‘ بنانے کے وعدے کی بنیاد پر ہمارے ہاں25 جولائی 2018کے انتخابات کے ذریعے ’’تبدیلی‘‘ آئی۔ اس ’’تبدیلی‘‘ کا بنیادی تقاضہ ہے کہ احتساب والے روزانہ چند افراد کو گرفتار کریں اور ان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا جائے کہ آئندہ کسی سیاست دان یا سرکاری افسر کو بدعنوانی کی خواہش محسوس کرتے ہوئے بھی خوف محسوس ہو۔ اس کا دل کانپ جائے۔ فواد چودھری صاحب نے اپنے طنزیہ ٹویٹس کے ذریعے اسی رویے کا اظہار کیا ہے۔سپریم کورٹ کی جانب سے ’’صادق اور امین‘‘ ٹھہرائے راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر بھی درحقیقت شہباز شریف کے بارے میں اپنے حالیہ بیانات کے ذریعے ’’تبدیلی‘‘ کی خواہش سے جڑی بے اطمینانی کا اظہار کررہے ہیں۔

بدعنوانوں کو عبرت کا نشان بنانے کے خواہاں افراد کی بے پناہ اکثریت قاعدہ نمبر105کے تحت رکن اسمبلی کو ملے اس حق کو بھی ہرگز سمجھ نہیں پارہی جس کی وجہ سے شہبازشریف یا خواجہ سعد رفیق کو کرپشن کے الزامات کے تحت نیب کی حراست میں ہوتے ہوئے بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میںشرکت کے لئے اسلام آباد لایا جاتا ہے۔ شہباز شریف کا چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی ہوجانا بھی اس تناظر میں انہیں ہضم نہیں ہوا۔بقول بقراطِ عصر ’’دودھ کی رکھوالی بلّے کو سونپ دی گئی ہے‘‘۔’’تبدیلی‘‘ کو بے چین افراد سوال اٹھارہے ہیں کہ رکن اسمبلی کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیوں نہیں ہورہا جو ایک عام شہری کو معمولی نوعیت کی چوری کے الزام کی صورت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حراست میں بھگتنا ہوتا ہے۔

قانون سب کے لئے مساوی کیوں نہیں ہے۔ ’’دو نہیں ایک پاکستان‘‘ والا عہد یاد کیوں نہیں رکھا جارہا۔ان دنوں کے موسم ِاحتساب میں بدعنوان ٹھہرائے افراد کو عبرت کا نشان بنانے کی خواہش بہت شدید ہے۔اس سے مفرممکن نہیں۔فقط موسم کے بدلنے کا انتظار ہوسکتا ہے جو بسا اوقات طویل تر بھی ہوجایا کرتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے