گرفتاری سے قبل نواز شریف کی احتساب عدالت میں دلچسپ گفتگو

آخر انسان ہوں پتھر کا تو رکھتا نہیں دل
اے بتو اتنا ستاؤ نہ خدارا مجھ کو

ارشد علی خان قلق کا یہ شعر احتساب عدالت سے فیصلہ آنے کے فوری بعد میاں نواز شریف نے کمرہ عدالت میں پڑھا.

احتساب عدالت اسلام آباد کی طرف جانے والے تمام راستے سیل تھے ، صبح تڑکے عدالت جا پہنچا، سیکیورٹی اہلکاروں نے عدالت کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا ، سیکیورٹی اہلکار نے کہا کہ ایک کلو میٹر گھوم کر عدالت کے داخلی گیٹ پر آنا پڑے گا. داخلی دروازے پر پہنچا تو دیکھا کہ میڈیا کے دوست کھڑے تھے جو احاطہ عدالت میں جانے کی تگ و دو کر رہے تھے ، سیکیورٹی اہل کار دیوار بن کے سامنے کھڑے تھے ، ان کے ساتھ اچھی بھلی تو تُکار ہو گئی.

دو گھنٹے کی مغز ماری کے بعد اندر جانے کی اجازت ملی، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سینیٹر مشاہد حسین سید، سینیٹر مشاہد اللہ خان، سردار مہتاب اور دیگر درجنوں لیگی کارکنان کو احاطہ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں ملی ، یہ لوگ باہر سڑک پر گھنٹوں کھڑے رہے .

فیصلے کا وقت دس بجے تھا کہا گیا کہ سیکیورٹی ایشوز کی وجہ فیصلہ دو بجے سنایا جائے گا ، دو بج کر چالیس منٹ پر میاں نواز شریف کمرہ عدالت میں پہنچے،انہوں نے فرداً فرداً کمرہ عدالت میں موجود تمام لوگوں سے ہاتھ ملایا اور ان کی خریت بھی دریافت کی ،کرسی پر بیٹھنے سے قبل بولے ”کیا پتا آج بری ہو رہا ہوں یا سزا ملے گی” ، اس موقع پر سینیٹر پرویز رشید اور مریم اورنگزیب آبدیدہ ہو گئے ،
دو بج کر پنتالیس منٹ پر احتساب جج ارشد ملک مسند انصاف پر بیٹھے، عدالت کی کارروائی شروع ہونے سے قبل سورہ اخلاص تلاوت کی گئی.

فاضل جج نے فیصلہ سنانے میں دو منٹ کا وقت لیا ، وہ وکلاء سے مخاطب ہوئے کہ میاں نواز شریف کو فلیگ شپ میں کوئی ٹھوس شہادت نہ ملنے کی وجہ سے بری کرتا ہوں ، جب جج یہ الفاظ ادا کر رہا تھا تو ان کا چہرہ تمتما رہا تھا مگر اگلے ہی لمحے ان کی آواز لزرنا شروع ہو گئی ، جب انہوں نے کہا کہ العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید اور پانچ ارب روپے جرمانہ کی سزا سناتا ہوں.

فیصلہ آنے کے بعد کمرہ عدالت میں پن ڈراپ خاموشی چھا گئی ، لاہور سے تعلق رکھنے والے اکرام بھٹی پھوٹ پھوٹ کے رو دیے ، میاں نواز شریف نے انہیں حوصلہ دیا اور کہا "بھٹی صاحب کیوں روندے پے او حوصلہ کرو” اس موقع پر انھوں نے کہا

آخر انسان ہوں پتھر کا تو رکھتا نہیں دل
اے بتو اتنا ستاؤ نہ خدارا مجھ کو

قدرے توقف کے بعد میاں نواز شریف بولے کہ میں یہاں آتا تھا کہ میں بری ہو جاؤں گا اور آج مجھے پتہ چلا کہ یہاں تو میں سزا کے لیے آتا تھا.میاں نواز شریف بولے میں جنگ حق پر ہو تو حوصلہ اللہ دیتا ہے عزم بلند ہو تو حق کی جنگ لڑنے کی طاقت اللہ دیتا ہے ، میاں نواز شریف خوشگوار موڈ میں تھے انھوں نے کریم کلر کے سوٹ پر سیاہ ویسکوٹ پہنی ہوئی تھی ، وہ کہہ رہے تھے کہ مجھے کوئی ملال نہیں، میرے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں ، کرپشن نہیں کی ، ملک و قوم کی خدمت کی ہے.

ان سے میں نے سوال کیا کہ اس موقع پر کارکنوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے کہ آگے کیا لائحہ عمل اختیار کریں ، بولے ابھی اس پر بات نہیں کروں گا ، میرا اثاثہ میرے کارکن ہیں ، پارٹی کی سینئر لیڈرشپ ہے جو مشکل وقت میں میرے ساتھ کھڑے رہے ، قافلہ رکا نہیں جھکا نہیں چلتا رہے گا.

انہوں نے اپنی شریک حیات کا ذکر بھی کیا اور وہ آبدیدہ ہو گئے کہ مجھے افسوس ہے کہ آخری وقت میں ان کے ساتھ نہیں تھا ، میری ماں پچاسی سال کی ہیں ، وہ پریشان تھیں، اس لیے آج مریم نواز کو احتساب عدالت آنے سے روکا، کمرہ عدالت میں میاں نواز شریف نے پچاس کی دہائی کی فلموں کا اور ان کے گانوں کا بھی تذکرہ کیا ، نیب اہلکاروں نے جب انھیں کہا کہ چلتے ہیں میاں صاحب تو انھوں نے کہا کہ چلیں گاڑی آپ کے پاس ہے یا میری گاڑی میں چلیں؟

میاں نواز شریف نے میڈیا کا خاص شکریہ ادا کیا اور بولے کہ آپ سے روزانہ کی بنیادوں پر ملاقات ہوتی تھی ، آپ سے اچھا تعلق بنا ، کبھی اخبار میں نہیں پڑھا اور نہ ٹی وی پر دیکھا کہ آپ کے قلم سے کوئی ایسا لفظ لکھا گیا ہو جو حقائق کے خلاف ہو ، آپ لوگوں کو مس کروں گا ، آپ سے یہ تعلق برقرار رہے گا.

کمرہ عدالت میں احسن اقبال، ملک ابرار، میاں جاوید لطیف، حمزہ شہباز، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، سیئنٹر چوہدری تنویر اور دیگر موجود تھے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے