دودھ پیتا بچہ اور بھولا ڈنگر!

تین چار روز پیشتر میرا کالم دودھ پیتا بچہ شائع ہوا تو میرا بچپن کا دوست بھولا ڈنگر میرے پاس آیا اور میرے ساتھ بیٹھنے سے پہلے اس نے اندر پیغام بھجوا دیا تھا کہ کشمیری نمکین چائے اور باقر خانی میرے لئے بھجوا دیں، میں ناشتہ کرکے نہیں آیا۔ میں نے کہا خیریت تو ہے، صبح صبح میرا دن خراب کرنے کے لئے آ گئے ہو؟ بولا:صرف تمہارا نہیں، اپنا دن بھی تو میں نے دائو پر لگایا ہے۔

میں نے کہا:تم نے جو خرافات بکنی ہیں، بغیر تمہید کے شروع ہو جائو۔ کہنے لگا ’’تم نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ تم لوگوں کو دیر سے یہ احساس دلاتے ہو کہ تم ان کی دوستی کی اصلیت پہچان چکے ہو‘‘۔ میں نے جواب دیا ’’میں نے ایگزیکٹلی تو یہ نہیں کہا تھا، مگر تم نے جو میرے کالم سے اخذ کیا ہے، چلو میں مان لیتا ہوں‘‘۔ یہ سن کر وہ ہنسا اور مجھ سے پوچھا ’’تم اور باقی سارے لوگ مجھے بھولا ڈنگر کیوں کہتے ہو؟‘‘ میں نےکہا:اس لئے کہ تم میں انسانوں والی بات ہی کوئی نہیں، جو منہ میں آتا ہے، دوسرے کے منہ پر دے مارتے ہو، یہ بھی نہیں سوچتے کہ دوسرے کی دلآزاری ہوگی‘‘۔

اس پر بھولے نے اطمینان کا سانس لیا اور کہنے لگا ’’میں سمجھا شاید تم مجھ پر کوئی الزام تراشی کرنے لگے ہو، مگر تم نے تو بالکل صحیح بات کہی‘‘۔ مجھے اس کی یہ صاف گوئی بہت اچھی لگی اور میں نے اسے شاباش دی۔ میری شاباش پر وہ خوش ہوا اور بولا ’’اب تم بھی لگی لپٹی رکھے بغیر بتائو کہ جن لوگوں کی بقول تمہارے، میں دلآزاری کرتا ہوں جب وہ تم سے یا کسی اور سے اپنائیت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں، کیا ان کی اس اپنائیت میں خلوص ہوتا ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’نہیں، تمہاری طرح مجھے بھی علم ہوتا ہے، مگر میں تمہاری طرح ڈنگر نہیں ہوں کہ انہیں بھری محفل میں شرمندہ کروں‘‘۔

بولا:ٹھیک ہے، مانتا ہوں کہ میں ڈنگر ہوں اور تم اپنی طبعی شرافت کی وجہ سے ان کی باتوں پر دندیاں نکالتے رہتے ہو، مگر یہ تو بتائو کہ بالآخر انجام کیا ہوتا ہے؟‘‘ بھولے ڈنگر نے مجھے کائونٹر کر لیا تھا، چنانچہ میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ میں کہوں کہ میں جانتے بوجھتے ایسا کرتا ہوں، مگر ایک وقت آتا ہے کہ وہ مجھے بالکل بے خبر بلکہ بے وقوف بھی سمجھنے لگتے ہیں، اس وقت وہ احتیاط اور اپنی چالاکی بھول کر ایسی حرکتیں کرنے لگتے ہیں کہ ان کی اصلیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے، پھر مجھے بہت صدمہ ہوتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ کیا واقعی یہ وہی شخص ہے جس کی ہزار خامیوں سے واقفیت کے باوجود میں اس سے بہت محبت کرتا تھا‘‘۔

اس دوران ملازم چائے اور باقر خانی لے آیا تھا۔ بھولے ڈنگر نے دو باقر خانیاں توڑ کر بڑے پیالے میں ڈالیں اور پھر ڈنگروں کی طرح کھانے لگا۔ اس دوران اس نے ایک بار پھر مجھے مخاطب کیا اور میری بات سن کر کہا ’’اب اللہ کو حاضر ناظر جان کر بتائو کہ ڈنگر کون ہے، میں یا تم؟ میں شروع میں ہی ایسے لوگوں کو جھنڈی کرا دیتا ہوں اور تم آخر تک اس امید پر انہیں گلے لگائے رکھتے ہوں اور ان کا بھلا سوچتے رہتے ہو کہ یہ بشری کمزوریاں ہیں، ایک دن ٹھیک ہو جائیں گی، اے میرے ڈنگر دوست، بشری کمزوریوں اور دھوکا دہی میں فرق ہوتا ہے، لوگ اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے تمہارا دل اپنے قابو میں کرتے ہیں اور پھر اسے مسل ڈالتے ہیں‘‘۔ میں نے جواب میں کہا ’’بھولے! پھر میں ان سے قطع تعلق بھی تو کر لیتا ہوں‘‘۔ بولا ’’خاک قطع تعلق کرتے ہو۔ کچھ عرصے تک انسانوں کے اس غیر انسانی پہلو پر مغموم رہتے ہو اور پھر انہیں معاف کر دیتے ہو‘‘۔

میں نے جی کڑا کرکے کہا ’’پہلے کر دیا کرتا تھا، اب نہیں کرتا‘‘۔جانے دو مجھ سے زیادہ تمہیں کوئی نہیں جانتا۔ بھولا صحیح کہہ رہا تھا۔

’’یہ ٹھیک ہے تم سے زیادہ مجھے کوئی نہیں جانتا، مگر یہ بتائو کہ ایک شخص کو کسی نے کنویں میں دھکا دے دیا ہو اور اس کے دوست اسے بچانے کے لئے کنویں کے گرد جمع ہوں اور اندر ایک رسہ پھینک کر مجھے اس میں سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہوں، مگر ان میں سے ایک، پاس کھڑا اس دلچسپ تماشے سے محظوظ ہو رہا ہو، کیا میں اسے بھی معاف کر دوں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

اس پر بھولے نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’یار بات کیا ہو رہی تھی اور تم بات کو کدھر لے گئے ہو۔ میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ تم اور تمہارے سارے دوست مجھے بھولا ڈنگر اس لئے کہتے ہیں کہ میں حساب موقع پر ہی برابر کر دیتا ہوں۔ پیارے یہ دنیا ہے۔ یہاں آنکھیں کھول کر چلنا پڑتا ہے۔ تم نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ تم سب کچھ جاننے بوجھنے کے باوجود ایسے مواقع پر اندھے بہرے اور گونگے بن جاتے ہو اور جب پانی سر پر سے گزرنے لگتا ہے تو پھر تم آنکھیں، کان اور زبان کھول لیتے ہو۔ اس وقت ہوش میں آنے کا کیا فائدہ؟ پیارے اس دنیا میں اگر زندہ رہنا ہے تو لوگوں کو وہی سکّے دو جو وہ تمہیں دیتے ہیں۔ یہ پیغام صرف تمہارے لئے نہیں، جو ڈنگر نہیں کہلانا چاہتے مگر انہیں سمجھا ڈنگر ہی جاتا ہے۔

تم نے کالم میں لکھا تھا کہ تم بچے ضرور ہو مگر دودھ پیتے بچے نہیں ہو۔ تم نے جھوٹ لکھا، تم دودھ پیتے بچے ہو اور ساری قوم دودھ پیتے بچوں کی طرح نہیں ہوتی ہے۔ تم سب کے سامنے ملک کے ساتھ جو کھلواڑ ہو رہا ہے، تم دیکھ رہے ہو مگر فیڈر منہ میں لئے بیٹھے ہو۔ تم سب اس وقت بولتے ہو جب پانی سروں پر سے گزرنے لگتا ہے اور ہاں! تم لوگ مجھے بھولا ڈنگر کہتے اور خود کو مہذب شخص سمجھتے ہو۔ ڈنگر وہ ہیں جو ہماری فصلیں اجاڑ رہے ہیں اور مہذب وہ ہیں جو تمہاری طرح گونگے، بہرے اور اندھے بنے ہوئے ہیں اور دیکھو مجھے آئندہ جب کبھی ڈنگر کہو، اس سے پہلے ایک نظر خود پر ضرور ڈال لینا‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے