سیرت کا سائنسی پہلو اور وزیراعظم کی یونیورسٹی

سرکارِ مدینہ حضرت محمد کریمؐ اپنی ریاستِ مدینہ میں سائنسی علوم کی سمت کا جو تعین فرما گئے اس کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے‘ جسے امام محمد بن اسماعیل رحمہ اللہ اپنی صحیح بخاری میں لائے ہیں۔ حدیث کو بیان کرنے والے حضورؐ کے چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباسؓ ہیں‘ کہتے ہیں ”ایک رات میں نے اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہؓ کے گھر میں گزاری۔ اللہ کے رسولؐ کچھ دیر تو اپنی اہلیہ محترمہ حضرت میمونہؓ کے ساتھ گفتگو فرماتے رہے‘ پھر سو گئے۔

جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہ گیا تو آپؐ بیدار ہو گئے‘ بیٹھ گئے‘ (تاروں بھرے) آسمان کی طرف دیکھا اور سورئہ آلِ عمران کی آخری گیارہ آیات پڑھیں۔ بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل سے کام لینے والوں کے لئے بہت ساری نشانیاں ہیں۔ اس کے بعد اللہ کے رسولؐ اٹھ کھڑے ہوئے۔ وضو اور مسواک کی۔ گیارہ رکعت (تہجد کی) نماز ادا کی۔ اس کے بعد حضرت بلالؓ نے (فجر کی) اذان دی۔ اب آپؐ نے دو رکعت نماز پڑھی‘ پھر (گھر سے) نکلے اور (مسجد نبوی میں) صبح کی نماز پڑھائی۔ (بخاری:4569)

قارئین کرام! تہجد کی نماز ہمارے پیارے اور محبوب رسول گرامی کا روزانہ کا معمول تھا اور تاروں بھرے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر سورئہ آل عمران کی آخری گیارہ آیات کو پڑھنا بھی معمول تھا۔ ایسی راتوں میں سے ایک رات کا ذکر حضرت عائشہؓ سے یوں ملتا ہے کہ مشہور تابعی حضرت عطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اور حضرت عبید بن عمیر رحمہ اللہ (حضورؐ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد) ام المومنین حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جناب عبداللہ بن عمیر رحمہ اللہ عرض کرنے لگے! ہمیں اللہ کے رسولؐ کا کوئی ایسا واقعہ سنایئے جو عجیب اور منفرد ہونے میں اپنی مثال آپ ہو اور وہ واقعہ آپؓ کا چشم دید ہو۔

یہ بات سن کر حضرت عائشہؓ رونے لگ گئیں۔ کچھ دیر اماں جان کے آنسو بہتے رہے پھر فرمانے لگیں۔ راتوں میں سے وہ ایک ایسی رات تھی کہ اللہ کے رسولؐ مجھ سے فرمانے لگے۔ اے عائشہؓ! ذرا مجھے اپنے سے الگ وقت گزار لینے دو‘ میں (اکیلے میں) اپنے رب کریم کی عبادت کرنا چاہتا ہوں۔ میں عرض کرنے لگی‘ اے اللہ کے رسولؐ! میں اپنے اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتی ہوں‘ مجھے آپؐ کا قرب انتہائی پیارا اور محبوب ہے۔

یہ بھی عرض کروں‘ میں اسی چیز سے محبت کرتی ہوں جو آپؐ کو خوش رکھے۔ حضرت عائشہؓ مزید بتلاتی ہیں کہ اس گفتگو کے بعد آپؐ اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپؐ نے وضو کیا‘ پھر آپؐ نماز میں کھڑے ہوئے۔ آپؐ رونے لگ گئے اور لگاتار روتے ہی چلے گئے‘ حتیٰ کہ آپؐ کی ریش مبارک اور اس کے نیچے گود والی جگہ تربتر ہو گئی۔ اس کے بعد بھی رونے کا سلسلہ جاری رہا۔ آپؐ اس قدر روئے کہ زمین بھی مبارک آنسوئوں سے گیلی ہو گئی۔ اس کے بعد حضرت بلالؓ اذانِ فجر کی اجازت لینے آ گئے۔ انہوں نے جب آپؐ کو روتے ہوئے دیکھا تو عرض کیا‘ اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ رو رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دی ہیں۔ اس پر آپؐ نے جواب دیا‘ میں (اللہ تعالیٰ کا) شکر گزار بندہ کیوں نہ بنوں؟ (ابن حبان‘ صحیحہ البانی:67)

قارئین کرام! مذکورہ حوالے کے ساتھ امام حضرت ناصر الدین البانی رحمہ اللہ حضرت محمد کریمؐ کا فرمان لائے ہیں کہ کائنات کے بارے میں غوروفکر والی مذکورہ آیات کے بارے میں صحابہؓ سے فرمایا ”مجھ پر آج رات ایسی آیات نازل ہوئی ہیں کہ جس شخص نے ان آیات کو پڑھا اور پھر ان پر غوروفکر نہیں کیا اس کے لئے ہلاکت و بربادی ہے۔‘‘ امام البانی نے مذکورہ حدیث پر جو عنوان قائم کیا ہے وہ ہے ”وُجُوْبُ التَّفَکُّرِ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ‘‘ یعنی آسمان و زمین (کائنات) کی تخلیق پر غوروفکر کرنا واجب ہے۔ اللہ اللہ! فرض کے قریب پہنچے ہوئے واجب سائنسی عمل کو ہم نے تو نظرانداز کر دیا مگر کائنات کی تخلیق کا واقعہ (BIG BANG) کی صورت میں آج کی سائنس نے انسانیت کے سامنے پیش کر دیا۔ جدید ترین یورپین لیبارٹری سرن نے بھی اپنے تجربے سے اس کی تصدیق کر دی۔ ”بگ بینگ‘‘ یعنی دھماکے سے بنی کائنات کے تجربے نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ کچھ نہ تھا جب دھماکہ ہوا اور یہ کہ جس نے دھماکہ کیا وہی کائنات کا خالق ہے۔

اس خالق نے مذکورہ آیت میں واضح کر دیا ہے کہ رات دن ایک دوسرے کی جگہ سنبھال رہے ہیں۔ رات اور دن متواتر ایک دوسرے سے اختلاف کر رہے ہیں اور جب ایسا کر رہے ہیں تو زمین (Rotate) کر رہی ہے۔ اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے۔ قرآن میں یہ جو منظر بیان ہوا ہے یہ تو بیسویں صدی میں سامنے آیا ہے۔ خلاء میں پہنچائی گئی ”حبل سپیس دوربین‘‘ سے سامنے آیا ہے۔ ناسا کے چھوڑے ہوئے وائیجرون اور وائیجر ٹو سے سامنے آیا ہے۔ آج یوٹیوب پر ان مناظر کو ہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے ساڑھے چودہ سو سال قبل حضرت محمد کریمؐ کو مذکورہ منظر کے متعلق کس نے آگاہ کیا؟ جی ہاں! جس نے کائنات بنائی‘ اسی خالق نے آگاہ فرمایا۔ قرآن میں دن رات پیدا ہونے کا منظر اسی طرح بیان کیا گیا ہے کہ جیسے اوپر سے کوئی سورج اور زمین کو دیکھ رہا ہو۔ اللہ اللہ! اللہ کریم ہی دیکھنے اور اپنے آخری رسولؐ کو بتلانے والے ہیں۔

میں کہتا ہوں‘ میرے حضورؐ جب مکہ میں ہوتے ہوئے براق کے ذریعے ساتویں آسمان پر تشریف لے گئے تھے تو یہ سارے مناظر دیکھتے ہوئے تشریف لے گئے تھے۔ اب مدینہ منورہ میں میرے مولا کریم نے انہی دیکھے ہوئے مناظر میں سے ایک منظر کو قرآن بنا کر نازل فرمایا تو میرے حضورؐ کی یادیں تازہ ہو گئیں‘ لہٰذا آپؐ ہر رات کو بیدار ہوتے‘ آسمان کی طرف دیکھتے‘ آیات تلاوت فرماتے اور پھر اللہ تعالیٰ کی عظمتوں اور محبتوں کو سامنے رکھ کر شکرانے کے آنسوئوں سے اپنی داڑھی مبارک‘ سینہ مبارک‘ پیٹ مبارک اور مبارک قدموں کے درمیان کی جگہ کو گیلا اور تربتر کر دیتے۔

وزیراعظم پاکستان محترم عمران خان وزیراعظم ہائوس کو سائنسی یونیورسٹی بنانا چاہتے ہیں۔ قانونی طور پر قومی اسمبلی سے بل پاس ہونے کے بعد مذکورہ عمارت یونیورسٹی بن سکے گی۔ تاہم انہوں نے فی الحال پڑوس کی عمارت میں تحقیقی ادارہ قائم کر دیا ہے۔ میری گزارش یہ ہے کہ اداروں کے بجائے یونیورسٹی ہی بنائی جائے۔ اس یونیورسٹی کا ایک شعبہ ”سیرت اور سائنس‘‘ کے عنوان سے قائم کیا جائے جس میں قرآن کی آیات کی روشنی میں جدید سائنسی انکشافات کو سامنے لایا جائے۔ احادیث اور سنت میں جو سائنسی حقائق ہیں ان کو سامنے لایا جائے۔ سائنس کی جدید ترین بین الاقوامی لیبارٹریوں سے بھی ریسرچ کرائی جائے اور جو ریسرچ پاکستان میں ممکن ہو وہ پاکستان میں کی جائے۔ سپیس میں بھی آگے بڑھا جائے‘ خاص طور پر میڈیکل اور دیگر سائنسی شعبوں میں مذکورہ کام کیا جائے۔

مدارس کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اپنی بساط کے مطابق مذکورہ واجب پر عمل پیرا ہوں۔ ماننا پڑے گا کہ ہم سائنسی طریقے سے دفاع‘ میڈیکل اور فضا و خلا میں تحقیق کر کے آگے نہیں بڑھے جس کی وجہ سے ہلاکت و بربادی کا شکار ہوئے۔ حضورؐ کے فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اس بربادی سے بچ سکتے ہیں اگر ہم سائنسی بنیادوں پر آگے بڑھنے کا عزم کر لیں گے۔ (انشاء اللہ)

نوٹ: گزشتہ کالم میں باغ صدقہ کرنے کے سلسلہ میں حضرت ابودردائؓ کی جگہ پر حضرت ابو دحداحؓ پڑھا جائے (شکریہ)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے