کرپشن جزو ایک بڑی جنگ کا

یہ لوگ جو زرداریوں اورشریفوں کا دفاع کرتے پھرتے ہیں‘ ان کے چھوٹے پن اورمحدودسوچ پہ ترس آتاہے ۔ملک میں پچھلے چار سال سے کیا ہورہاہے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ایک بڑی جنگ وسط 2014ء میں شروع ہوئی جب پاکستان کو چار مہلک خطرات لاحق تھے ۔ فاٹا میں تحریک طالبان پاکستان کی حکمرانی تھی اوراُس علاقے میں ریاست ِ پاکستان کا تسلط ختم ہوچکا تھا۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر اورتجارتی مرکز کراچی میں حکم الطا ف حسین کا چلتاتھا ۔

کراچی کے علاقے لیاری کے بے تاج بادشاہ عزیر بلوچ جیسے تھے ۔ ملک کی معاشی زندگی کرپشن کے نرغے میں تھی ۔اس حالت کی دو بڑی نشانیاں تھیں‘ شریف خاندان اورزرداری گروپ۔ زرداری کے معاون پراپرٹی کے وہ شاہکار تھے جن کا نام اَب بھی میڈیا آسانی سے نہیں لیتا ۔ مسئلہ میڈیاکا یہ ہے کہ مارشل لاؤں کا سامنا توکر سکتا ہے‘ لیکن ایڈورٹائزرز اوراشتہار بازوں کی طاقت کے سامنے بے بس ہے۔ اپنے رزق سے انسان برسر پیکار نہیں ہوتا۔

یہ حالت بھی بدل رہی ہے ۔ جیسا کہ ایک وقت میڈیا میں ایم کیو ایم کا ذِکر مخالفانہ تناظر میں نہیںلیا جاتاتھا‘لیکن جب ایم کیو ایم کا زوال شروع ہوا اورکراچی سے الطاف حسین کا تسلط ٹوٹا تو پھر ہرکوئی ایم کیو ایم کانام لینے لگا۔ اب جبکہ اومنی گروپ (جس کا تعلق زرداریوں سے ہے) اوراُن کے پراپرٹی والے معاونین کانوٹس سپریم کورٹ نے لے لیا ہے اورسپریم کورٹ کے حکم پہ بننے والی ایف آئی اے کی جے آئی ٹی نے چونکا دینے والی یا یوں کہئے رونگٹے کھڑا کردینے والی رپورٹ مرتب کی ہے تو اُمید پیدا ہوئی ہے کہ سرِ بازار پراپرٹی والوں کا بھی ایسے ہی نام آنے لگے گا جیساکہ ایم کیو ایم کا ؛ اگر اس اُبھرنے والی کیفیت کا سہرا کسی کو جاتاہے ‘تو وہ چیف جسٹس ثاقب نثار ہیں‘جنہوں نے بہت سے گمبھیر مسائل میں ہاتھ ڈالاہے اورجن کے ازخود نوٹس لینے کے بعد کراچی اورسندھ سے متعلق ہوشربا حقائق سامنے آئے ہیں۔

وسط 2014ء میں ایسا لگتاتھا کہ پاکستان اِن خطرات کے سامنے بے بس ہوچکاہے ‘ لیکن پھر افواجِ پاکستان نہ کہ کسی سویلین حکومت نے‘ فیصلہ کیا کہ ان چیلنجز کا سامنا کرنا ناگزیرہے‘ اگر پاکستان کو بچاناہے۔ اسی سوچ کے پیش نظر شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کیاگیا۔ اس سے پہلے عام خیال یہ بن چکاتھا کہ علاقہ اتنا دشوار ہے اورٹی ٹی پی اتنی خوفناک تنظیم ہے کہ یہاں ایکشن کرنا نہایت مشکل ثابت ہوگا ‘ لیکن پاکستان ائیر فورس کی کلیدی معاونت کے ساتھ فوج نے پیش قدمی کی اورناممکن کو ممکن بنا دیا۔ فوج نے بہت نقصان اُٹھایا ‘ جوانوں کے ساتھ نوجوان افسران کی بہت شہادتیں ہوئیں۔ ضلع چکوال فوجی علاقہ سمجھا جاتاہے۔ یہاں کسی گاؤں کا قبرستان شہدا کی قبروں سے خالی نہیں۔ فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف اوربالعموم فوجی کمان نے بھی آپریشن کی ایسی قیادت کی جیسی کرنی چاہیے تھی۔ ائیر فورس کے پائلٹوں کا بھی بہت نمایاں کردار اس جنگ میں رہا ۔

لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ نوجوان جو فاٹا میں اپنا خون بہا رہے تھے اورسینوں پہ گولیاں کھا رہے تھے‘ وہ اس لئے یہ کررہے تھے کہ ملک پہ کرپشن کے بادشاہوں کا راج رہے ؟ دورانِ فاٹا آپریشن یہ بات سامنے آنے لگی کہ فوجی افسران کے دِلوں میں کرپشن کے خلاف نفرت سخت شکل اختیار کر رہی ہے ۔ ایک زمانے میں فوجی جذبات پی پی پی مخالف ہوا کرتے تھے ‘لیکن جب شریف خاندان کی کرپشن کی کہانیاں سامنے آنے لگیں تو فوجی دِلوں میں نون لیگ کیلئے جو نرم گوشہ ہوا کرتاتھا وہ بتدریج ختم ہونے لگا۔ یہ خیال فوجی رینکوں میں اُبھرا کہ پاکستان کو بچنا ہے تو اُونچے لیول کی کرپشن کاخاتمہ ضروری ہے ۔

فاٹا آپریشن کے بعد فوج کی معاونت سے رینجر ز نے کراچی میں آپریشن شروع کیا ۔ وہاں بھی یہ خیال عام ہوچکاتھا کہ ایم کیو ایم کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ اُنہیں اُکھاڑنا مشکل ثابت ہوگا ‘ لیکن جب صحیح طورپہ عزم دکھایاگیا ‘تو ایم کیو ایم کا کراچی پہ تسلط ختم ہونے لگا ۔ اُس سے پہلے لاہور ہائی کورٹ کے ایک حکم سے ٹیلی ویژن پہ الطا ف حسین کی زبان بندی ہوچکی تھی ۔ جب وہ تقریر فرماتے تھے تو پورا ملک اُن کی تقریر کا یرغمال بن جاتاتھا‘ کیونکہ ہر ٹی وی چینل اُن کی تقریر کی مکمل کوریج لازمی سمجھتاتھا۔ آج ایسا لگتاہے کہ کراچی پہ ایم کیو ایم کا راج کبھی تھا ہی نہیں اور لندن بیٹھ کر جناب الطاف حسین کی گھنٹوں لمبی تقریریں ایک ڈراؤنے خواب سے زیادہ کچھ نہ تھیں۔

افواج میں تو سوچ پیدا ہوچکی تھی کہ ملک کی بقا کے لئے کرپشن کا خاتمہ ناگزیر ہے‘ لیکن اس موقع پہ آسمانوں سے بھی مدد ملی ۔ جب فاٹا اورکراچی آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہوچکے تھے ‘تواپریل 2016ء میں پانامہ پیپرز کا دھماکہ ہوا۔

ہزاروں ناموں میں شریف فیملی کے بھی نام سامنے آئے اوروہ سلسلہ آہستہ آہستہ شروع ہوا‘ جس کے نتیجے میں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے اور اُنہیں کرپشن کے حوالے سے سزائیںملیں۔ ہم جیسے جلد باز سمجھتے تھے کہ یہ بڑے مگر مچھ کسی نہ کسی طریقے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے ‘ لیکن وہ جو انگریزی کا مقولہ ہے ”The mills of God grind slowly but they grind exceeding small‘‘ یعنی خدا کی چکیاں پیستی آہستہ ہیں‘ لیکن پیستی بہت باریک ہیں۔

جوں جو ں جھوٹ بے نقاب ہوئے شریفوں کے گرد گھیرا تنگ ہوتاگیا‘ پھرنادانیاں بھی ہوئیں‘ وہ کہانیاں گھڑیں جن پہ سکول جانے والے بچے بھی یقین نہ کرتے ۔ زُعم میں بھی مبتلا رہے اور بے تُکے نعرے لگا تے رہے جیسا کہ ”مجھے کیوں نکالا‘‘ اور ”ووٹ کو عزت دو‘‘ ۔ سمجھ اُنہیں تب آئی جب پلوں کے نیچے سے پانی بہہ چکا تھا پھر اُنہوں نے وہ حکمت اپنائی جو پہلے اپنانی چاہیے تھی یعنی مکمل چپ سادھ لی ۔ ا ب حالت یہ ہے کہ حلق سے آوازنہیں نکل رہی ۔ خدا کی چکیاں جب پیسنے لگیں تو ایسا ہی ہوتاہے ۔

کس احمقوں کی جنت میں وہ لوگ بستے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف بچ جائیں گے ۔ کار کا فالتوپہیہ جسے سٹپنی کہتے ہیں اس لئے رکھاجاتاہے کہ بوقت ضرورت کام آئے۔ کوئی بتائے تو سہی کہ شہبازشریف کس کام کے رہ گئے ہیں؟کیا اُن کے بغیر ملک کی خارجہ پالیسی نہیں چلے گی ؟ کیا عمران خان کو اُن کی پنجاب میں ضرورت پڑے گی ؟ یہ فضول کی باتیں ہیں۔ ابھی تو بہت سارے دریاسامنے ہیں آشیانہ سے لے کر ماڈل ٹاؤن تک ۔

شریفوں کے ساتھ جو ہوناتھا ہو گیا‘ لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ صفائی ایک طرف ہو اورکراچی اورسندھ کی شکارگاہیں اس عمل سے بچ جائیں ؛ اگر زرداری سمجھ رہے تھے کہ وہ بچ نکلیں گے تو اُن سے بڑا بے وقوف کوئی ہو نہیں سکتا۔ وہ کرپشن کے بادشاہ نہ تھے ‘ اُنہوں نے اوراُن کے پراپرٹی معاونین نے غدر مچا رکھی تھی‘ جس کی ایک جھلک جے آئی ٹی رپورٹ میں سامنے آئی ہے ؛ اگر پاکستان کے اداروں نے کرپشن کے خلاف جنگ کا ارادہ کرلیاتھا توزرداری کیسے بچ سکتے تھے ؟

اس میں بھی زیادہ کریڈٹ چیف جسٹس ثاقب نثار کو جاتاہے‘ جنہوں نے اُومنی گروپ اورمعاونین کی منی لانڈرنگ کا نوٹس لیا اوراب ہر چیز سامنے آچکی ہے ۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ آصف علی زرداری کی گرفتاری دور کی بات نہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے مہینوں کی تاریخ نہیں دی ۔ آصف زرداری ‘ اُن کی ہمشیرہ فریال تالپور اورپراپرٹی معاونین کو 31دسمبر تک جے آئی ٹی رپورٹ کا جواب داخل کرناہے اورپراپرٹی معاونین کے بارے میں حکم ہواہے کہ وہ خود پیش ہوں ۔

ایک بات او ر قابلِ ذِکر ہے۔ وہ جنگ جس کاآغاز وسط 2014ء میں ہوا اُس کے دوران ہی الیکشن منعقد ہوئے اورایک نئی حکومت معرضِ وجود میں آئی ۔اب ملک میں ایک ٹرائیکا ہے:منتخب حکومت‘ آزا د اورطاقتور عدلیہ اور مسلح افواج۔ اس ٹرائیکا کے سامنے کرپشن کے بادشاہوں کی کیا اوقات ؟رہ گئی ملک کی معاشی ریکوری ۔ جب تک اس میں کامیابی نہ ہو پانچ سال پہلے شروع ہونے والی جنگ نامکمل رہے گی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے