شرم کی بات ہے

کشمور میں ڈھیلی ڈھالی پگڑی‘ اترے ہوئے چہرے‘قلّم قلّا‘ نہ کوئی آگے نہ پیچھے‘ سٹیج پر بھی اکیلا‘ مائیک پر بھی اکیلا‘ گھر میں بھی اکیلا‘ پارٹی میں بھی اکیلا‘ ایک شخص بقول خود اپنے حاضر ین سے کہہ رہا تھا ”میں گونگے بہروں کو مخاطب کرنے کے لئے اُردو بولتا ہوں‘‘۔یہ اُردو تھی ‘توانہوں نے خود ہی کہہ دیا کہ میں گونگے بہروں کو مخاطب کرنے کے لئے اُردو میں بولتا ہوں۔( اسلام آباد میں بیٹھے گونگے بہرے ایک دوسرے کو اشاروں سے کہہ رہے تھے ”کیا یہ اُردو ہے؟

کیا یہ گونگوں کی زبان بول رہا ہے؟ کیا یہ بہروں والے اشارے کر رہا ہے؟کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا‘‘) حد یہ ہے کہ مقرر صاحب‘ حاضرین سے اپنے حق میں ایک نعرہ بھی نہیں لگوا پائے۔یہ بھٹوصاحب اور بی بی شہید کے رنگ میں تو کیا تقریرکرتا؟ وہ اپنے جلسے میں ڈاکٹر قیوم کو بھی نمایاں کر کے نہیں دکھا سکا۔ خدا جانے مقرر صاحب نے کیمرے والوں کو بھی بتا دیا تھا کہ مقرر موصوف کے لئے کوئی نعرہ نہ لگائے۔ اور وہ کیوں لگاتے؟مقرر موصوف نے بھٹو صاحب کی زندگی میں ان کا کوئی نعرہ نہیں لگایا۔ اسے معلوم تھا کہ بھٹو صاحب کا نام لیتے ہی حاضرین کا ردعمل کیا ہوتا؟مقرر موصوف کو خو ف تھا کہ ”گونگے بہرے نہیں سمجھتے۔ ہمیں یہ جتنا کاٹیں گے ‘ماریں گے‘ ہم اور بڑھیں گے۔انہوں نے بھٹو کو شہید کیا۔اس کے باوجود بھی بی بی کو نہیں روک سکے‘‘۔(اتنے باخبر مقرر تھے‘ جو بی بی اور بھٹو شہید کے ناموں کا نعرہ تک نہیںلگوا پائے)خدا جانے موصوف کس کیفیت میں جلسہ گاہ پہنچے۔ (شاید گھر سے نوٹ گن کر آئے ہوں؟)

مقرر موصوف شاید ہوش و حواس میں نہیں تھے‘ ورنہ وہ اپنی تقریر میں اس طرح کی حواس باختگی کے ساتھ پتے بازی نہ کرتے۔مقرر موصوف کے الفاظ سنیں تو انہیں برے الفاظ سے مت نوازیں۔ اب میں مقرر صاحب کے الفاظ دہراتا ہوں۔” گونگے بہرے‘‘ یہ تقریر کے الفاظ ہیں۔ گونگے بہرے نہیں سمجھتے۔ ہمیں جتنا کاٹیں گے‘ ماریں گے اور ہم بڑھیں گے۔ انہوں نے بھٹو کو شہید کیا۔ اس کے باوجود بی بی کو نہیں روک سکے۔ دو مرتبہ بی بی کی حکومت گرائی گئی۔ میری حکومت نہیں گرا سکے‘‘۔(کون سی حکومت؟)

” میں نے پانچ سال حکومت کر کے دکھائی۔ پاکستان کے لئے کام کئے۔ ہم نے متفقہ طور پر بجٹ صوبوں میں بانٹا‘ جس سے تمام صوبوں کو فائدہ ہوا۔ اپنے دور میں پانچ پل بنائے‘‘۔ (لیاری کی چھوٹی چھوٹی نالیوں میں؟) اور اب اپنے ہوش و حواس کو قابو میں رکھتے ہوئے پڑھئے۔ ”میں نے پانچ پل بنائے۔ اب چھٹا بنائیں گے‘ لیکن وہاں جو بیٹھے ہیں‘(جلسے میں؟) ان کو بات سمجھ نہیں آئی‘‘۔( آتی کیوں؟حد یہ ہے مقرر کو بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ حاضرین کوان کو بات سمجھ نہیں آنی)

اب مقرر موصوف نے براہ راست اپنی تقریرمیں حاضرین کو مخاطب کیا ” گیس کی فیلڈز میری نہیں ہیں‘‘۔(شاید خواہش پوری نہ ہو سکی) ”ایک دن آئے گا جب سندھ اپنی کمپنی بنائے گا ۔ اپنی گیس نکالے گا‘ جس طرح ہم نے کوئلہ نکالا اور اس میں عوام کو پارٹنر شپ دی۔ اس میں میرا کوئی حصہ نہیں۔(کیوں نہیں ہے؟) یہ دھندا آپ کا ہے‘ ہمارا نہیں۔آپ ہر چیز میں ٹانگ اڑاتے ہیں۔ ہم زار دار ہیں‘‘۔ (غالباً زر)”ہم اپنے حال میں خوش رہتے ہیں‘‘( نوٹ گنتے خوش رہتے ہیں) مقرر موصوف نے ایک موقع پر فرمایا ” یہ ہمیں پکڑے ہوئے ہیں کہ ہم باہر نہیں جاسکتے۔ میں نے تو ضمانت کے وقت اپنا پاسپورٹ جمع کرادیا تھا‘ مجھے ای سی ایل میں ڈالنے کی ضرورت نہیں‘‘۔(اگر ای سی ایل میں نہ ڈالتے تو پھر کیا کرتے؟)

جناب سابق صدر نے اپنے لئے یہی نقب پسند فرمایا‘ ورنہ بھٹو صاحب تو ” چیئرمین‘‘ تھے اورشہید بی بی کے پرستارانہیں ”چیئر پرسن‘‘ کہا کرتے تھے۔پیپلزپارٹی کے کارکن ان دونوں شہداء کو انہی القاب سے یاد کرتے ہیں۔

جلسے میں موصوف تن تنہا لیڈر کے طور پر نمودار ہوئے ‘ورنہ کہاں پیپلز پارٹی؟ اور کہاں چیئرمین بھٹو صاحب؟ اور کہاں بی بی شہید؟سب سے زیادہ حیرت تو لیڈر موصوف کو اس وقت ہوئی جب انہیں پتا چلا کہ بلاول بھٹو عوام کے پسندیدہ لیڈر بن چکے تھے۔بلاول کے چند جلسے دیکھ کر ہڑبڑاہٹ کے عالم میں‘ تینو ں لیڈروں کی وراثت پر قبضہ کرنے کے شوقین‘ بری طرح بوکھلا گئے۔پہلے انہوں نے بھٹو صاحب کو نظر انداز کیا‘ پھر انہوں نے بی بی شہید کو عوام کی نظروں سے اوجھل کرنے کی کوشش کی اور اب بلاول کو بھی حاضرین سے دور کرنے میںلگے ہیں۔یہ سارے کرتب دکھاتے ہوئے اچانک کسی نے انہیں بتایا کہ اصل پارٹی تو بھٹو شہید نے بنائی تھی۔ فوراً ہی جلد بازی میں ایک پوسٹر چھپوایااور جلسہ گاہ میں لگا دیا۔

گویا نہ تو بی بی شہید کی پارٹی اور عوام کے لئے کوئی قربانی تھی اور جیسے ہی بلاول کے جلسوں میں عوام کی بھاری تعداد میں شرکت دیکھی تو مقرر موصوف کے حواس کے ”توتے اڑ گئے‘‘۔بھٹو شہید اور ان کی اولاد کے نام‘ سب کو نگاہوں سے اوجھل کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعد میں خیال آیا کہ میرا تو بھٹو صاحب کی سیاست سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا‘ لیکن ایک بات مقرر صاحب بھول گئے کہ نہ تو بھٹوشہید اور بی بی شہید نے خود کو سندھ تک محدود کیا۔ حقیقت میں یہ دونوں‘ پورے برصغیر کے لیڈر تھے۔ مقرر موصوف اپنی شخصیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں ‘تو وہ بھارت کا لیڈر کہلانا پسند کرتے۔ اتنا بڑا لیڈر اور سندھ تک محدود‘ بہت شرم کی بات ہے۔نجانے موصوف نے خود کو سندھ تک کیوں محروم رکھا؟حالانکہ شہادت کے درجے میں کیا رکھا ہے؟ بھٹو شہید زندہ باد۔ بی بی شہید زندہ باد۔گیس کا مالک۔ سن لے خدایا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے