فرقہ واریت، ٹرین، مشیرِ وزیراعظم

لہلہلاتے کھیتوں میں کام کرتے کسان،باغات سے پھل توڑتے مزدور، چھتوں پر دھوپ سینکتی خواتین، میدانوں میں کھیلتے جوان، زمینوں پہ چلتے ٹریکٹر، پہاڑوں پردوڑتی بکریاں مجھ جیسے دیہاتی کی کمزوری ہیں۔ ٹرین کی نعمت کو چھوڑ کر زیادہ پیسے خرچ کرکے بندہ اسلام آباد جائے، شہروں کی چیخ و پکار، بڑھتی ذمہ داریاں اور زیادہ کام سے فرصت کے لمحات نکلیں اور پاکستانی عوام کی قسمت کے فیصلے کرنے والے شہر اسلام آباد میں موجود ہیروں کی مانند کثیر دوستوں کی تعداد نظر آئے تو بندے کا دل کرتا ہے کہ اسلام آباد زیادہ سے زیادہ جانا چاہئے۔ پھر انہی دوستوں میں سے ایک مخلص اور بڑے بھائی محمد عامر رانا کانفرنس میں شرکت کی دعوت دیں اور بندہ دعوت قبول نہ کرے تو یہ دوست سے پہلے اپنے ساتھ زیادتی ہے۔ کوئی بات دس سال قبل کی بات ہے جب میں نے اسلام آباد کا سفر ٹرین پر کیا تھا، اب کی بار ایک خوف تھا کہ معلوم نہیں ٹرین کیا سلوک کرے۔

ٹرین سے سفر کا آغاز کیا تو محوِ حیرت ہو گیا کہ شیخ رشید کی دن رات کی محنت کام دکھا رہی ہے، سفر انتہائی خوشگوار گزرا، جس پر شیخ رشید کو عوام کی جانب سے شاباش! یاد آیا 6سال قبل جیو ٹی وی کے پروگرام ’’ضیاء جی کے ساتھ‘‘ کی ریکارڈنگ کے سلسلہ میں راولپنڈی شیخ رشید کا پروگرام ریکارڈ کیا تو چائے کی ٹیبل پرمیں نے شیخ رشید سے کہا:مجھے آپ کی بائیو گرافی لکھنے کا شوق ہے، لمبے قہقہے کے ساتھ کہا:ٹھیک! لیکن ایک وعدہ کرو کہ یہ کتاب شیخ رشید کے مرنے کے دس سال بعد شائع ہو گی۔ پوچھا:کیوں؟ کہنے لگے:میں نے کتاب میں اتنا سچ بولنا ہے کہ سیاست دانوں نے مجھے قبر سے نکال کر مارنا ہے، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ دس سال بعد قبر میں میری ہڈیاں بھی نہ ملیں۔ یوں میں نے اپنی جان اور شیخ رشید کی ہڈیاں بچانے کے لئے ان سے معذرت کر لی۔

اسلام آباد میں ایک روزہ کانفرنس میں جرمن سفیر مارٹن (Martin Kobler) سے ملاقات ہوئی۔ یہ وہی سفیر ہیں، جو آئے روز ٹویٹر پر پاکستان کو اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کے خوبصورت چھپے گوشے، کبھی معیاری کھانے، بہترین پھل، کشمیری چائے، مزیدار سبزیاں، موسمی تبدیلیوں کی خوبصورتی دکھا کر پاکستان کی اہمیت سے پاکستانی عوام کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی آگاہ کر رہے ہوتے ہیں۔ مذکورہ کانفرنس کا مقصد فرقہ واریت کی وجوہات تلاش کرنا اور ان کا تدارک تھا، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز، ڈی جی PIPSعامر رانا، خورشید ندیم، ڈاکٹر خالد مسعود اور صفدر سیال کی گفتگو انتہائی حیران کن اور مسرت سے لبریز تھی۔ آج بھی پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ایسے زرخیز ذہن دئیے ہیں جو اپنی جوانیوں کی تمام تر توانائیاں پاکستان سے انتہا پسندی، دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے وقف کیے ہوئے ہیں۔

مجھے بات کا موقع ملا تو میں نے کہا ’’اصل مسئلہ معاشی ہے‘‘ علماء کو چاہئے کہ وہ بچوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کریں، علماء کی سیاست میں کامیابی مشکل ہے، وہاں یہ مقتدی رہیں گے، مدارس کے مہتمم حضرات دوسرے مسالک والوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں، اب ایک قدم اور آگے بڑھائیں، اپنے 5سے 10شیوخ الحدیث، اساتذہ کو دوسرے مسالک والوں کے درمیان اٹھنے بیٹھنے کے مواقع دیں، اندرون و بیرون ملک کانفرنسوں میں اپنے اساتذہ کو شامل کریں۔ یہ فیصلہ اگر اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی سطح پر کریں، تو زیادہ ثمرات حاصل ہو سکتے ہیں، آٹھ سو سال سے چلنے والا ’’مدرسہ نصاب‘‘ اب اصلاح کا طلبگار ہے۔

نصاب میں معاشیات، سیاسیات، بشریات، لسانیات، سماجیات، فنون، ادب، شعر، بلاغت، فلسفہ، تاریخ اور کمپیوٹر جیسے مضامین کی تعلیم شامل کریں۔ مدارس کے فیصلے خود کرنے کے بجائے اپنے اداروں میں تھنک ٹینک تشکیل دیں۔ دارالفتاء میں شرارتی ذہن، سخت، ترش لہجے، جلد غصہ، بلڈپریشر کے مریض، خوشامدی، اعتقادی اختلافات، شکوک و شبہات، علمی غرور اور گروہی اختلافات والے نہیں بلکہ دھیمے مزاج اور حالاتِ حاضرہ کو سمجھنے والے مفتیانِ کرام کو تعینات کریں کیونکہ کام میں مزاج کا اثر ہوتا ہے۔ایک صحابی نے حضور نبی کریمﷺ سے مختصر نصیحت کی درخواست کی تو ان الفاظ میں آپﷺ نے انہیں وصیت فرمائی کہ ’’لا تغضب، لا تغضب، لا تغضب‘‘ یعنی غصہ مت کرو، غصہ مت کرو، غصہ مت کرو۔

مدرسہ سے بھی ہنرمند مثلاً شیف، ویلڈر ، ڈرائیور، باورچی، فرنیچر کاریگر، موٹر سائیکل، رکشہ گاڑی بنانا، آٹوکیڈ، الیکڑیشن، سپروائزر، مالی، کھیتی باڑی کی تربیت کیوں نہیں دی جاتی؟وہاں کرکٹر، فٹ بالر، اسکوائش کے کھلاڑی کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ مدارس میں ایسے کورسز کرائے جائیں جس سے معاشی خوشحالی پیدا ہو۔ یہ دور تو سافٹ وئیر، ویب ڈویلپمنٹ اور ایپس کا ہے، اساتذہ سے 4پیریڈ سے زیادہ کام نہ لیں، قرآن پاک کو تاویلات سے نہیں قرآنی اصول سے پڑھائیں، علامہ عینی نے عمدۃ القاری میں لکھا ہے کہ علم کی آفات میں سب سے بڑی آفت تکبر ہے، میں نے ایک بار پیر سید لختِ حسنین سے پوچھا جامعہ الازہر کی سب سے بڑی خوبی کیا ہے؟

فرماتے ہیں:وہ پہلے تین ماہ طالب علم کا نفس مارتے ہیں، یعنی صوفی بناتے ہیں۔ صوفی اساتذہ کی تربیت سے وسعتِ قلبی، اعتدال، انکساری، نرمی، پیار و محبت والے طلبہ پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تمام مسالک کا ایک ماڈل مدرسہ بننا بھی وقت کی ضرورت ہے کیونکہ آج مدارس میں دینِ اسلام کم اور مسلک زیادہ پڑھایا جا رہا ہے۔ انہی اداروں کی طرح ایک ادارہ پیس اینڈ ایجوکیشن فائونڈیشن کے سربراہ اظہر حسین پندرہ ہزار آئمہ، خطباء، مدرسین، مذہبی قائدین اور علماء کو مختلف موضوعات پر تربیت دے چکے ہیں۔

دیوانا، دیوانا ہوتا ہے، چاہے وہ اسلام آباد میں وزیراعظم کے مشیر خاص‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ مرزا شہزاد اکبر ہوںجو کمال کا کمال درد دل رکھنے والے قانون دان ہیں۔ یہ وہ قلندر مزاج آدمی ہیں، جنہوں نے 2010ء میں ڈرون حملوں کے خلاف اور متاثرین کو معاوضہ دلانے کے لئے قانونی جدوجہد کا آغاز کیا تھا، جسے دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بیحد سراہا تھا۔

یہ وہی خوبصورت شخصیت ہیں کہ جب مارٹن کوبلر کی حکومت (جرمنی) نے 2017ء میں انسانی حقوق کی جدوجہد کرنے والے 10لوگوں کا انتخاب کیا تو ان میں ایک نام شہزاد اکبر کا تھا۔ وہ دن رات کرپشن کو روکنے کے لئے نہ صرف کام کر رہے ہیں بلکہ بہت سارے ایسے ممالک کا دورہ اس لئے کر چکے ہیں کہ جن ممالک میں کرپشن کا پیسہ جاتا ہے، ان ممالک کے ساتھ وہ ایسے معاہدے کرنے کے خواہاں ہیں کہ پاکستان سے جانے والی کرپشن کی رقم کو واپس لایا جا سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے