بنگالیوں کا قتل عام ۔۔۔ پاکستان دشمن بیانیہ

شیخ مجیب پاکستان سے رہا ہو کر لندن پہنچے تو کہا ’’ پاکستان نے 10 لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا ہے‘‘۔ لندن سے ڈھاکہ جاتے ہوئے دلی میں رکے تو ان پر نیا ’ انکشاف‘ ہوا اور کہا ’’ پاکستان نے ہمارے 35 لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا ہے‘‘۔ کچھ دن گزرے تو ایک باقاعدہ بیان جاری فرما دیا کہ پاکستان نے 30 لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا اور 3 لاکھ عورتوں کی عصمت دری کی گئی‘‘۔ بعد میں یہی اعدادوشمار بنگلہ دیش اور بھارت کا بیانیہ بن گئے اور انہیں دہرایا جاتا رہا ۔ سوال یہ ہے اس بے بنیاد پراپیگنڈے کا علم و تحقیق کی دنیا میں کیا کوئی اعتبار ہے؟

واردات کو سمجھنے کے لیے یہاں ایک لمحے کے لیے رک جائیے اور اسلم اچھو کے مارے جانے پر حسین حقانی کے تازہ ٹویٹ کو دیکھ لیجیے۔ حسین حقانی جیسے کردار آج سے نہیں برسوں سے بروئے کار آ رہے ہیں۔ جس بغض ، نفرت اور تعصب کے ساتھ حسین حقانی نے ٹویٹ کر کے سامنے کی حقیقت کو جھٹلا تے ہوئے واقعات کی مرضی کی تعبیر کی، بالکل اسی خبث باطن سے سانحہ مشرقی پاکستان کا بیانیہ تشکیل دیا گیا اور پاکستان اور اس کے اداروں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ۔ اس بیانیے کے ابلاغ میں غیر ملکی قوتیں بھی شامل ہیں اور ان کے پے رول پر موجود مقامی کارندے بھی ۔ مقصد بہت واضح ہے، پاکستانیوں کو فکری طور پر اپاہج کر دو، انہیں باور کرا دو کہ دنیا کی ہر برائی ان میں ہے تاکہ وہ اپنی تاریخ کو شرمند گی کے ایک بوجھ کے سوا کچھ نہ سمجھیں اور نفسیاتی مریض بن کر رہ جائیں۔

باقی دلائل اور شواہد کو تو ایک طرف رکھ دیں سب سے پہلے بنگلہ دیش اور بھارت سے آنے والی گواہیاں اور تضادات دیکھ لیتے ہیں ۔ بنگلہ دیش کے پہلے وزیر اطلاعات شیخ عبد العزیز کے مطابق یہ اعدادو شمار غلط ہیں ۔ خود جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ نے ان اعدادو شمار کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔صورت حال یہ تھی کہ 21 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ سے شائع ہونے والے ’ پوربو دیش‘ کے اداریے میں سوال اٹھایا گیا کہ لوگ جاننا چاہتے ہیں کتنے لوگ قتل ہوئے ۔ پھر ایک ہی رات میں اس اخبار کے محققین کرام اپنی تحقیق پوری کر لیتے ہیں اور اگلے ہی روز اداریے میں دعوی فرمایا جاتا ہے کہ 30 لاکھ لوگ قتل کیے گئے۔

یہ فسانہ کہاں سے آیا ؟ اس راز سے بھی کسی اور نے نہیں ، خود بنگلہ دیش کے پہلے سیکرٹری خارجہ سید انوار الکریم نے پردہ اٹھا دیا ۔ ان کا کہنا یہ اعدادو شمار مبالغہ آمیزی پر مبنی ہیں اور جب میں نے مجیب سے پوچھا یہ اعدادوشمار کہاں سے لیے تو معلوم ہوا روس کے کمیونسٹ پارٹی کے ایک اخبار ’ پراودا‘ نے ایسا لکھا تھا ۔ ابھی چند سال قبل24 اپریل 2014 کے دی ہندو میں بھارت کے یہودی جنرل جیکب کی رائے سامنے آئی ۔ اس کے مطابق بھی یہ تعداد ہزاروں میں تھی ۔

بنگلہ دیش صحافت میں ایک معتبر نا م جوہری کا رہاہے ۔ ان کی کتاب ’’The Riddle of Thirty Lakh‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ بات سرا سر جھوٹ ہے ۔ ان کے مطابق انہوں نے مختلف اضلاع کا دورہ کر کے لوگوں سے سوال کیا کہ کیا کسی کی پاکستانی فوجی نے عصمت دری کی ۔ ان میں سے ہر فرد نے کہا ’’ نہیں کی‘‘۔ انہوں نے کتاب میں ایک اہم سوال اٹھایا کہ شیخ مجیب نے اعدادو شمار کہاں سے لیے اور سروے کس نے کیا ؟ ٖ گارجین کے ولیم ڈورمند کی ایک رپورٹ 6 جون 1972 کو شائع ہوئی اس رپورٹ کے مطابق قتل عام کی بات محض یک افسانہ ہے جسے اچھالا گیا۔

بنگلہ دیش ہی کے ایک محقق نعیم مہیمن کا ایک مقالہ ہے جو ’ اکنامک ایند پولیٹیکل ویکلی‘ میں 26 جنوری 2008 کو شائع ہوا ان کے مطابق یہ جھوٹ بنگلہ دیش میں اس تواتر سے دہرایا گیا کہ اس پر سوال اٹھانا اب ممکن نہیں رہا ۔ ہٹلر نے مبینہ طور پر 60 لاکھ یہودیوں کو 6 سال میں قتل کیا ۔ 30 لاکھ بنگالی 7 ماہ میں کیسے قتل ہو گئے؟ 26 مارچ کو آپریشن شروع ہوا اور 16 دسمبر تک کے ایام گن لیں تو شیخ مجیب کے الزام کے مطابق گویا ہر روز 11 ہزار پانچ سو کے قریب بنگالی قتل ہوئے ۔ یعنی ہٹلر سے چھ گنا زیادہ قتل عام ۔ کیا اس سے بے ہودہ الزام بھی کوئی ہو سکتا ہے؟

یہ بھی مت بھولیے کہ شیخ مجیب نے 1972 میں مقتولین آزادی کے تفصیلات جمع کرنے کے لیے ایک 12 رکنی کمیشن بنایا تھا ۔ اسے عبد الرحیم انکوائری کمیشن کہا جاتا ہے۔ سرکاری سطح پر اس کی تشہیر ہی نہیں کی گئی بلکہ شیخ مجیب نے عوامی لیگ کے تمام عہدیداروں کو تفصیلات اکٹھا کرنے کا حکم دیا ۔ جب تحقیق سامنے آئی تو کیا آپ کو معلوم ہے اس فہرست میں کتنے مقتولین کا نام درج تھا ؟ دو ہزار۔ جی ہاں گارجین کی6 جون 1972کی رپورٹ کے مطابق صرف دو ہزار بنگالی ایسے لوگ تھے جن کے بارے میں کہا گیا کہ فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔ولیم دورمنڈ کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ پڑھی تو شیخ مجیب غصے سے کانپنے لگ گیا ، رپورٹ کو اٹھا پر زمین پر دے مارا اور چلانے لگا کہ یہ رپورٹ اپنے پاس رکھو میں نے تیس لاکھ کہہ دیا تو بس تیس لاکھ ہی ہیں۔

شرمیلا بوس نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ غیر بنگالیوں کی لاشوں کی تصاویر لے کر جنہیں مکتی باہنی نے مارا تھا یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ بنگالی ہیں جنہیں پاکستانی فوج نے قتل کیا ہے۔ یہی بات ’’ ایسٹ پاکستان ٹریجڈی‘‘ میں پروفیسر شبروک ولیم نے بھی لکھی ہے۔

عصمت دری کے الزام پر بھی شرمیلا بوس کی گواہی پڑھ لیجیے : ’’پاکستانی افواج پر عورتوں کی بے حرمتی کا الزام بے بنیاد ہے۔ میں نے وسیع پیمانے پر انٹر ویوز ، مکالموں اور تحقیق سے یہ دیکھا ہے کہ پاکستانی فوج نے عورتوں کو نہیں بلکہ صرف مقابلہ کرنے والے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا‘‘۔

امریکہ میں بنگلہ دیش کے سابق سفیر شمشیر احمد چودھری ان اعداد و شمار کو شرارت پر مبنی قرار دے چکے ہیں ۔ شیخ مجیب نے عصمت دری کی شکار خواتین کے لیے تین ہزار ٹکا کی رقم کا اعلان کر کے بھی دیکھ لیا پھر بھی اسے ناکامی ہوئی ۔ چند ہزار خواتین کی فہرست بن سکی جو مکتی باہنی اور بھارت فوج کے ہاتھوں بر بریت کا شکار ہوئیں ۔ یاسمین سائیکیا کی کتاب’’ وومن ، وار اینڈ دی میکنگ آف بنگلہ دیش‘‘ میں لکھا گیا کہ مکتی باہنی اور بھارتی افواج نے بہاری اور غیر بنگالی عورتوں کی عصمت دری کی ۔ یہی بات بینا ڈی کوسٹا نے ’’نیشن بلڈنگ ، جنڈر اینڈ وار کرائمزان ساؤتھ ایشیا ‘‘ میں لکھی ہے۔

پاکستان ، افواج پاکستان اور البدر کو یکطرفہ اور بے بنیاد پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا گیا اور مکتی باہنی اور بھارتی افوواج کی درندگی پر پردہ ڈال دیا گیا ۔ چنانچہ آج کسی کو معلوم نہیں مکتی باہنی اور بھارتی افواج نے مل کر وہاں کیا کیا ۔ چلیں اگلے کالم میں اس پر بھی بات کر لیتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے