کامیابی اور ناکامی

شوپنہار نے کہا تھا : آدمی کا المیہ یہ ہے کہ فیصلہ وہ پہلے کرتا اور دلیل بعد میں ڈھونڈتا ہے ۔انسانی صلاحیت اور امکانات کی کوئی حد نہیں‘ مگر مایوسی مگر بے دلی۔ اللہ کی آخری کتاب شاید اسی لیے مایوسی کو کفر کہتی ہے۔

کامیابی کیا ہے اور ناکامی کیا؟ کراچی کی ایک گرم دوپہر یاد آتی ہے ۔ سردار شیر بازمزاری نے ازراہِ کرم دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا تھا۔ تن من کے اجلے سردار صاحب لائبریری میں تشریف فرما تھے۔ بالا قد‘ فراخ سینہ ‘ چہرے پہ متانت ‘ایک گہری نجابت اور سوچتی ہوئی آنکھیں ۔یہ نواز شریف کا اوّلین دورِ حکومت تھا ۔ہمیشہ کے دھیمے لہجے میں آپ نے انکشاف کیا کہ لاہور سے انہیں الیکشن لڑنے کی پیشکش کی گئی تھی ۔عرض کیا کہ ضمنی الیکشن کے ہنگام ‘ اب بھی اس پیشکش پہ انہیں غور کرنا چاہیے ۔

حالات کے تیوروں سے وہ مایوس نظر آئے ۔ کہا کہ آنکھیں بند کر کے وہ کسی لیڈر کی اطاعت نہیں کر سکتے ۔ نواز شریف یا بے نظیر سے نباہ کرنا ان کے لیے مشکل ہوگا ۔ صداقت جسے عزیز ہو ‘ دھڑے بندی کا نہیں ہو سکتا۔کسی بھی موضوع کو جانچ کر اسے رائے دینی چاہیے ۔ وقت کے دھارے میں بہتے چلے جانا انہی کو گواراہوتاہے ‘ابدی اخلاقی اصولوں کی جنہیں پروانہ ہو۔

گفتگو قدرے طویل ہو گئی تو چائے کی ایک اور پیالی کے لیے اصرار کیا ۔ ایک ذرا سی خواہش بھی نہیں تھی۔ اس خیال سے بلوچ سردار کی پیشکش قبول کر لی کہ کچھ اور وقت بھلے آدمی کی صحبت میں بتایا جا سکے ۔چند سال پہلے عبد الولی خان کی پارٹی انہوں نے چھوڑ دی تھی ۔ کچھ عرصہ قبل یہ نیشنل عوامی پارٹی تھی ۔ اس پہ پابندی لگی تو باچا خاندان کے بچے کچھے سرمایے کو بچانے کے لیے غالباً نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے نئی جماعت سردار صاحب نے کھڑی کر دی ‘ پھر افغانستان میں سرخ فوج کے درآنے سے ایک خونیں طوفان اٹھا ‘ جو اب تک جاری ہے ۔

سردار شیر باز مزاری افغان مزاحمت کے حامی تھے ‘جو یکایک پھوٹ پڑی تھی اور روسیوں کو جان کے لالے پڑے تھے ۔ بھارت اور روس نواز عبدالولی خان نے‘ جوضیاء الحق کا مارشل لا نافذ ہونے کے بعد آزاد تھے‘ پالیسی بدلنے کی کوشش کی توسردار صاحب نے انہیں خیر باد کہا۔ طعنہ زنی کی اور نہ شور شرابا ۔ چپ چاپ گھر کی راہ لی۔

ایک ٹھنڈی سانس لی اور کہا : اعتراف کرنا چاہیے کہ میں سیاست میں ناکام ہوگیا ۔ یہ وہ لمحہ تھا ‘ جب ان کے ملاقاتی نے مداخلت کی جسارت کی۔عرض کیاکہ کیا وہ دو تین ذاتی سوال پوچھ سکتاہے؟ اپنے ماضی پر نظر ڈال کر کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ کبھی انہوں نے آلودہ رزق گوارا کیا ؟ کیا ضرورت پڑنے پر کبھی کذب بیانی سے کام لیا؟ کیا نواز شریف ‘ بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کو وہ کامیاب گردانتے ہیں ؟

شاید اس لیے کہ یہ ان کی اپنی ذات کا ذکر تھا ‘نجیب آدمی کی آواز کچھ اور دھیمی ہو گئی ۔ کہا : الحمد للہ عمر بھر رزقِ حلال کھایا ہے ۔ اس سے پہلے وہ بتا چکے تھے کہ ڈیرہ غازی خان میں اپنے جاگیر کے معاملات سے وہ لا تعلق ہوئے کہ خاندان کے کچھ افراد گاہے مزارعین کے ساتھ ناروا برتائو کرتے۔ یہ بھی کہا کہ بعد والوں کا تو ذکر ہی کیا ‘ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی وہ کامیاب نہیں سمجھتے ‘ پھر اس میں اضافہ کیا کہ زندگی کے کسی بھی میدان میں ‘ کسی بھی وقت ‘ کسی بھی غرض سے ‘اگر کوئی اخلاقی اصولوں سے دستبردار ہو جائے تو یہ ناکامی اور نامرادی ہے ‘ ظفر مندی نہیں ۔

پھر کامیابی کیا ہے ؟ سردار صاحب کو میں نے لاہور کے ایک اخباری دفتر سے وابستہ ایک مرحوم کارکن کے بارے میں بتایا ۔ صبح وہ سرکاری ملازمت پہ جاتا۔ دو اڑھائی بجے اس دفتر میں آموجود ہوتا۔ دو پہر اس کے کھانے کا انحصار دفتر میں موجود منیجر پر ہوتا کہ وہ ناغے کو ترجیح دے گا یا کام و دہن کی تواضع کو ۔ نہایت خوش دلی سے وہ اپنے فرائض سرانجام دیتا‘ چہکتا ہوا ۔ کبھی شاکی دکھائی دیا نہ رنجیدہ ۔ کبھی اس نے رشتے داروں ‘ پڑوسیوں اور دفتری ساتھیوں کی شکایت کی اور نہ زمانے کی بے وفائی اور بے مروتی کی ۔ اچانک رونما ہونے والی اس کی وفات کے بعد ہی پتا چلا کہ بیک وقت دو عدد دفاتر میں نوکری کا بوجھ اٹھا کر وہ اپنے خاندان کی اس نے پرورش کی ۔ پھر کسی نے بتایا کہ شکر گزار آدمی چھٹی کے دن کرکٹ کھیلا کرتا ۔ حوصلہ مندی کے ساتھ اس نے بسر کی؛ تاآنکہ بلاوا آگیا ۔

سردار صاحب سے عرض کیا : یہ ناچیز اسے کامیاب ترین لوگوں میں سے ایک سمجھتا ہے ۔ رسول اللہؐ کا قولِ مبارک مدتوں بعد سنا : میری امت کے بہترین لوگ وہ ہیں کہ کسی محفل میں جائیں تو ان کا تعارف نہ کرایا جائے اور اٹھ کر چلے جائیں تو کوئی ان کا تذکرہ نہ کرے ۔

سردار شیرباز خاں مزاری اور اس بھولے بسرے کردارکی یاد قائدِ اعظم ؒ کے بارے میں سوچتے ہوئے ذہن کے افق پہ طلوع ہو ئی ۔پھر اس دلاورآدمی‘ 1960ء کے عشرے میں پنجاب یونیورسٹی یونین کے صدر بارک اللہ خاں کا مسکراتا ہوا پیکر خیال میں ابھرا ‘ جو کہا کرتا : زندگی میں کوئی کامیابی کامیابی ہے اور نہ کوئی ناکامی ناکامی۔ یکسر منفرد کردار کے بارک اللہ خاں خود ایک طویل تحریر کے مستحق ہیں ۔ افسوس کہ ان کے ساتھیوں میں سے کسی نے زحمت نہ کی ۔ وہ جگمگاتے مہ و سال ‘ جب پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ نے فیلڈ مارشل ایوب خاں کی ہیبت کو حقیر بنا دیا تھا ۔ کیسے کیسے بانکے شہ سواروں کو زمانہ بھلا دیتا ہے ۔ یونہی غالبؔ نے تڑپ کر نہ کہا تھا؎
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے

ہمارے سامنے کھوٹے سکّوں کے ڈھیر پڑے ہیں ۔ رفتہ رفتہ ‘ بتدریج ہر چیز منکشف ہوتی جاتی ہے ۔ ایسے ایسے کارنامے سیاسی لیڈروں کے اجاگر ہورہے ہیں کہ پرلے درجے کے کسی بدگمان کو بھی اندازہ نہ تھا ۔ جعلی کمپنیاں ‘ جعلی کھاتے ۔ کتّوں کا راتب تک انہی کمپنیوں کی آمدن سے خریدا جاتا جو رشوت کے مال سے بنائی گئیں۔یا للعجب صدقات کے بکرے بھی۔ پی ٹی آئی کے لیڈر نے سوال کیا ہے اور اس سوال کا جواب نون لیگ کے کسی رہنما نے دیا نہیںکہ العزیزیہ سٹیل مل نے تبھی سونے کے انڈے کیوں دیے ‘ پنجاب میں جب ان کی حکومت بن گئی ۔ لیڈروں کے کاروبار اقتدار ہی میں کیوں فروغ پاتے ہیں اور اس تیزی سے کیسے پھلتے پھولتے ہیں ۔ اقبالؔ نے کہا تھا؎
تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

اخلاقی زوال اور پستی کے عالم میں بھی شاید یہی ہوتاہے ۔ ہر بدعملی کی تاویل کر لی جاتی ہے ۔ ہر بد اخلاقی کا جواز ڈھونڈ لیا جاتا ہے ۔ دھڑے بندی میں ہر قدر پامال‘ ہر اصول سوکھی ہوئی گھاس کی طرح بے وقعت ۔
کہا جاتا ہے کہ سیاست مصلحت کے بغیر پنپ نہیںسکتی ۔سمجھوتہ کیے بغیر فروغ نہیں پاتی۔ اس نادرروزگار آدمی محمد علی جناح کی زندگی پہ لوگ کیوں غور نہیں کرتے ؟ تمام عمر اخلاقی اصولوں پہ سختی سے کارفرما رہے ۔ کارنامہ ایسا کہ تاریخ ‘جس کی کوئی نظیر پیش نہیں کرتی ۔

شوپنہار نے کہا تھا : آدمی کا المیہ یہ ہے کہ فیصلہ وہ پہلے کرتا اور دلیل بعد میں ڈھونڈتا ہے ۔انسانی صلاحیت اور امکانات کی کوئی حد نہیں‘ مگر مایوسی مگر بے دلی۔ اللہ کی آخری کتاب شاید اسی لیے مایوسی کو کفر کہتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے