انور مجید، عبدالغنی مجید کی جےآئی ٹی رپورٹ مسترد کرنے کی استدعا

اسلام آباد: جعلی بینک اکاؤنٹس/ منی لانڈرنگ کیس میں نامزد اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرنے کی استدعا کردی۔

اپنے جواب میں ملزمان نے موقف اختیار کیا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں لگائے گئے ہر الزام میں وہ بے قصور ہیں، جے آئی ٹی کے پاس کوئی بنیاد نہیں کہ وہ یہ معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیجنے کی سفارش کرتی۔

مزید کہا گیا کہ جے آئی ٹی کی کسی بھی سفارش کی منظوری دینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔

جواب میں یہ بھی کہا گیا کہ جے آئی ٹی کی ایگزیکٹو سمری اور حتمی رپورٹ کے چار والیم فراہم کیے گئے لیکن جن 924 لوگوں کے بیان ریکارڈ کیے گئے، ان کے نام فراہم نہیں کیے گئے جبکہ جس ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا وہ بھی فراہم نہیں کیا گیا۔

ملزمان نے موقف اختیار کیا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے ساتھ کوئی مواد یا دستاویزات نہیں جو الزامات کی تائید کرے، لہذا ان حالات میں جے آئی ٹی رپورٹ پر مفصل جواب دینے سے قاصر ہیں۔

[pullquote]جعلی بینک اکاؤنٹس/منی لانڈرنگ کیس کا پسِ منظر[/pullquote]

ایف آئی اے حکام کے مطابق منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اُس وقت اٹھایا گیا، جب مرکزی بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔

حکام کے دعوے کے مطابق بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر جعلی اکاؤنٹس کھولے۔ یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی، دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔

مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔

دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں جن اکاؤنٹس سے مشکوک ترسیلات ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس شامل ہیں۔

ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے، جس کے بعد 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔

تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، تاہم انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔

حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی، انہوں نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی۔

حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اومنی گروپ سربراہ انور مجید اور ان کے صاحبزادے عبدالغنی مجید، نمر مجید کے علاوہ نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی بھی اسی کیس میں گرفتار ہیں۔

دوسری جانب سپریم کورٹ نے بھی میگا منی لانڈرنگ کیس کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی تشکیل دی۔

مذکورہ کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے بھی تفتیش کی گئی جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی تحریری طور پر جے آئی ٹی کو اپنا جواب بھیجا۔

رواں ماہ 24 دسمبر کو عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی گئی اپنی رپورٹ میں جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فوائد حاصل کرنے کا ذمہ دار قرار دے دیا جس پر عدالت نے اومنی گروپ کی جائیدادوں کو منجمد کرنے کے احکامات جاری کردیے۔

دوسری جانب جے آئی ٹی رپورٹ میں شامل 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیئے گئے، جن میں انور مجید، ان کے اہلخانہ، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سمیت پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے نام شامل ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے