اہلِ صحافت کی اخلاقی ذمہ داری

اگر میدانِ سیاست کی تقسیم فرشتوں اور شیطانوں کے مابین ہے تو پھر ہمیںدوٹوک فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کس گروہ کے ساتھ ہیں۔ پھر ایک طرف سر تا پا حق ہے اور دوسری طرف سر تا پا ناحق۔ اس صورت میں یہ ایک اصولی بحث ہے۔ اگر تقسیم انسانوں کے درمیان ہے تو پھر معاملہ ترجیح کا ہے۔ اس صورت میں یہ ایک فروعی بحث ہے۔ فروعات میں کبھی حتمی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔

مذہب کی روایت میں حق و باطل کی تقسیم اُس وقت ہوتی ہے جب اللہ کا پیغمبر بنفسِ نفیس موجود ہو۔ پیغمبر کا وجود اس حوالے سے پیمانہ ہے۔ رسالت مآب سیدنا محمدﷺ دنیا سے رخصت ہوئے تو وہ ہستی ہی موجود نہ رہی جو معیارِ حق تھی۔ آپؐ کے بعد جو آئے، انہوں نے اللہ کے رسول کی صحبت سے فیض اٹھایا۔ قدسیوں کی یہ جماعت ایسی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن مجید میں نہیں، تورات اور انجیل میں بھی ان کا ذکر کیا۔ اللہ نے ان کو اپنی رضا کا پروانہ عطا کیا۔ اس کے باوصف اس جماعت کے جلیل القدر لوگوں کے بارے میں، اس امت میں ایک سے زیادہ آرا موجود ہیں اور دونوں آرا کو اسلام کے دائرے میں قبول کیا جاتا ہے۔ سبب ایک ہی ہے کہ معیار صرف اللہ کے رسول ہیں۔ جو لوگ صحابہ کو معیار کہتے ہیں، وہ بھی اس بنیاد پر کہ صحابہ پیغمبر کی اس طرح اتباع کرتے تھے جیسے اتباع کا حق ہے۔

جب ایسے گروہ کے بارے میں دوسری رائے کو قبول کیا گیا تو بعد کے ادوار پر یہ بات بدرجہ اُتم صادق آتی ہے۔ بنو امیہ اور بنو عباس سے لے کر آج تک جو حکمران گزرے ہیں، ان کے بارے میں دو آرا موجود ہیں‘ اور یہ فطری ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ آج کے اہلِ سیاست کو استثنا دے دیا جائے۔ ہمارے سیاست دان انسان ہیں۔ ان میں خوبیاں ہوں گی اور خامیاں بھی۔ ہم ان کے رد و قبول کا فیصلہ ترجیح کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ یہ ترجیح ایک اجتہادی امر ہے۔ ترجیح کسی دلیل کی بنیاد پر ہو گی۔ دلیل کو قبول کیا جا سکتا ہے مگر غلطی کے امکان کو تسلیم کرتے ہوئے۔

یہ ترجیح بھی جن بنیادوں پر دی جاتی ہے، وہ تمام تر موضوعی ہیں۔ مثال کے طور پر اخلاقیات۔ مذہبی روایت میں اخلاقیات موضوعی مسئلہ نہیں ہے، اس کے با وصف، ہمارے ہاں اس باب میں ایک سے زیادہ آرا موجود ہیں۔

مذہبی لوگوں کی تفہیم ِاخلاقیات میں بھی اختلاف ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ بد اخلاقی یا کرپشن صرف مالی امور تک محدود ہے۔ اگر کوئی آدمی مالی امور میں پاک دامن‘ ہے تو وہ صادق اور امین ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ بد اخلاقی یا کرپشن میں ان تمام حدود سے تجاوزات شامل ہیں جو اللہ نے مقرر کی ہیں۔ اگر کوئی دین کے قائم کردہ انفرادی شرم و حیا کے پیمانے پر پورا نہیں اترتا تو وہ بھی بد اخلاق (کرپٹ) ہے۔

ہمارے اہلِ سیاست میں بعض کی شہرت یہ ہے کہ بظاہر اخلاقیات کے پہلے پیمانے پر پورا نہیں اترتے۔ بعض کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ دوسرے پیمانے پر بظاہر کم وزن پائے گئے۔ کچھ لوگ پہلی نوع کے سیاست دانوں کا انتخاب کرتے اور اس کی دلیل دیتے ہیں۔ کچھ دوسری طرح کے سیاست دانوں کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے لیے دلیل پیش کرتے ہیں۔ یہ سب دلائل ہمارے سامنے ہیں۔ ہم دوسروں کی رائے کو غلط کہہ سکتے ہیں مگر اس پر کوئی فتویٰ کیسے لگا سکتے ہیں؟

میں اس بات کو مزید واضح کر تا ہوں۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ملک کا اصل مسئلہ مالی کرپشن ہے۔ اس کے حل کے لیے ضروری ہے کہ ان سیاست دانوں کا ساتھ دیا جائے جو اس معاملے میں زیادہ حساس دکھائی دیتے ہیں۔ ایک گروہ یہ رائے رکھتا ہے کہ ملک کا اصل مسئلہ سیاسی استحکام ہے۔ اس کے لیے ان سیاست دانوں کا انتخاب کرنا چاہیے جنہیں حقیقی سیاسی عصبیت حاصل ہے اور جو معاملاتِ ریاست کی بہتر سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ یہ اختلاف کفر ‘اسلام کا مسئلہ نہیں ہے۔

میری رائے ہے کہ نواز شریف اور بھٹو خاندان کو اس ملک میں سیاسی عصبیت حاصل ہیں۔ پاکستان کو جن خارجی اور معاشی مسائل کا سامنا ہے، ان کا تقاضا یہ ہے کہ ملک میں داخلی استحکام ہو۔ اگر ہم ملک میں موجود سیاسی عصبیتوں کو ناراض کریں گے اور انہیں اپنی ریاست سے شکایات ہوں گی تو یہ صورتِ حال پاکستان میں عدم استحکام کا باعث ہو گی۔ اگر آج سیاسی عصبیت رکھنے والے گروہوں سے کوئی شکایت ہو تو بھی ملک کے وسیع تر مفاد میں ان سے صرفِ نظر کیا جانا چاہیے۔ ریاستی اداروں کا سیاسی جماعتوں سے باہم دست و گریبان ہونا نیک شگون نہیں۔

میرا کہنا یہ بھی ہے کہ نواز شریف صاحب کے معاملے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔ ان کو بطورِ خاص ہدف بنایا گیا اور اس کی وجہ ان کی مبینہ کرپشن نہیں، سرا سر سیاسی ہے۔ ان کے خلاف ہونے والے اقدامات کا تعلق اقتدار کے کھیل سے ہے۔ یہ بات وہ لوگ بھی مانتے ہیں جو انہیں مالی امور میں دیانت دار نہیں سمجھتے۔ ایسے حضرات کی طرف سے یہ بات بارہا لکھی اور کہی گئی کہ اگر میاں صاحب طاقتوروں سے معاملہ کر لیتے تو انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ زرداری صاحب کو ابھی عدالت کا مرحلہ درپیش ہے۔ یہ اب عدالت کو طے کرنا ہے کہ جے آئی ٹی کس حد تک حقائق پر مبنی ہے۔

سیاسی تجزیوں میں مخالف نقطہ نظر رکھنے والوں کو القاب سے نوازنا بھی خوش ذوقی نہیں ہے۔ القاب کے ساتھ پکارنے سے قرآن مجید نے منع کیا ہے۔ جو اس حرکت کا مرتکب ہوتا ہے، اخلاقی حوالے سے خود اس کی شخصیت کے بارے میں کوئی اچھا تاثر قائم نہیں ہوتا۔ اگر کوئی رائے ساز حکومت میں کوئی منصب لیتا ہے تو آپ اس فعل پر تنقید کر سکتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اقدام اس کی رائے کو متاثر کرتا ہے۔ مگر یہ کہ ایک خاص فرد نے یہ منصب اپنے اخلاقی وجود کی قربانی دے کر حاصل کیا ہے، ایک غیر مناسب تبصرہ ہے۔ اگر کسی کے پاس شواہد ہیں کہ ایسے منصب سے ناجائز فائدہ اٹھایا گیا ہے یا ناجائز طریقے سے حاصل کیا گیا ہے تو وہ سامنے لانا چاہئیں۔ بصورتِ دیگر محض منصب لینے کو غیر اخلاقی قرار دینا کسی اچھے اخلاقی رویے کا اظہار نہیں۔

کسی معاشرے میں انتہا پسندی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کچھ لوگ اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔ فرع کو اصول بنا دیتے ہیں۔ یہی ہم نے مذہب میں کیا۔ لوگوں نے ماخذاتِ دین کی تفہیم میں اختلاف کیا تو مسالک وجود میں آئے۔ اہلِ علم نے اس عمل کو فطری مانا اور قبول کیا۔ جب یہ اختلافات کم علم لوگوں تک پہنچے تو انہوں نے اصول اور فرع کے فرق کو مٹا دیا‘ فرع کو اصول بنایا اور کفر کے فتوے داغنے لگے۔ فہم کے اختلاف کی بنیاد پر کسی کو گستاخ، کسی کو منکرِ حدیث یہاں تک کہ مشرک قرار دے دیا گیا۔ ایسی انتہا پسندی کا نتیجہ ہم بھگت رہے ہیں۔
حافت میں بھی اب یہی ہونے لگا ہے۔ اہلِ سیاست میں ترجیح ایک فروعی مسئلہ ہے ا لا یہ کہ آپ اہلِ سیاست کو فرشتوں اور شیاطین میں تقسیم کر دیں۔ یہ سب انسان ہیں اور ہم اپنی سمجھ کے مطابق ان میں سے کسی ایک کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں۔ ہم رائے دیتے اور قیاس کرتے ہیں۔ قیاس سے ہمیشہ ظن حاصل ہوتا ہے‘ یقین نہیں۔

اہلِ علم کبھی ظن کی بنیاد پر فتویٰ نہیں دیتے۔ آج بہت سے لکھنے والے حکومت کے حامی ہیں۔ مجھے کبھی گمان نہیں ہوا کہ ان کی یہ رائے کسی دنیاوی مفاد سے آلودہ ہے۔ مجھے رائے سے اختلاف ہوتا ہے، صاحب الرائے سے نہیں۔

مذہب میں ہم سیاسی انتہا پسندی کے نتائج بھگت چکے۔ کیا ہم چاہتے ہیں کہ ایسا ہی منظر بازارِ صحافت میں بھی دکھائی دے؟ اخلاقیات پر یقین رکھنے والا کوئی آدمی اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا۔ رائے سازوں کو تو اہلِ سیاست کو توجہ دلانا چاہیے کہ وہ سیاسی رویوں میں اعتدال لائیں۔ اگر وہ خود صحافتی انتہا پسندی کے مظہر بن جائیں گے تو یہ ذمہ داری کیسے ادا کر پائیں گے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے