افغانستان۔ دستک دیتی نئی تباہی

وہی ہوا جس کا ڈرتھا۔ تاریخ اپنے آپ کو کئی گنا زیادہ بھیانک شکل میں دہرانے لگی ہے ۔ افغانستان میں امریکہ کم وبیش اسی انجام سے دوچار ہوا جس سے سوویت یونین ہوگیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے لئے ویسے ثابت ہوتے ہیں یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا لیکن افغانستان کے معاملے میں وہ دوسرے میخائل گورباچوف ثابت ہوئے ۔ تاہم غور سے دیکھا جائے تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے افغانستان سے اچانک انخلاکا فیصلہ افغانستان اور پاکستان کے لئے سوویت یونین کے انخلا کے فیصلے سے زیادہ خطرناک ہے ۔ کیونکہ سوویت یونین افغانستان سے مکمل نکلا تھا لیکن امریکہ اس کے بعد بھی اپنے اڈے برقرار رکھے گا۔

سوویت یونین نکلا تھا تو افغانستان کو اس کے اپنے یا پھر پڑوسیوں کے رحم وکرم پر چھوڑا تھا لیکن امریکہ نکل رہا ہے تو بھی افغانستان میں درجن سے زائد عالمی اور علاقائی طاقتیں کسی نہ کسی شکل میں موجود اور دخیل رہیںگی۔ سوویت یونین نکل رہا تھا تو ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کی صورت میں ایک منظم حکومت موجود تھی لیکن امریکہ نکل رہا ہے تو افغانستان پہلے سے انتشار کی شکار اشرف غنی حکومت کے سپرد ہوگا۔ سوویت یونین نکل رہا تھا تو افغانستان دو فریقوں یعنی حکومت اور مجاہدین میں منقسم تھا لیکن اب سیاسی سیٹ اپ کا حصہ افغان کئی گروہوں میں تقسیم ہیں جبکہ مزاحمت کاروں کے بھی کئی ہیں۔

تب افغانستان صرف پاکستان اور پاکستان مخالف قوتوں کے سپرد ہوا لیکن اب افغانستان میں انڈیا سے لے کر روس تک ، ایران سے لے کر عرب ممالک تک اور ترکی سے لے کر برطانیہ تک ، غرض درجنوں ممالک نے اپنی پراکسیز پال رکھی ہیں۔ سوویت یونین نکل رہا تھا تولوگ پر امید تھے کہ جلد یا بدیر مجاہدین پورے افغانستان پر قابض ہوجائیں گے لیکن اب یہ امر واضح ہے کہ طالبان اور داعش افغان حکومت کو بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیں گے لیکن وہ مجاہدین کی طرح پورے افغانستان پر قابض بھی نہیں ہوسکتے ۔ البتہ امریکہ کی طرف سے افواج کے انخلاکے اعلان کے ساتھ طالبان اپنے آپ کو اسی طرح فاتح سمجھنے لگے ہیں جس طرح افغان مجاہدین سوویت افواج کے انخلاکے بعد سمجھنے لگے تھے ۔

اشرف غنی کی حکومت اسی طرح ہل گئی ہے جس طرح کہ ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت سوویت افواج کے انخلاکے بعد ہل گئی تھی اور حیرت انگیز طور پر پاکستان میں دائیں بازوکے حلقوں میں اسی طرح فتح کا جشن منایا جارہا ہے جس طرح کہ سوویت افواج کے انخلا کے بعد منایا گیا تھا لیکن افسوس کہ سنجیدگی سے تجزیہ کرنے کے بعد تجزیہ کار اسی نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ افغانستان ایک اور تباہی کے دہانےپر کھڑا ہوگیا ہے جس طرح کہ 1988میں کھڑا تھا اور پاکستان پر شاید اس سے بھی زیادہ بھیانک اثرات مرتب ہوں گے جس طرح کہ نوے کی دہائی میں مرتب ہوئے تھے ۔ مختصر الفاظ میں فضائوں میں زہر کی مقدار بڑھ گئی ہے لیکن ہم سمجھ رہے ہیں کہ آج ہوا زیادہ ہے ۔

امریکی صدر بش کا افغانستان پر حملہ اگر حماقت تھی تو ڈونلڈ ٹرمپ کا اس طریقے سے انخلاکا اعلان اس سے بھی بڑی حماقت ہے ۔ خود امریکی انتظامیہ میں بھی ان کے اس فیصلے کا کوئی حامی نہیں ۔ امریکہ کے سیکرٹری دفاع جیمز میٹس کے استعفیٰ کا متن دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خود انہیں کتنا اختلاف تھا۔ آج سے صرف بیس روز قبل امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے پیشی کے موقع پر بیان دیتے ہوئے سنٹرل کمانڈ کے نامزد سربراہ لیفٹیننٹ جنرل میک کینزی (McKenzie) نے کہا تھا کہ اگر امریکی افواج فوراً افغانستان سے نکل جائیںتو اس کا نتیجہ افغان حکومت اور ملٹری کے سقوط کی صورت میں نکلے گا ۔

ان کے الفاظ تھے کہ :If the US were to withdraw now it would likely result in the collapse of the Afghan government and the military.۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ اورا سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ذمہ داران گزشتہ چند ماہ کے دوران جب بھی افغان قضیے کے فریقوں سے بات کرتے تو وہ اس بات کا خوف دلاتے کہ جلدی کوئی حل نکالنا چاہئے ورنہ توصدر ٹرمپ یکطرفہ نکلنے کا اعلان کردیں گے اور شاید اسی خطرے کے پیش نظر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ چند ماہ کے دوران پوری قوت صرف کی کہ طالبان مذاکرات پر آمادہ ہوں ۔

مذاکرات ہوئے بھی لیکن افسوس کہ اصل فریقوں یعنی افغان حکومت اور طالبان کے مابین نہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کا انتظار بھی نہیں کیا اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پہلی نشست کی آڑ لے کر افغانستان سے اپنی افواج کو نکالنے کا اعلان کر دیا حالانکہ اس کے لئے وہ ذہن پہلے سے بناچکے تھے ۔ طالبان کے ساتھ اگر مذاکرات ہوئے تو شام میںتو کسی مخالف فریق کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوئے ۔ سوال یہ ہے کہ پھر وہ وہاں سے کیوں نکل رہے ہیں ؟۔

اصلاً وہ یہ سب کچھ اپنی ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کی پالیسی کے تحت کررہے ہیں لیکن افغانستان کے ضمن میں یہ اضافی حماقت کرڈالی کہ طالبان سے مذاکرات کا ڈھونگ بھی رچا دیا ۔ ان مذاکرات نے افغان حکومت کی پوزیشن بہت کمزور کردی اور طالبان کا مورال بہت بلند ہوگیا ۔ طالبان پہلے ہی افغان حکومت کو کوئی حیثیت اور اہمیت دینے کوتیار نہیں تھے اور اب تو ان کا رویہ افغان حکومت کے معاملے میں مزید بے لچک ہوجائے گا ۔

یقیناًامریکی اُس طرح اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکے ،جس طرح چاہتے تھے ۔ بظاہر اسے اسی طرح شکست ہوئی ہے جس طرح کہ سوویت یونین کو ہوئی تھی لیکن بعض حوالوں سے امریکیوں نے اپنے مقاصد بھی حاصل کر لئے ۔ مثلاً جس طرح ماضی میں افغانستان القاعدہ کا گڑھ بنا تھا ، اب اسی طرح دوبارہ نہیں بن سکتا۔ یہ خطرہ اب نہ ہونے کے برابر ہے کہ افغانستان میں بیٹھ کر کچھ لوگ امریکہ میں حملوں کی منصوبہ بندی کریں ۔ امریکہ نے افغان سیاست میں کماحقہ لابی بھی پیدا کردی ہے اور اب جو بھی حکومت ہوگی اقتصادی حوالوں سے امریکہ کی محتاج اور زیردست ہوگی ۔

امریکی اڈے بدستور افغانستان میں ہوں گے اور ان کو بروئے کار لاکر وہ اپنی مرضی کے مطابق خطے کو اسی طرح زیراثر رکھنے کی کوشش کریں گے جس طرح کہ مشرق وسطیٰ میں کررہے ہیں ۔ اب پاکستان سے متعلق بھی اس کا رویہ جارحانہ ہوجائے گا کیونکہ جب تک امریکی افواج افغانستان میں موجود ہیں، وہ پاکستان کا محتاج ہے لیکن جب افواج نکل جائیں گی اور افغانستان کو مستحکم رکھنے کی ذمہ داری اس کی نہیں رہے گی تو اس کی یہ محتاجی ختم ہوجائے گی ۔ یوں وہ پاکستان سے متعلق مزید جارحانہ رویہ اپنالے گا۔

افغانستان میں اگر خانہ جنگی رہتی ہے اور افغان ، افغان کو مارتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان پڑوسی ممالک اور بالخصوص پاکستان کو ہوگا۔ افغانستان کے انتشار سے وسط ایشیااور روس بھی براہ راست متاثرہوتے ہیں جبکہ امریکہ کے نمبرون حریف چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں بھی خلل پڑتا ہے لیکن امریکہ کو کوئی براہ راست تکلیف نہیں پہنچے گی۔ اس لئے اب پاکستان ،روس، چین اور ایران کو چاہئے کہ وہ پہلے سے زیادہ سفارتی کوششیں کریں اور بہر صورت افغان حکومت اور طالبان کے مابین مفاہمت کا راستہ نکالیں ۔ افغان حکومت میں شامل دوستوں کو ہم گزشتہ سالوں میں یہ بات سمجھاتے رہے کہ وہ امریکہ کی شہ پر پاکستان کو آنکھیں نہ دکھائیں کیونکہ وہ دور کے آئے ہوئے بے وفا دوست ہیں ۔

اب ان کو بھی احساس ہوچکا ہوگا کہ امریکہ اور ہندوستان کی دوستی کے زعم میں پاکستان جیسے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات خراب کرکے انہوں نے اچھا نہیں کیا ۔ اب ان کو بھی چاہئے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرکے پاکستان اور دیگر پڑوسیوں سے تعلقات بہتر بنائیں تاکہ وہ طالبان کے ساتھ مفاہمت میں بھرپور کردار ادا کرسکیں ۔ اسی طرح طالبان کوبھی چاہئے کہ وہ فتح کے زعم میں مبتلا نہ ہوں بلکہ حقیقت پسندی کے ساتھ اپنے ہم کلمہ افغان بھائیوں کے ساتھ سیاسی مفاہمت کا راستہ نکالیں ۔ افغان آپس میں لڑیں گے تو امریکہ سمیت تمام غیرملکی طاقتوں کو مداخلت کا راستہ ملے گا لیکن وہ باہم ایک ہوگئے تو ایک وقت آجائے گا کہ ہر طرح کی غیرملکی طاقتوں کو بے دخل کیا جاسکے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے