ذمہ دار کون ؟

سانحات اتنے ہیں ایک کا غم ابھی ختم نہیں ہوتا دوسرا سینہ تانے گھر کی چوکھٹ پر کھڑا گھور رہا ہوتا ہے۔ درندگی کے سائز کا اندازہ یوں لگا لیجئے کہ پتھر سے پتھر دل بھی سفاکیت کے یہ بھڑکتے شعلے دیکھے تو موم ہو جائے ۔ معاشرہ کا کیا قصور ہے اور معاشرے میں رہتے ہوئے ہم اس کے کتنے ذمہ دار ہیں یہ وہ سوال ہے جو ہر روز دل کے دریچوں کو جھنجوڑتا اپنے نشان سینوں میں ثبت کرتا گزر جاتا ہے لیکن ہم بحیثیت مجموعی اس سوال سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے صرفِ نظر کر جاتے ہیں ۔ کوئی بے رحم بلِا درندگی کا مہرہ بن کرہمیں گردن سے دبوچتاہے تب ہم زخمی کبوتر کی طرح پھڑپھڑانا شروع کر دیتے ہیں ۔ مسئلہ آخر ہے کہاں ہے ہم ہمارا معاشرہ ، ہمارا عدل کا نظام ہمارے حکمران مسئلہ ہیں یا پھر کسی نادیدہ قوت نے ہمیں قابو میں جکڑا ہوا ہے جو جب چاہتی ہے ہمیں بہکا دیتی ہے اوراپنی درندگی کے نشانات چھوڑ کر خود منظر سے غائب ہو جاتی ہے ۔

ماجد نقی نے خوب لکھا "بنیادی طور پہ ہم ایک کرپٹ، جنگلی، گھٹیا، غیر مہذب، حد سے زیادہ فحاش پرست، ذاتی ہوس کے پجاری اور مخبوط الحواس معاشرے میں رہنے والے لوگ ہیں ” ننھی کلی زینب سے لے کر معصوم فریال تک پے درپے درندگی کے ان سانحات پر نظر دوڑائیں تو یہ باتیں بالکل حقیقت اور سفاکیت کے ان سانحات کا نچوڑ معلوم ہوتی ہیں ۔ سوال مگریہ ہے کہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی ایسے کیوں ہیں اورکیا یہ الفاظ ہمارے ضمیر کو جھنجوڑنے کے لئے کافی نہیں ہیں ۔ہم جس دین کے پیروکار ہیں کیا وہ ہمیں بےحیائی اور نفس پرستی کی تعلیم دیتا ہے ؟ کیا وہ محبت ، پیار اور امن کا درس نہیں دیتا ؟ یہ وہ دیں نہیں کہ حیاداری جس کا وصف ہے ؟ کیابے حیائی اور بری باتوں سے دور رہنے کی تلقین اس کی تعلیمات میں شامل نہیں ؟ کیاہمارا دین ہمیں کہتا ہے کہ ہم نماز پڑھیں اور جھوٹ بھی بولیں؟ نماز پڑھیں اور بے حیا ئی بھی پھیلائیں؟ اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوں اور نفس کی پوجا بھی کریں ؟

نہیں ہر گز نہیں لیکن چونکہ نفس پرستی ہمارے وجود میں سرایت کر چکی ہے تو ہم اس سے باہر نکلنے کی جدوجہد بھی نہیں کر رہے۔ جلتی پر تیل کا کام ان واعظین امت کا بھی ہے جوگالم گلوچ اور ہر غلط کام کرنے کی دلیلیں تک قرآن و سنت سے ڈھونڈ نکالتے ہیں ۔ جب کسی معاشرے میں لوگ گناہ کو گناہ سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں تو معاشرہ اخلاقی طور پر مر جاتا ہےاور وہاں بسنے والے افراد اجتماعی طور پر بے حیائی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ان کی اخلاقیات کتابوں تک محدود ہو جاتی ہے چوکوں چوراہوں میں انصاف کی سیل لگ جاتی ہےاور عدل کے مینارے دھڑام ہو جاتے ہیں ۔

معاملہ عبادات کا ہو یا معاملات کا اخلاقی بگاڑ ہر جگہ موجود ہے یہی وجہ ہے کہ ہم قومی درد اور اجتماعی خیر و شکر سے خالی اپنی ذات تک محدود اور اپنے ذاتی مفادات کے اسیر بن چکے ہیں ۔ یاد رکھیں رواداری و معاملات کی بیخ کنی کی شکار قومیں نفس کی غلام ہوجاتی ہیں ۔ ان کا نفس انہیں ہوس پرست بنا دیتا ہے پھربے حیائی کا نہ رکنے والا سیلاب معاشرے کی جڑوں میں گھس کر انہیں دیمک زدہ کر دیتا ہے ۔ کھوکھلا معاشرہ حیا سے عاری ہوجاتا ہے اور جب حیا باقی نہیں رہتی تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا ۔معاشرے سے انسانیت ختم ہو جاتی ہے لوگوں کا ایک ہجوم رہ جاتا ہے جو معاشرے کو درندگی اور سفاکیت کا نمونہ بنا کر رکھ دیتا ہے ۔ آئے روز رونما ہونے والے درندگی کے یہ سانحے اسی ہجوم کا شاخسانہ ہیں جس کا ہم بھی حصہ ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے