DOCTRINE OF STATE

جہالت کے زمانے میں مملکت‘قانون‘ریاست‘عدالت‘حکومت‘وسائل اور انسانوں کی ملکیت سب بادشاہوں کے حقوق تھے۔جو توسیع پسندی کا ماہر ہوکر کمزو رپڑوسی ملکوںکو ہڑپ کرسکے وہ شہنشاہ بن جاتا اوراس کے یہی حقوق عالمگیر ٹھہرتے۔اُس زمانے میں نہ اخبار تھے‘نہ رپورٹرز‘نہ میڈیا نہ انسانی حقوق‘ نہ ہی آئین نہ کوئی عمرانی معاہدہ‘نہ بیلف نہ رِٹ پٹیشن۔تب بھی مطلق العنان بادشاہوںکااحتساب ہو ا کر تا تھا‘جوسرزمین ِ وطن‘ریاست کی بقا کے اصول یا سرکاری خزانے کا غدارٹھہرتا‘اس کااحتساب کلہاڑے‘گلوٹین‘شمشیرِبراں‘8فٹ لمبے رسے یا پھرتیزدھارخنجرسے کیاجاتا۔

غرب کی رومن ایمپائر سے لے کرفارس کے دارا کی حکمرانی کے زمانے تک‘ اس کی ریکارڈڈ مثالیں موجود ہیں۔

موجودہ صدی کی تاریخ؛ البتہ رومن اور پرشیا دونوں کوشرما دینے والی ہے۔ایک نہیں ایشیا کے دو پڑوسی ملکوں میں۔

اس سلسلے کاپہلا ملک عوامی جمہوریہ چین ہے ‘ جہاں مالی خردبُرداورخزانہ لوٹنے والے فائرنگ سکواڈ کے سپرد ہوتے ہیں۔ہرمجرم کے ہاتھ اس کی پشت پرباندھے جاتے ہیں‘ جن میں ایک تختہ ٹھونساجاتا ہے‘ جس پر مجرم کے کرتوتوں کی سرخیاں لگتی ہیں اور پھر چین کے کسانوںاورمزدوروںکے خزانے کا ڈاکوسرجھکاکرفائرنگ سکواڈ کے سامنے بٹھایاجاتا ہے‘پھرکیاہوتا ہے؟ ہم میںسے کوئی ایسا نہیں‘جس نے چین میں انسدادِ بدعنوانی کے مجرموں کی اس انجام والی ویڈیونہ دیکھی ہو۔

میں کسی ماورائے آئین سزا (Public execution)‘یعنی برسرِبازار لٹکائے جانے کاحامی نہیں‘لیکن پاکستان کی جمہوریت نے انسدادِ رشوت ستانی اور بدعنوانی کاایساعالمی ریکارڈاگلے روزبنادیا ‘جس کی مثال دنیا کے196ملکوں میں کہیں بھی نہیں پائی جاتی۔نہ پہلے نہ اب اور نہ ہی آنے والی صدیوں میںیہ مثال کہیں اور معرضِ وجود میںآسکے گی۔آئیے چشمِ تصور سے 2مناظردیکھتے ہیں:افتتاحی منظرجمہوریہ پاکستان کی اسلامی پارلیمنٹ ‘ مجلس ِ شوریٰ کا ہے۔قومی اسمبلی کے سب سے بڑے کمیٹی روم کابغلی دروازہ کھلتا ہے۔سامنے قومی احتساب بیورو اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے اہلکار قطاراندرقطاربیٹھے ہیں۔

یہ ہرکارے کود کر آگے بڑھتے ہیں۔ایک نے ہیڈ چیئر پیچھے گھسیٹی‘دوسرے نے رکوع کی حالت میں جھک کردونوں ہاتھوں سے بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ یوںجمہوریت بچائو ناٹک کا ایکٹ وَن مکمل ہوا۔ایکٹ ٹو کے لیے پردہ اُٹھتاہے۔پوری ریاست کے سارے اہلکار”گرلنگ‘‘ کروانے کیلئے حاضر ہیں۔ پبلک کے پیسوں کا احتساب کرنے والی کمیٹی کی صدارتی کرسی پر کرپشن کا حوالاتی بیٹھا ہواہے۔پارلیمنٹ کی بالادستی کا ایکٹ تھری شروع ہوتاہے۔شام ڈھل رہی ہے‘ کرپشن کے حوالاتی کوانسدادِ کرپشن کے اہلکارحراست میں لے لیتے ہیں۔اب شام کی گرلنگ کاسیشن برپا ہوگا‘جس میں ملزم بینچ پراوراحتساب کرنے والے بڑی کرسی پر بیٹھ جائیں گے۔

آئیے ‘دنیا کی سیر پرچلیں۔برصغیر ایشیا سے براعظم ایشیا تک ۔براعظم یورپ‘ جنوبی امریکا‘شمالی امریکا‘افریقا‘آسٹریلیا‘انٹارکٹکا تک کے علیحدہ علیحدہ ملکوں میں رنگ برنگے نظامِ حکومت پائے جاتے ہیں۔چلئے دیدے پھاڑ کر ڈھونڈتے ہیں۔دوربین سے خوردبین تک لگاکر۔ دنیابھرمیں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں‘ جہاںصبح کو چور ‘سپاہی کا احتساب کرے اور شام ڈھلے سپاہی اُسی چور کی گرلنگ کرتا ہو۔عالمِ ارضی کی کسی بھی پارلیمنٹ میں‘کسی بھی مجلس ِ شوریٰ میں‘کسی ایوانِ بالا یا ایوانِ زیریں میںکوئی دوسری مثال نہیں ہے‘جہاںقومی وسائل کی چوری کے الزام میں گرفتار شخص ‘ قومی وسائل کی چوری کا محتسب اعلیٰ بنایا گیاہو۔

پٹواری100روپے‘کلرک50روپے‘حوالدار500 رشوت لینے‘ یا خرد برد کرنے والے الزام والی FIRمیںنامزدہوجائے تو سِول سر ونٹس ایکٹ/ایسٹاکوڈ جیسے ضوابط اسے فوراً معطل کرچھوڑتے ہیں۔جی ہاں!یہ قانون اور ضابطے کہتے ہیں کہ جرم ثابت ہونے اورسزاسے پہلے کرسی چھوڑنا ہوگی‘پھربری ہونے تک ایساشخص کارِسرکارکے لیے بے کار ہے۔ عدلیہ میں بھی ایسا ہی ہے۔تینوں مسلح افواج کا ڈسپلن اس سے بھی شدید سخت ہے‘لیکن سب ضابطے غریبوں کے لیے‘سب تعزیریں ملازموں کیلئے اور اصلی جیلیں عوام کیلئے مخصوص ہیں‘ جو ضابطہ چپڑاسی پر لاگو ہوتا ہے‘ جس کی تنخواہ14ہزار اور اختیار”زیرو‘‘ ہے۔

وہاں اربوں کھربوں کے خزانے پر ڈاکہ زن کیلئے اعلیٰ کرسی ہے‘ ضابطہ کوئی نہیں۔ذرا ایک اور پہلودیکھ لیجئے:ساری دنیامیں پہلی عدالت جسے انگریزی زبان میں Plenary Jurisdiction یعنی اولین منصفی یا پھرCourt of First Instanceبھی کہاجاتا ہے ‘اس سے شروع کرکے ملک کی آخری عدالت (Apex Court) تک‘ لاکھوں وکیل ہردن لکھ کرعدالت کو اپنے دستخط کے ساتھ دیتے ہیں فیصلہ غلط ہے۔آدھے سے زیادہ فیصلوں کے بارے میں عدالتیں خود تحریری طورپر کہتی ہیں کہ وہ فیصلے غلط تھے۔اس وقت اسرائیل کا سابق وزیراعظم ایہود المرٹ جولائی 2012ء سے مختلف سیاسی ادوار میںکی گئی کرپشن کی پا داش میں قید بھگت رہا ہے۔ ملائیشیا کا سابق وزیرِاعظم نجیب رزاق 3جولائی 2018ء اور اس کی بیوی روسما منصور 3اکتوبرسے کرپشن کے چارجز پر جیل کاٹ رہے ہیں۔یہ دو مرد اور ایک خاتون قیدی ‘کوریا کی سابق صدر پارک گِن ہئی کی طرح اصلی جیل میں بند ہیں۔ان کے آگے نہ پروٹوکول بھاگتا ہے‘نہ ہی پیچھے سرکاری گاڑیوں کاقافلہ اور خوشامدی دستے۔نہ ملا ئیشیا میں اور نہ ہی اسرائیل میں کسی نے نہیں کہا : جمہوریت خطرے میں پڑگئی ہے۔اسرائیل یا ملائیشیاٹوٹنے والا ہے اور ملک کے ادارے ان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔

ریاستی امُور‘راج نیتی‘سٹیٹ کرافٹ یہ تین لفظ نہیں‘ علیحدہ سے پوری 3ڈاکٹرائین ہیں۔آج سے نہیں ہزاروں سالوں سے ہرریاست کوامورِ مملکت چلانے کے لیے ایک ڈاکٹرائین پر عمل کرنا پڑتا ہے۔کوٹیلہ چانکیہ اور میکاولی ایسی ہی ڈاکٹرائین کے عالمی لکھاری سمجھے جاتے ہیں۔عالمی سیاسیات اور (Conflict of law)متضاد تصوراتِ قانون کے ماہرین خوب جانتے ہیں کہ ریاست کو بنیادی ڈاکٹرائین طے کرکے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ہاں البتہ ڈاکٹرائین اپنانے کی چوائس کھلی ہے۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ ریاست کاکوئی جزیاتی شعبہ یا جغرافیاتی حصہ کسی گروہ کے حوالے کردیا جائے۔ایسے علاقے کو ”نو گو ایریا‘‘قراردینے والے نان سٹیٹ ایکٹر کہلاتے ہیں‘شہری نہیں کہلا سکتے‘جس کا سادہ مطلب یہ ہوا کہ یہ عناصر ریاستی حقوق اور آئینی تحفظ جیسے بنیادی حق سے ماورا ہو جاتے ہیں۔مغرب کی ریاستیں ان کے لیے بغیر ریاست کے شہری Citizens Without Stateکی اصطلاع استعمال کرتی ہے۔

ہمارے ہاں ریاستی ڈاکٹرائین 5اجزا پر مشتمل ہے‘جن کا ضامن 1973ء کاآئین ٹھہرایا گیا۔اس ڈاکٹرائین کا پہلا جزو اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ہے۔منتخب ارکان اس”مقدس ٹرسٹ‘‘کے امانت دارہوں گے۔یہ جزو آئین کے دیباچے میں پوری وضاحت سے درج ہے‘جس کا مطلب یہ ہوا کہ ریاست کے اہل کار اور حکمران بیت المال کے چوکیدار ہیں‘سارق‘حرّابی اوراٹھائی گیرے نہیں۔اس کا دوسرا حصہ آئین کے آرٹیکل نمبر 1میںپاکستان کی ٹیرٹری کے عنوان سے موجود ہے‘یعنی اس وطن کا ہر انچ پاکستان ہے۔وفاق کے یونٹ ہوں یا خصوصی علاقے‘ جن میں سے فاٹاکو کے پی کے میں ضم کیا جاچکا ہے۔اس ریاستی ڈاکٹرائین کا تیسرا جزو ہے تمام شہریوںکے بنیادی حقوق۔جن میںقانون کے سامنے برابری آرٹیکل نمبر9,4اور25۔جبکہ نوکریوں‘وسائل‘مواقع پر سب شہریوں کا برابر حق تسلیم کیا گیا ہے۔

ڈاکٹرائین آف دی سٹیٹ آف پاکستان کا چوتھا جزو ہماری سروسزہیں۔پہلی جوڈیشل سروس‘جس کا ذمہ تنازعات و مقدمات کا قانونی حل اور آئینی و بنیادی حقوق کا نفاذ ہے۔دوسراسروس آف پاکستان اور سول سرونٹ یعنی بیوروکریسی اور پبلک کے نوکروں کی بٹالین۔تیسرے نمبر پر ہے ( Essential Services of Pakistan)پاکستان کی مسلح افواج اور دفاعی ادارے آتے ہیں۔اس ڈاکٹرائین آف پاکستان کے پانچویں نمبر پر ہے پاکستان کی ایگزیکٹیو اتھارٹی اورپارلیمان۔اسی ریاستی ونگ میں قانون نافذ کرنے والے تفتیش کار‘انٹیلی جنس کے ادارے‘جرائم سے لڑنے اور مجرموں کو پکڑنے جیسے اہم شعبہ جات شامل ہیں۔اس وقت منظم جرائم کے بڑے گروہوں کے خلاف یہی ادارے اپناقانونی اورآئینی فرض نبھانے کیلئے متحرک ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے