آدمیت ان دنوں اِک لاشۂ تقدیر ہے

ملک وہی ہے لوگ بھی وہی۔ اخبار وہی، تجزیہ کار وہی۔ ٹی وی وہی اور رپورٹرز بھی۔ ہم سب کو یاد ہے جب سیاسی اخلاقیات کے ہول سیِل ڈیلروں نے عمران خان کی طرف سے نِکمے کرکٹرز کو رِیلو کٹّا کہنے پر قیامت برپا کی تھی۔ ‘ریلو کٹّا‘ کو قیامت کی تقریباً آخری نشانی کہہ کر ہفتوں ماتم سرائی ہوتی رہی۔

ذرا دوسری جانب دیکھ لیجئے۔ میٹرو ملتان سے فالودۂ مہران تک حیران نہیں بلکہ ہلکان کر دینے والی کرپشن کتھا برسرِ میدان بکھری پڑی ہے جس کا ڈیفنس 3 نکات کے گرد گھوم رہا ہے۔ پہلا نکتہ ہے: نعرۂ سیاسی انتقام۔ دوسرا، احتساب کے قومی ادارے کی زیادتیاں اور تیسرا، ہم سب معصوم سے ہیں۔ اسی آڑ میں ملک کے تین اداروں پر مسلسل چاند ماری جاری ہے۔ ان میں سے اولین ادارہ ہے افواجِ پاکستان۔ میگا کرپشن کے بڑے ملزم اشاروں میں۔ ہمراہی ملزم کنایوں میں۔

جبکہ PAID CONTENTS والے خدمت گزار سوشل میڈیا پر۔ جرائم سنڈیکیٹ کے تینوں فن کار کُھل کر پکڑی گئی چوریوں کے دفاع میں فوج کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ کرپشن مافیا کی دفاعی بٹالین کا دوسرا نشانہ ملک کا جوڈیشل سسٹم بن رہا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ عدلیہ میں نہ تو اب کوئی کزن جج برسرِ اختیار ہے‘ نہ ہی کوئی ٹیلی فون پر فرمائشی سزائیں سنا دینے والا منصف۔ اب عدل گاہوں کے پچھلے دروازے نہیں کھلتے۔

اسی لیے بیک ڈور جسٹس کے عادی مجرم سخت مخمصے میں پھنس گئے ہیں۔ اس مخمصے کی اوپن سٹریک ہم سب نے کُھل کر دیکھی؛ چنانچہ جب پانامہ کیس دائر ہوا تو کہا گیا: عدلیہ یہ مقدمہ نہ سُنے۔ جمہوریت ڈی ریل ہو سکتی ہے۔ اسی کیس کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان نے جے آئی ٹی بنا دی۔ پورے ملک میں مٹھائی کے پٹوار خانے کھل گئے۔ فرمایا گیا: ہم سرخرو ہو گئے۔ جے آئی ٹی نے سوال پوچھے تو منی لانڈرنگ کے ملزم ہکلانے لگے۔ ہکلانے سے بوکھلانے کا یہ سفر طے ہوا۔

مگر اس دوران 7/8 عدد اولادوں کے پِتا جی اور 2 منکوحہ بیویوں کے پتی کی تصویر نکل آئی۔ تصویر میں موصوف جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد کے ایک کمرے میں کرسی پر برجمان پائے گئے۔ ان کے بائیں ہاتھ تپائی پر جبینِ نیاز سے پسینہ پونچھنے کے لیے کاغذی رومال المعروف ٹشو پیپر‘ اور مشروبِ مشرق و مغرب المشہور پانی کی ایک بوتل رکھی تھی۔ درمیان میں چند کاغذ اور ایک پینسل شریف۔ شورِ قیامت اُٹھا کہ معصوم بچے کے ساتھ ظلم ہو گیا۔ وہی معصوم بچہ آج کل عدالتی مفرور ہے۔ معصوم اتنا کہ اپنی پاکستانی شناخت تک سے بھی مُکرگیا۔
ایک یہ بھی انقلابِ وقت کی تصویر ہے
راہزنی، غارت گری بے داد کی تشہیر ہے
عاقبت ہے سرِ برہنہ، آبرو نخچیر ہے
آج بے نام و نشاں اسلاف کی توقیر ہے

تیسرا نشانہ اُس ادارے پر لگایا جا رہا ہے جو بہت سے ٹی وی انٹرویوز کے مطابق شریفوں کی اپنی فخریہ پیش کش ہے۔ شہید بی بی کی دوسری حکومت کو گھر بھجوانے کی کہانی کون نہیں جانتا۔ شریفانہ جمہوریت کے تاجداروں نے معروف اور ثِقہ اخبار نویسوں کو بلا یہ دھماکہ خیز انکشاف کیا تھا کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت جا رہی ہے۔ پھر یہ حکومت آئینی مدت پوری کرنے سے پہلے واقعی چلی گئی۔ شریف پلس لغاری گٹھ جوڑ بھی سب جانتے ہیں۔ اس لیے اس موضوع پر حرف و قرطاس ضائع کرنے کی ضرورت کہاں۔ اس ہولی الائنس کے نتیجے میں احتساب آرڈیننس مجریہ 1996 جاری ہوا۔ جس کا واحد نشانہ اپوزیشن تھی۔ یہی الائنس نواز شریف کی شکل میں 1997 میں برسرِ اقتدار آ گیا۔

دو تہائی اکثریت سے بھی بھاری مینڈیٹ سے مخمور، آلِ شریف نے فوراً 3 قوانین تخلیق کر ڈالے۔ پہلا؛ احتساب ایکٹ 1997‘ دوسرے‘ قانون کے نیچے فوجی عدالتیں بنا دی گئیں‘ جنہیں لیاقت حسین کیس میں سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا۔ تیسرا قانون تھا، انسدادِ دہشت گردی کا ایکٹ مجریہ 1997‘ یادش بخیر! ایک قانون اور بھی تھا۔ حسرت ان غنچوں پر ہے، جو بن کھلے مرجھا گئے۔ وہ قانون نہ بن سکا‘ جس کے نتیجے میں نواز شریف اپنے آپ کو امیرالمومنین ”ڈکلیئر‘‘ کرنے سے بال بال بچ گئے۔

1997 والے احتساب ایکٹ کے تحت اپوزیشن لیڈر شہید بی بی، میں بی بی کے وکیل کی حیثیت سے، آفتاب شعبان میرانی اور ناہید خان شریف احتساب کے چیف کمشنر مرحوم جسٹس مجدد مرزا سے ملنے گئے۔ پریس ساتھ تھا۔ جسٹس مرزا صاحب پر اس قدر حکومتی دبائو تھا کہ وہ اپوائنٹمنٹ دینے کے باوجود ہمارے پہنچتے ہی سیکٹر G-5 اسلام آباد میں واقع دفتر چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے۔ بھاری مینڈیٹ کی اپوزیشن کی یہ حرکت آلِ شریف پر بہت ناگوار گزری‘ جس کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں احتساب کمیشن کے خاتمے کا بل پیش ہوا۔ حکومت نے احتساب کمیشن توڑ ڈالا‘ کیونکہ شریف سرکار کے کاغذوں میں جسٹس ریٹائرڈ مجدد مرزا مشکوک ہو گئے تھے۔

جمہوریت کو مضبوط اور احتساب کو ٹرانسپیرنٹ بنانے کے لیے شریف حکومت نے اپنے ایک گھریلو ماسی نما سینیٹر کو احتساب سیل کا چیئرمین لگا دیا۔ 12 اکتوبر 1999 کے دن مشرف نے حکومت ہتھیا لی۔ تب سے لے کر اب تک آلِ شریف نے پنجاب میں 10 سال اور مرکز میں 5 سال حکومت چلائی۔ مجال ہے کہ احتساب کے ادارے کے خلاف کبھی ایک لفظ بھی کہا ہو۔ پھر یہ بھی شریفوں کا ہی اعزاز رہا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف خود جا کر درخواستیں دائر کرتے آئے ہیں۔ جب بھی ان کو اقتدار ملا‘ انھوں نے 2 ہی نعرے لگائے: عدلیہ آزاد ہے‘ پہلا نعرہ‘ جس کے خلاف مقدمہ ہو وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے، عدالتوں کا سامنا کرے کیونکہ قانون سے کوئی بالا تر نہیں۔ پنجاب کرپشن کے گرفتارِ اعلیٰ کی درجنوں ویڈیو کلپس اور سینکڑوں بیانات ریکارڈ پر ہیں۔

اپوزیشن لیڈر کے طور پر نواز شریف اچھل اچھل کر کہتے تھے: جس پر مقدمہ بنے وہ پہلے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے۔ عدالت سے کلیئر ہو اور پھر بے شک واپس آ جائے۔ اسے طرفہ تماشا کہیے کہ جب نواز شریف پر مقدمہ بنا تو انھوں نے قانون کی بالا دستی تسلیم کرنے کی بجائے ‘کیوں نکالا‘ کا راگ الاپنا شروع کر دیا‘ لیکن قدرت کبھی نا انصافی نہیں کرتی۔ نیچرل جسٹس کے اصولوں کے عین مطابق نواز شریف صاحب کو قدرت نے اپنے اَن گنت اعلانات پر عمل کرنے کا ایک اور موقع دے دیا ہے۔ ان کے برادرِ اصغر المعروف پنجاب سپیڈ پر مقدمہ بن گیا ہے۔

نواز شریف چاہیں تو حق کا بول بالا اور کرپشن کا منہ کالا کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے بھائی سے کہیں: اسمبلی سے استعفیٰ دو‘ اپنے خلاف مقدمات میں عام پاکستانی کی طرح عدالتی دفاع کرو‘ کلیئر ہو جائو تو عہدے پر واپس آ جائو۔ نواز شریف نے ایک اور ریکارڈ ساز سچ بول رکھا ہے۔ قدرت نے وہ بھی سچ کر دکھایا۔ وہ تب جب نواز شریف کو دوسری بار کرپشن میں سزا سُنائی گئی۔ سابق وزیر اعظم کا سچ تھا یہ دلدوز نوحہ ”میں جب بھی آگے قدم بڑھاتا ہوں وہ لوگ پیچھے سے بھاگ جاتے ہیں‘ جنہوں نے نعرہ لگایا ‘نواز شریف قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔ صرف پنڈی اور اسلام آباد میں نواز شریف کی پارٹی کے 2 میئر، سارے ڈپٹی میئرز اور کونسلرز سینکڑوں میں ہیں۔ لاہور میں یہ تعداد ٹرپل کر لیں۔ اس کے باوجود نہ کہیں ملین مارچ ہوا نہ ہی کہیں پبلک پاور کا شو ڈائون ہو سکا۔

سیاسی اخلاقیات میں وَن لائنر سب سے زیادہ قابلِ گرفت ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ ”سپر ہٹ‘‘ بھی۔ لیکن جن کے وَن لائنر اخلاق بافتہ ہوں وہ اُنہیں تُھوک کر چاٹنے پڑتے ہیں۔ ایسا ہی تھوک ان دنوں تھوک کے حساب سے چاٹنے کا کاروبار زوروں پر ہے۔ کچھ دن گئے شہبازشریف پیٹ پھاڑ کر کرپشن کے پیسے ڈھونڈا کرتے تھے۔ آج کل وہ سوئی دھاگہ لے کر سارے پھٹے ہوئے پیٹوں کی مرمت پر نکل چُکے ہیں۔ اصول راج نیتی یا سیاست کاری میں ہوتے ہیں۔ جبکہ تجارت اور کاروباری دنیا میں ریٹ لگتے ہیں۔ نرخ نامے دکانوں کے باہر آویزاں کیے جاتے ہیں۔ جرموں کی تجارت کا آخری ریٹ روپوں اور ڈالروں میں نہیں‘ سالوں اور جیلوں میں لگتا ہے۔ کہاں سیاسی شرافت اور کہاں داغ دار مجرموںکی تجارت۔
زندگی کرتی ہے جرموں کی تجارت آج کل
چیختی ہے راہ گزاروں پر شرافت آج کل
علم کے ماتھے پہ ہے داغِ جہالت آج کل
آدمیت ان دنوں اِک لاشۂ تقدیر ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے